تتھا استو، رضینا با لقضا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

رندہزارشیوہ را طاعت حق گراں بود
لیک صنم بہ سجدہ در ناصیہ مشترک نخواست
(غالبؔ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھپ اندھیرا تھا شوالے میں ، مگر
ٹھنڈی، ملائم روشنی کا ایک ہالہ
دیوتا کی مورتی کو نور سے نہلا رہا تھا
مورتی کے چوڑے ماتھے پر
ہلالی تلک کا روشن نشاں تھا
چاند کی اک قاش سے جیسے شعائیں پھوٹتی ہوں
میں اندھیرے کی ردا اوڑھے ہوئے تھا
پھر بھی مں اپنی انا کے نور سے بھیگا ہوا تھا
میرے اندر روشنی تھی!
دیوتا اک دھیمے لہجے میں ہنسا ۔۔
بولا۔’’ سوالی، مانگنا کیا چاہتے ہو؟
یہ کمنڈل تو تمہارا نعمتوں سے پُر دکھائی دے رہا ہے۔”
میں نے کچھ کہنے کو لب کھولے، مگر وہ جانتا تھا ۔۔
جانتا تھا، میں انا پرور ہوں ، اک معبود کو ہی مانتا ہوں
اور آیا اس لئے ہوں
تاکہ اس کی بخششوں کو ایسے ٹھکراؤں
کہ مجھ کو بھیک دینا بھول جائے
اور مںھ اپنی انا اوڑھے ہوئے ہی لوٹ جاؤں!
دیوتا پھر ہنس کے بولا ۔۔
۔جو تمہارا حق تھا، وہ تم مندروں میں دیوتاؤں سے
بہت پہلے ہی جا کر لے چکے ہو
آئے آخر کس لیے ہو؟
مجھ سے کچھ لینا اگر ہے۔۔۔صرف مجھ سے مانگ کر لو
شرک کو تیاگو، سوالی
ہاں ، اگر میری کسی بخشش کو ٹھکرا کر
انانیت تمہاری مطمئن ہوتی ہے، تو۔۔۔لو !
دان دیتا ہوں تمہں میں ایک لمبی زندگی کا
۔۔۔۔ اس کو ٹھکراؤ، تو جانوں ۔”
ایک لمحے میں تو صدیاں بھی گزر سکتی تھیں ، لیکن
میں تو اک معبود کا عابد بھی بننے سے گریزاں تھا ۔۔
کہا میں نے ، ’’تتھا استو، رضینا بالقضا۔۔ٹھکرا دیا!”
اور لوٹ آیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غالب کے شعر کا آزاد ترجمہ

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply