بخت گزیدہ(2،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

وہ سب ہنسنے لگے اور ایک لڑکا مجھے پیر سے ٹھوکر مارتے ہوئے
” سالا پھٹو” کہتا ہوا چلا گیا۔
جب میں رو رو کر تھک گیا تو خود ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب میں بالکل قلاش تھا، ماسی تاجاں کا دیا ہوا تھیلا اور تھوڑے سے پیسے سب گنوا چکا تھا۔
میرا جسم بری طرح دکھ رہا تھا اور پنڈا بھی گرم تھا۔ میں لڑکھڑاتے ہوئے اٹھا کہ پانی پی لوں مگر شاید میں چکرا کر گر گیا تھا۔
جب میری آنکھ کھلی تو صبح کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور سمندر کی نمکین ہوا آہستگی سے چل رہی تھی اور اس کی نرم روی بالکل اماں کی تھپکی کی طرح جسم کو تھپکتی محسوس ہوئی اور میں کروٹ بدل کر پھر سو گیا۔ کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا، سورج خوب اوپر آ چکا تھا اور دن گرم تھا۔ وہ رات والا لمبا لڑکا میرے سامنے کھڑا تھا اس کے ہاتھوں میں ایک مٹی کی کلیہ میں چائے اور بن تھا۔ میں مربھکوں کی طرح وہ سب چٹ کر گیا۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا لفڑا ہے؟
تو گھر سے کیوں بھاگا ہے رے؟
میں نے مختصراً اس کو اپنی کہانی سنا دی۔
کہنے لگا فکرچ نئ کر اب تم ہمارا آدمی ہے۔

اس طرح میں سلو استاد کے گروپ میں شامل ہو گیا۔ یہ دس بارہ سال سے لیکر سترہ اٹھارہ سال تک کے چار لڑکوں کا گروپ تھا جس کا میں پانچواں ممبر تھا۔ سب مزار کے ہی احاطے میں رہتے تھے اور مختلف کام کرتے تھے۔ سلو استاد نے مجھے جوتوں کے ٹوکن والے چاچا کرمو کے ساتھ نتھی کر دیا۔ کھانا دونوں وقت کا لنگر سے تھا۔ صبح کا ناشتہ اپنی جیب سے۔
میرا ڈر اب خاصا  کم ہو چکا تھا اور زندگی ایک
ڈھرے پر آ چکی تھی۔
یاد کرنے کے لئے کوئی تھا ہی نہیں۔
کبھی کبھی ماسی تاجاں اور فیضو یاد آ جاتے۔ جس رات میں بہت بےچین ہوتا تو وہ سرسراتا ہوا سایہ بھی کچھ دیر کے لئے آ جاتا۔
یہاں سب کی اپنی اپنی کہانی تھی۔ شاقو، اکبر اور شنکر کی کہانیاں بھی مجھ جیسی ہی تھیں۔ شاقو کا باپ مر گیا تھا، ماں نے دوسری شادی کی تو سوتیلا باپ شاقو کے حق میں قصائی ثابت ہوا۔
اکبر کا باپ نشئ تھا، سو اکبر جب بھوکا رہ رہ کر عاجز آ گیا تو وہ خود ہی گھر سے بھاگ کر مزار پر آ گیا۔ سب سے عجیب کہانی تو شنکر کی تھی۔
شنکر کا باپ میونسپلٹی میں جمعدار تھا۔ ماں بھی لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پوچھا کرتی تھی۔ ماں باپ شنکر سے پیار بھی کرتے تھے مگر شنکر کو “چوڑا” کہلوانا پسند نہیں تھا۔ اس لئے وہ گھر چھوڑ کر یہاں آ گیا۔ سب ایک دوسرے کے ماضی سے آگاہ تھے بلکہ سب کے خواب بھی ایک دوسرے کو ازبر تھے۔ شاقو کو پڑھنے کا شوق تھا اور وہ افسری کے خواب دیکھتا تھا۔ اکبرا ہیرو بنے کی آرزو میں مبتلا تھا۔ ہم سب میں شنکر سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا آٹھویں پاس ۔
اسکو استاد بننے کا بہت شوق تھا۔
بس ایک سلو استاد تھا جس کے نہ ماضی سے کوئی آگاہ تھا اور نہ ہی کوئی اس کے خوابوں کا رازداں۔ سلو استاد منہ سے کم اور ہاتھوں سے زیادہ بات کرتا تھا مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کی وجہ سے ہم چاروں جسم فروشی اور نشے اور نشئ سب سے محفوظ تھے۔ سلو استاد ہم سب پر کڑی نظر رکھتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ہماری ڈھال بھی تھا۔
میرا کوئی خواب نہیں تھا۔ مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میں ابا سے اماں کے خون کا بدلہ لوں۔ شاید اسی انتقام کے جزبے نے میرے مزاج میں غصہ اور میرے دبلے پتلے جسم میں بہت طاقت بھر دی تھی۔ میں اپنی عمر سے بھی بڑے لڑکوں سے بھڑ جاتا تھا اسی لیے دو سال کے اندر اندر میں سلو استاد کا دست راست بن گیا۔
جوتوں کی ٹوکن والی نوکری سے میرا جی بھر گیا تھا۔ سلو استادِ نے مجھے مزار کے قریب والے گیراج میں لگوا دیا۔ یہ نوکری میرے جی کو خوب لگی اور میں موٹر کے کل پرزوں سے خوب کھیلنے لگا۔ یہاں مزار پر مجھے تقریباً پانچ سال ہو چلے تھے۔ اب ہم پانچوں ہی ایک دوسرے کا خاندان اور دکھ سکھ کے شریک تھے۔ شنکر نے میڑک کر لیا تھا اور وہ مزار اور مزار کے اطراف کے سارے بچوں کا استاد بن گیا تھا ۔ شنکر سادھو سنت آدمی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں سب کے لیے درد رکھ دیا تھا۔ شقو شنکر کا سب سے ذہین شاگرد تھا۔ اکبر کو کہاں کوئی ایکٹنگ کا چانس ملنا تھا! وہ رات میں اپنی نوٹنکی دیکھا کر ہم لوگوں کا دل خوش کر دیا کرتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کل گیراج کے پاس پیپل کے درخت کی کوہ میں ایک سفید کتیا اپنے چار بچوں کے ساتھ پناہ گزین تھی۔ جانے میرے دل میں کیا سمائی کہ میں اس کو روٹی ڈالنے لگا۔ پہلے پہل تو اس نے مجھے شک کی نظروں سے دیکھا۔ میرے قریب آنے پر غرائی۔
پر شاید جانورں میں باطن کو پرکھنے کی
صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اس نے مجھ پر اعتماد کر لیا اور آرام سے میرا ڈالا ہوا کھانا کھانے لگی بلکہ اب تو یہ عالم تھا کہ بچوں کو میری نگرانی میں چھوڑ کر گھنٹے ڈیڑھ کے لئے کہیں غائب بھی ہو جاتی۔
جب میں ڈانٹتا کہ اتنی دیر کیوں کی؟
تو چپکے سے اپنی تھوتھنی میرے پیروں پر رکھ کر میرے پیر چاٹتی۔ شقو لنگر سے ہم سب کا کھانا لانے کی ڈیوٹی پر مامور تھا۔ جب اس نے موتی( میں نے کتیا کا نام موتی رکھ دیا تھا) کو دیکھا تو اس کے لئے بچی کھچی ہڈیاں بھی لانے لگا۔ بلکہ اب موتی اور اس کے بچے ہم سب کی مشترکہ دلچسپی اور زمہ داری بن گئے تھے۔ جب وہ اپنے بچوں کو باری باری الٹ پلٹ کر چاٹتی تو مجھے بے اختیار اماں کا مجھے لال صابن سے نہلانا یاد آ جاتا۔ میں گیراج میں کام ختم کرنے کے بعد بھی دیر تک موتی کے ساتھ بیٹھتا اور اس سے اور اس کے بچوں سے کھیلتا۔ میرے کھانے میں اگر کبھی کوئی بوٹی آ جاتی تو وہ موتی کے لئے بچا کے رکھ لیتا۔ اب ناشتے میں میں نے ملباری سے ایک
گلاس دودھ بھی لینا شروع کر دیا تھا موتی کے لیے۔ موتی کے میری زندگی میں شامل ہونے کے بعد سے خدا سے میرے گلے شکوے بہت کم ہو گئے تھے۔ میں پھر سے جینے لگا تھا۔ موتی واحد تھی جو اس بھری دنیا میں صرف میری تھی۔ موتی بھی میرے واری صدقے جاتی۔ اس کی دم مجھے دیکھ کر پھرکی کی طرح ہلتی۔ میں اس سے اماں کی باتیں کرتا اور وہ میری ساری باتیں سمجھ جاتی۔ مجھے اداس دیکھ کر اپنا منہ میری گود میں رکھ دیتی۔ جیسے مجھے دلاسا دے رہی ہو۔ اس کی بے زبان ہمدردی میرے دل کا مرہم بن گئی تھی۔ موتی نے میری دنیا مکمل کر دی تھی۔
جب بارش ہوتی تو میں پلاسٹک کی شیٹ لیکر ان سب کو سمیٹ کر بیٹھ جاتا۔ استاد کا خیال تھا کہ میں چریا ہو گیا ہوں۔ مگر میں سب سے بےنیاز موتی کی محبت میں گم تھا۔ پیسے بچا کر میں نے موتی کے لیے ایک خوبصورت چمڑے کا پٹہ خریدا تھا۔
سلو استاد نے مجھے بہت ڈانٹا کہ میں نے اپنے لئے کپڑوں کا جوڑا کیوں نہیں لیا؟
واقعی میرے کپڑے بوسیدہ ہو گئے تھے مگر مجھے جو خوشی موتی کو پٹہ پہنا کر حاصل ہوئی تھی وہ مجھے نیا جوڑا پہن کر کبھی بھی حاصل نہ ہوتی۔ اب سردیاں شروع ہو گئی تھیں اس لئے میں اپنا لحاف لیکر موتی اور اس کے بچوں کے پاس آ جاتا اور ہم سب گرما کر سکون سے سو جاتے۔ پھر موتی کے بچے بڑے ہو گئے اور چارو ادھر ادھر چلے گئے۔ موتی کچھ دن اداس رہی پھر بہل گئ۔ اس کا مجھ سے پیار اور بڑھ گیا تھا۔ مجھے موتی کے قرب سے ویسا ہی سکون ملتا جیسا اماں کے ساتھ میں تھا۔ اس کی قربت میں تحفظ اور پناہ تھی۔
مجھے یاد ہے وہ عرس کا دن تھا گیراج بند تھا اور سلو استاد نے مجھے مزار پر رش زیادہ ہونے کی وجہ سے جوتوں کے ٹوکن پر کرمو چاچا کے ساتھ بیٹھا دیا تھا۔ اس دن اس قدر رش تھا کہ مجھے کھانا کھانے کا بھی موقع نہیں ملا تھا۔ مجھے اپنی بھوک کی پروا نہیں تھی۔ مجھے موتی کی بھوک تڑپا رہی تھی۔ سارا دن گزر گیا، عرس کی وجہ سے رات میں دن سے بھی زیادہ بھیڑ تھی ۔ مغرب کے
بعد شقو میرے لئے کھانا لیکر آیا۔ میں نے بےتابی سے موتی کا پوچھا۔ شقو نے کہا کہ وہ کوشش کرتا ہے کہ موتی کو کچھ دے آئے۔ رات دو بجے میرا تھکن سے برا حال تھا۔ میں نے چاچا کرمو سے کہا کہ بس اب میں اور نہیں بیٹھ سکتا۔ اس نے کہا کہ ہاں اب تو جا، میں اکیلا سنبھال لوں گا۔
ابھی میں مزار کے بڑے دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا میں نے شقو اور شنکر کو گیراج کی طرف بھاگتے دیکھا۔ میرے ذہن میں پہلا خیال موتی کا آیا اور میں بےجان ہوتی ٹانگوں سے جتنا تیز بھاگ سکتا تھا بھاگا۔ میں درخت کے قریب پہنچا ہی تھا کہ مجھے سلو استاد اور اکبر نے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور کہا کہ
“نہ تو آگے نہ جا، نہ تو آگے نہ جا”۔
میں بےقراری سے موتی کو پکار رہا تھا۔ میں نے ایک کمزور سی “کوں” سنی اور ایک جھٹکے سے خود کو ان دونوں کی گرفت سے چھڑا لیا۔ سامنے موتی تڑپ رہی تھی اور اس کی باچھو سے خون رس کر مٹی میں جزب ہو رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہلکی سی دم ہلائی اور سر کو اٹھانا چاہا مگر اٹھا نہ
سکی۔ اس کی آنکھوں کی جوت ماند پڑ رہی تھی۔ اس پر جانکنی طاری تھی۔ میں بےاختیار موتی سے لپٹ گیا اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر چومنے لگا۔
اس نے بڑی کوشش سے اپنا سر اٹھایا اور آخری بار میرے گال کو چاٹا پھر وہ بے دم ہو گی۔
مجھے نہیں پتہ میں کتنی دیر تک اس کو گلے لگا کر بلک بلک کر روتا رہا۔
“نہیں موتی نہیں، خدا کے لئے نہیں”۔
مجھے لگا آج ایک دفعہ پھر اماں مر گئ ہے۔
اسی پیپل کے درخت کے نیچے اکبر اور شقو نے اس کی قبر کھودی اور اس کو دفنا دیا۔ میں کئی دن بےحواس رہا ہذیان بکتا رہا۔ جب زرا ہوش میں آیا تو موتی کی قبر کا مجاور بن گیا۔ میرا تو دل ہی خالی ہو گیا تھا۔ زندگی پہلے بھی میرے لیے بے معنی تھی اور اب تو دنیا کا وجود ہی سمجھ سے بالاتر تھا۔
اللہ تعالیٰ سے میرے شکوے از سر نو تازہ ہو گئے تھے بلکہ اب تو میں باقاعدہ اللہ سے خفا ہو گیا تھا۔
ان دنوں مجھے شنکر نے سنبھالا، بہت سہارا دیا۔ گھنٹوں میرے ساتھ لگا رہتا۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے
نوالہ بنا کر کھلا تا مجھ سے باتیں کرتا، مجھے بہلانے کی کوشش کرتا۔
بہت دن کے بعد اکبر نے مجھے بتایا کہ اس رات اس علاقے میں چار کتے زہر خورانی سے مرے تھے۔ پتہ نہیں کس شقی القلب نے گوشت میں زہر ملا کر ان کتوں کے آگے ڈال دیا تھا۔ میری بھوکی موتی بھی انسان کے جھانسے میں آگئی۔
میرے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ
زہر بھی تو مول ملتا ہے؟
مفت تو نہیں ملتا نا!
پھر انسان زہر ہی کیوں خریدتا ہے؟
روٹی کیوں نہیں خریدتا ؟
زہر سے سستی تو روٹی ہوتی ہے۔
بھوکے کو زہر سے مارنے کے بجائے روٹی سے بھوک کو کیوں نہیں مار دیتا؟
انسان زندگی کیوں نہیں دیتا؟
موت ہی کیوں بانٹتا ہے؟
آخر کیوں؟
بتاؤ نا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply