چکوری(1)۔۔ افتخار بلوچ

کمرہ خوشبو سے بھرا ہوا تھا, جیسے کوئی باغ ہو ,جسے دل کے خون سے سیراب کیا گیا ہو۔ کمرے کی چاروں دیواروں پر تصویریں چسپاں تھیں۔ یہ تصویریں اپنے مصور کے اظہارِ فن کا ایسا نمونہ تھیں جیسے کسی گھنیرے جنگل میں رات کے آخری پہر کوئی کوئل بول کر زندگی کی موجودگی کا ثبوت دیتی ہے۔ زندگی اپنے وجود کے ثبوت مانگتی ہے کچھ لوگ تو یہ ثبوت ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر جاتے ہیں اور کچھ بذاتِ خود زندگی کا ثبوت بن جاتے ہیں۔ ماہین بھی ان آخر الذکر لوگوں میں سے تھی اور اس وقت وہ کمرے کے کونے میں پڑے صوفے پر بیٹھی انتہائی گہری خاموشی سے کچھ سوچے جارہی تھی اُس کا چہرہ سپاٹ تھا جیسے خون کی گردش رک گئی ہو۔ وقت اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود کسی ایک نکتے میں سمٹ کر رہ گیا ہو اور شاید وہ نکتہ فرش کے نقش کا کوئی نکتہ تھا جس پر ماہین کی نگاہیں نجانے کب سے مرکوز تھیں۔

تصویروں کی فراوانی سے یہ احساس ہوتا تھا جیسے کمرے میں ماہین کی کوئی جگہ نہیں اور لوگو! یہی تو مسئلہ ہے کہ کبھی کبھی انسان کو اپنی ذات میں ہی جگہ نہیں ملتی! ماہین بھی اسی دھند میں کسی اَن دیکھے راستے کی مسافر تھی جسے برسوں بعد خودارادی نے اس بات پر مجبور کر رکھا تھا کہ وہ اپنے ہی جذبات کے تلاطم میں اپنی ذات کو ڈھونڈے اور یہ یقینی طور پر مشکل کام تھا۔ یہ سوالات ماہین کی خاطر کیکر کے کانٹے کی مانند تھے جو بکریاں چراتے ہوئے چرواہے کے پیروں میں اچانک اپنے اندر کی وحشت کو منتقل کر دیتے ہیں۔

اب تک ماہین کے خیال میں وہ فرشی نکتہ جس پر اُس کی نگاہیں رک چکی تھیں پھیل کر ایک قدِ آدم پھول بن چکا تھا جس کی رنگت اور خوشبو کے طلسمات میں ماہین کو ایک اور نکتے کی تلاش تھی اور بات صرف اتنی تھی کہ اس خیالی پھول کے ادھورے پن کا اسے مکمل ادراک بھی تھا اور پھول خود بھی نامعلوم تھا جیسے کچھ ہو بھی اور کچھ نہ بھی ہو ۔ ماہین کا دل نامعلوم کی جانب مائل تھا بلکہ عاشق تھا وہ اس خیالی پھول کی حقیقت کے بارے میں سوچ رہی تھی اس وجہ سے خیال کی ظاہری تصویر ماہین کے لئے اپنی تمام تر رعنائی کھو چکی تھی۔

زندگی یہی تو ہے کہ وقت کے آنے والے لمحے بھی انسان کی طرف آتے ہیں اور انسان خود بھی ان کی طرف جاتا ہے اور ماہین تو ماضی اور مستقبل کے درمیان حال میں تھی اور حال بھی کیا ناامید، ادھورا، خالی اور ناکارہ۔

اسی اثناء میں دروازہ ایک زوردار جھٹکے سے کھلا اور مریم داخل ہوئی۔ اُس کے بکھرے ہوئے گرد آلود بال اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اُس کے مالک نے جیسے برسوں سے اُس کی طرف توجہ نہیں کی۔ ماہین نے مریم کو دیکھتے ہی کہا۔۔

“جو شاخ ساون میں پھوٹتی ہے وہ شاخ تم ہو،
جو پینگھ بارش کے بعد بن بن کے ٹوٹتی ہے وہ پینگھ تم ہو،
تمہارے ہی ساقِ صندلیں سے سمندروں نے نمک لیا ہے،
تمہارے ہونٹوں سے ساعتوں نے سماعتوں کا سبق لیا ہے،
تمہارا میرا معاملہ ہی جدا ہے مریم،
تمہیں تو سب کچھ پتہ ہے مریم ”

یہ مصرعے سن کر مریم کی آنکھیں اور ویران ہو گئیں اور ماہین کے ذہن میں بھی اُس خیالی پھول کا نقش دھندلانے لگا۔
“ہاں معاملہ جدا ہی تو ہے ماہین! بہت جدا ہے معاملہ اور اسی وجہ سے تو مجھے   یہ حشر نصیب ہوا ہے۔ تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ کچھ میرے حقوق بھی ہیں جو تم نے ادا کرنے ہیں۔ ذرا دیکھو تو مجھے کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی کی رونق ہے اور تم مجھ سے ہی بے خبر ہو، میں تمہاری ضرورت ہوں مجھے سنبھالو تاکہ کچھ معقول طریقے سے جی سکو  ” مریم نے بپھرتے ہوئے کہا۔

ماہین نے مریم کی بات پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے وہ پھول پھر توانا ہوگیا جس کی کشش ماہین کو پھر اپنی طرف بلانے لگی۔ ماہین نے ایک آہ بھری اور وہ آہ مریم کو کسی بجلی کی مانند محسوس ہوئی۔۔
“میں اپنی ضروریات کو دفنا آئی ہوں مجھ پر سوچ کا موسم ہے اور تم دنیا کی طرح ہو اور مجھے دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ مجھے اب عیش و آرام کے خواب نہیں آتے جب خواہشِ عیش ہی نہ رہے میری جان تو پھر وجودِ عیش کیا؟ اور تم سوائے عیش کے کچھ نہیں ہو  ” ماہین نے مضبوط لہجے سے کہا ۔

ماہین پر پچھلے کچھ عرصے سے سوچیں اتنی سوار تھیں کہ اسے اپنے چہرے پر سختی  کا ادراک ہی نہ رہا تھا جو سپاٹ تھا جس پر کسی جذبے کا رنگ نہیں ابھرتا تھا بس سوچ کی دھند چھائی رہتی تھی جیسے دامان کی شام کا کوئی کھویا ہوا منظر ہو، مریم بھی یہ جواب سن کر نہ سمجھ سکی کہ آخر کون ہے جو ماہین کو اتنا لاپرواہ کر گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر چلی گئی اور ماہین دوبارہ اسی نکتے کو دیکھنے لگی جو اس کے لیے پھول بن گیا تھا اور یہ پھول اتنا حسین بن چکا تھا کہ اب اس کے حُسن سے ماہین کی آزادی ناممکن نظر آتی تھی۔

حُسن کوئی ثباتی وجود ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور نہ ہی اسے تغیّر کے تھپڑ جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ تو بس اپنا زمانہ اور اپنا ٹھکانہ بدلتا ہے اور مزید حسیں تر اور جوان ہوتا جاتا ہے۔ یہی کیفیت اس پھول میں تھی جو ماہین کے لیے کائنات کی حسین ترین چیز بن چکا تھا۔ بہت عرصے بعد آج ماہین سے ربیعہ نے ملاقات کی تھی۔ ربیعہ ماہین کے لیے اتنی اہم تھی جتنی ہم جیسے لوگوں کے لیے آوارگی۔۔

خیال کی آوارگی ہی دیواروں پر لگی ہوئی تصویروں کا محرک تھی اور ربیعہ ہی ماہین کے لیے اس آوارگیِ خیال کی جنم بھومی تھی۔ ماہین کی بے اعتنائی سے پریشان ہو کر ربیعہ نے شاید آخری کوشش کی تھی کہ ماہین کے لیے وہ دوبارہ اہم  ہو جائے اور یہ کام کرنے کے لیے ربیعہ نے ماہین کے سامنے ماہین کی ذات کے انکار رکھے تھے اور اُس کے جذبات کو نقلی ثابت کرنے کے لیے ربیعہ نے ماہین کی تخلیقی صلاحیتوں کو مادہ پرست قرار دیا تھا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ ماہین کے لیے اب بھی منظر کا اندرونی پیغام ایک غیب کی پہیلی ہے اور یہی پہیلی سلجھانے کے بعد ہی تصویر کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔

ربیعہ  بذاتِ خود وہ حقیقی سراپا تھا جو خیال کے زور پر مصوری کو پروان چڑھاتا ہے اور باقی ہر شے کو ماند کردیتا ہے جیسے چیت کی چودہویں کا چاند صحراؤں کے ہر درد کو نیم جان کر کے حُسن کی وہ تصویر پیدا کرتا ہے کہ پھر چکوروں کو زخم آتے ہیں۔

ماہین کے خیالات کا پھول ایک جاندار جسم بننے لگا جس میں روح کی تپش محسوس ہونے لگی اور ماہین بے خود ہوتی چلی گئی۔ کھڑکی سے باہر رات کا رقص بھی اپنے عروج پر تھا۔ تنہائی میں تخلیق کے اس جادو سے تو ماہین کو محبت ہونے لگی حالانکہ طبعی اعتبار سے تنہائی ماہین کے لیے کسی ٹھنڈے خنجر سے کم نہیں تھی۔
رفتہ رفتہ یہ جاندار پھول ربیعہ کا چہرہ بن گیا جس کی آنکھیں گلابی رنگت کی پتیوں سے جھانک کر ماہین سے باتیں کرنے لگیں۔ ماہین کو ایک پل کے لیے ایسی اپنائیت کا احساس ہوا کہ اُسے لگا جیسے اُسے اپنے ہونے کا راز معلوم ہو گیا ہے۔ آخر مصوروں کی دولت بھی کیا ہے انگلیوں کے رقص پر تنی ہوئی آنکھیں اور ذہن میں ربیعہ جیسے ناچتے ہوئے خیال،ناچتا ہوا خیال اور سوچتی ہوئی عورت کائنات کی خوبصورت ترین چیزیں ہیں اور رات کے اس لمحے میں ماہین ان دونوں عناصر کا مرکب تھی۔ ناچتا ہوا خیال جو ربیعہ کا روپ دھار چکا تھا اور سوچتی ہوئی ماہین۔۔

اس خیالی زور میں ماہین کو یہ احساس بھی نہ رہا تھا کہ اُس کے پاؤں زمین پر ٹکے ہیں اور اور خاموشی کے عالم میں درویش نما سایہ اُسے دیکھے جارہا ہے وہ خود سے بے خبر ہونے کے کافی قریب تھی۔
ماہین کے ہاتھ تصویر کو حُسن دینا خوب جانتے تھے مگر یہ پھول ایسے ہوچکا تھا کہ اُسے کچھ معلوم نہ تھا کہ اسے آخر کس قسم کی تصویر میں ڈھانپ کر بنایا جائے یہ پھول جیسے سانس کا بُلبلہ تھا جس میں ماہین کی پوری ذات سما چکی تھی۔ سکوت و جمود کے اس منظر کو کوئی ہلکی سی آہٹ بھی برباد کر سکتی تھی اور ایسا ہی ہوا اچانک دروازہ کھلا اور کشف داخل ہوئی۔ دروازے کی آواز سے ماہین کا خیالی پھول دھواں ہوگیا اُسے ایسے لگا جیسے کسی نے اُسے جلا کر پھر راکھ بھی اُڑا دی ہو۔ ہوا کے دوش پر اڑتی ہوئی راکھ جو نجانے کتنے جزیروں پر ٹھہرے کہاں کہاں قیام کرے۔ محبت کے جزیرے، فکر کے جزیرے اور اپنی تلاش کے جزیرے۔ نجانے کہاں جا رکے۔۔

کشف نے آتے ہی ماہین پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی وہ اُس کی دوست تھی اور ماہین کی ہر تصویر کو تکمیل دینے میں اُس کا حصہ ہوتا تھا شاید وہ اُس کے ذہن کے ضمیر کی آواز تھی۔ وہ تخلیق کی مخالفت میں اتنا شور مچاتی تھی کہ تخلیق خود بخود نکھرنے لگتی تھی۔ وہی کشف تو تھی جو بتاتی تھی کہ یوں نہیں یوں کرو۔ نہیں یہ رنگ نہیں اس میں شدت ہے تم ایسا کرو کوئی رنگ نہ دو بس ایک خاکہ ہی بنا دو۔ نہیں خاکہ نہیں کچھ تو رنگ بھرو دیکھو زندگی کتنی رنگین ہے اور اداس ہے!

“کیا سوچ رہی ہو ایسا کہ تمہاری آنکھیں بتا رہی ہیں نہ کچھ سوچا جا رہا ہے اور نہ کچھ نظر آرہا ہے تمہیں ۔ نجانے کیوں مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ تم اپنے ذہن کے کسی جال میں پھنس چکی ہو کیا بات ہے؟ ”
کشف نے تفکر بھرے لہجے سے کہا۔
ماہین خیالی جمود سے باہر آچکی تھی اُس کے لیے دوبارہ باہر کے تمام منظر ایک حقیقت بن چکے تھے۔ اُس نے ان حقائق کا ادراک کرتے ہوئے کہا ” یہ فرش کے نقش کا نکتہ جو کہ پھول بن گیا جس سے ربیعہ کی آنکھیں چھلک پڑیں اور مجھے کسی خالی پن سے دیکھنے لگیں یہ نکتہ کشف اب مجھے اس الجھن میں ڈال چکا ہے کہ میں اسے کیا روپ دوں؟ میں اس میں کائنات کی ساری حقیقتیں دیکھنا بھی چاہتی ہوں اس کے ذریعے دکھانا بھی چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں یہ چاہے کینوس پر جو روپ اختیار کرے مگر یہ کلام کرے یہ بات کرے اس کی آواز ہو اور یہ اپنے رنگوں سے اپنی آواز سے ہر چیز میں میرے شعور کو منتقل کردے۔ پھر ایسا ہو کہ اس پھول کو دیکھنے والے وہ بن جائیں جن میں مجھے اپنا آپ دکھائی دے۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ اس تصویر کے ذریعے سے تمام منظر میرے ہمراز بن جائیں!

کشف یہ سن کر حیران رہ گئی وہ خاموشی سے ماہین کے چہرے کو دیکھنے لگی جو اُسے پھول نظر آنے لگا!

“تم بھی کائنات کی ہمراز بن جاؤ! جنگل کی خاموشی میں سمندر کی گہرائیوں کے سکوت کو سمجھنے لگو۔ تم بھی یوں ہو جاؤ کہ گزشتہ زمانوں کے تمام افسانے تمہیں اپنی ذات کا حصہ محسوس ہونے لگیں۔ تمہیں ایسا لگے کہ تاریخ کا ہر دور تم خود ہو! تم جھیلوں کی دوست بن جاؤ پھول بن جاؤ اور ارے پاگل خوشبو کی فکر چھوڑو تصویر خوشبو ہے اور جب یہ مہکی تو خود کلام پیدا ہو جائے گا۔ مگر تم پھول اُس وقت بنو گی جب تم اپنے آپ میں واپس آؤ گی اپنا سامنا کرو گی تم جھیلوں کی دوست بن جاؤ گی۔ پتہ ہے تمہارا راز کیا ہے؟ تم درخت کی نچلی شاخ سے بارش کے قطروں کو گرتے ہوئے دیکھتی ہو تو خوش ہو جاتی ہو تم چھوٹی چھوٹی خوشیاں اکٹھی کرتی رہی ہو اپنے ماضی میں اور یہی تمہاری معصومیت تھی یہی تمہارا راز تھا پہچان تھی مگر جب سے تم نے نامعلوم سمت کے کالے راستوں کا سفر شروع کیا تم کھو گئی مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ایک دن اپنے آپ کو ہی نہ بھول جاؤ۔ اب یہ کالے راستے چاہے تو دنیا سمجھو چاہے تو دل کے طلسم جو آج تک کسی سے حل نہیں ہوئے اور تم سمجھو کیوں کہ تمہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تم بھی باقی ہر چیز کی طرح ہو اگر کوئی شناخت کا فرق ہے تو وہ معصومیت ہے تم یہ خزانہ سنبھالو تمہاری تصویر میں کلام پیدا ہو جائے گا! ”
کشف نے دھیمے لہجے میں ذہنی پختگی کے سارے راز اکٹھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply