چکوری(2،آخری حصّہ)۔۔ افتخار بلوچ

ماہین دوبارہ اسی پھول کو سوچنے لگی۔ پھول، کہ جس کی دھندلی سی تصویر اُس کے ذہن میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ یہ تصویر ماہین کو اس لمحے ایسے محسوس ہوئی جیسے غیب کا کوئی منظر ہو، پھر اُس کی حیرانی میں اضافہ ہو گیا وہ سوچنے لگی کہ جو چیز چند ساعتیں پہلے میری دسترس میں تھی اب اجنبی کیوں ہے، اُسے یقین ہو گیا کہ تخلیق کا عظیم لمحہ صابن کی جھاگ کے بلبلے میں قید ہونے والی ہوا کی طرح اب پھٹ چکا ہے اور ایک بھدا سا نقش رہ گیا ہے ایک دھواں سا رہ گیا ہے۔ وہ مضطرب ہوگئی۔

“کشف، میں اکثر سوچتی ہوں کہ میری حقیقت کیا ہے۔ کیا وہ تصویر میری حقیقت ہے جو سوچتے ہوئے لمحے میں مجھے دکھائی دیتی ہے یا پھر دنیا کی گرد میں گم میری ہستی حقیقت ہے۔ حقیقت خود کیا ہے؟ جبکہ خواہشوں کو کوئی جادو چاٹ چکا ہے اور اندر اتنی خاموشی ہے کہ اپنی آواز بھی جھوٹ محسوس ہوتی ہے کیا حقیقت ہے؟ مجھے اپنے اندر جگہ نہیں ملتی میں باہر جانا چاہتی ہوں تو ایسا لگتا ہے ہر چیز جیسے سرنگا پٹم کا قلعہ ہو جسے سر کرنا میرے زور سے باہر ہے. مجھے بتاؤ کہ کیا ہے یہ؟”
ماہین کے لہجے میں محرومیت اور امید کا امتزاج نکھر اٹھا،کشف بھی بہت متوجہ تھی مگر اُس کے پاس جواب نہیں تھے اُس نے بس اتنا کہا کہ ” تم اُسے حقیقت مان لو کہ جس میں تمہیں یہ لگے کہ تم فضول نہیں ہو، چاہے پھر وہ خیال ہو باہر کا منظر ہو درد ہو یا دنیا کے جھمیلے ہوں۔ میں تو کہتی ہوں کہ اپنی تصویر کو ہی حقیقت مان لو”
یہ کہ کر کشف اٹھی اور باہر نکل گئی۔

کشف کے جانے کے بعد پھر کمرے میں تنہائی اور خاموشی باقی رہ گئی۔ ماہین کو سوچیں تنگ کرنے لگیں کہ سوال بھی ادھورے ہیں خیال بھی ادھورے ہیں تصویر بھی ادھوری ہے اور جواب بھی ادھورے ہیں بس یہ خاموشی اور تنہائی ہی جیسے مکمل ہو۔ کاش کہ ان کے بانجھ پن سے وہ روشنی پیدا ہو جو ان الجھنوں کو دورکرسکے اگر یہ ممکن نہیں تو بجلی ہی چمک پڑے ان میں جو مجھے بھسم کر ڈالے جیسے محبت دل کو جلا دیتی ہے۔ مگر ایسا کیا ہونا، ایسا ہوا ہی کب ہے؟

اب ماہین کے دماغ میں پھول تو نہیں تھا البتہ پھول کو کھوجنے کی خواہش ضرور تھی مگر یہ لمحہ یہ خاموش لمحہ نجانے کتنا طویل ہو چکا تھا کہ کسی عمل کے اختصار کی وہ داستان تھی جس کا اثر اُس کے چہرے کے بدلتے ہوئے زاویوں میں نظر آ رہا تھا۔ ماہین کو یہ لمحہ خاص محسوس ہو رہا تھا مگر عجیب سی عامیت کے رنگوں کے ساتھ، بس ایک رنگ جو تسلسل سے اس لمحے میں نظر آرہا تھا وہ نامکمل پن تھا۔ اُسے الجھن محسوس ہورہی تھی کہ نامکمل خیال بھی کہیں کھو گیا ہے اور کشف نے بھی گفتگو کو مکمل نہیں کیا اور ایسے اٹھ کر چلتی بنی جیسے دامان کی ویرانی پر بھول کر آ جانے والی بارش ہو،
جب ماہین مکمل طور پر اندر کے خالی پن سے اکتا گئی تو اُس نے وقت کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ وقت کی بے یقینی اور بے اعتباری پھر اس پر دو طرفہ تماشا  یہ کہ اس کی تبدیلی ماہین کے ذہن میں سوال بن کر گردش کرنے لگے جن کا جواب وہ اپنے ماضی اور اپنے خوابوں میں ڈھونڈنے لگی۔ اُسے یاد آنے لگا کہ کیسے بہت سارے جان سے پیارے خواب اُسے بھول گئے وقت کی دھول میں گم ہوگئے۔ اُسے تکلیف ہونے لگی کہ کتنے ضروری کام اُس نے نہیں کیے۔ اُسے یاد آنے لگا کہ کیسے امر ہوجانے والے لمحات یاد بن گئے اور اب دل کو جلاتے ہیں۔ وقت کو سوچنے کا عمل بھی بہت جلد ایک طلسم بن گیا۔ ہر لمحے میں اُسے دو روپ نظر آنے لگے اور دونوں ہی اُس کے اپنے روپ تھے۔ یہ بات اُس کے دل کو اور الجھا گئی اور اُس نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ ان دونوں چہروں میں سے کون سا اُس کا اپنا ہے کون سا چہرہ اُس کی حقیقت ہے دھوکا نہیں ہے۔ بہت دیر تک ساکت و جامد بیٹھنے کے بعد جب اُس کی بڑی بہن نوشین نے اُس کو آواز دی تو ماہین کے ذہن میں کوئی واضح تصویر موجود نہ تھی اُسے ایسا لگا جیسے سچائی بھی راستے کی دھول ہو اور ہر آنے جانے والا قدم اُس دھول کو اڑا کر کسی اور جگہ پہنچا دے۔ جہاں بھی یہ دھول محسوس ہو وہی جگہ راستہ لگے اور پھر یہ دھول کہیں اور ٹھکانہ بنا لے۔ یوں انسان اس پہیلی میں گھومتا ہی رہے جس کا شاید کوئی دروازہ ہو شاید کوئی اُس تک پہنچا بھی ہو،

نوشین نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا “پاگل، یہاں بت کر بیٹھی ہو وقت دیکھو کتنا ہو گیا ہے اور ابھی تک تم نے میرا کام بھی نہیں کیا”. نوشین کی جھنجھلاہٹ واضح تھی۔ ماہین اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی اور جیسے ہی وہ دروازے سے باہر نکلی اُسے ایسے لگا جیسے وہ سایہ ہو اور اُس کا وجود وہیں صوفے پر موجود ہو خاموش اور تنہا، الجھا ہوا ایسی الجھنوں کا کہ الجھن کا احساس بھی نہ ہو اور درد بھی نہ جائے مگر وہ رکی نہیں اس کے قدم اٹھتے رہے۔ نوشین نجانے پیچھے کیا کچھ کہتی رہی بہر حال وہ جو بھی کہتی رہی ماہین کو اُس کی کچھ پروا نہیں تھی۔

وہ رات بھی گزر گئی۔ صبح سارا دن آفس میں کام کرنے کے بعد جب وہ گھر پہنچی تو اُسے اپنی حالت پر غصہ آرہا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ غصہ باقی گھر والوں پر ایک خوبصورت نخرے کی صورت میں نازل ہونے لگا جسے ماہین کے گھر والے کسی سامانِ لطف اندوزی سے کم نہ سمجھتے تھے۔

آج وہ اپنے آفس کے سٹاپ پر اترنے کی بجائے کوئی دو کلومیٹر دور جا کر اتری تھی جہاں سڑک کو ایک خوبصورت موڑ آتا تھا۔ ماہین کو اس موڑ کے ساتھ احساس ہوا تھا کہ اُسے بھی ایک خوبصورت موڑ کی ضرورت ہے جو زندگی کے سفر کی جہت بدل دے اور کئی یادیں، خیال اور خواب ایک زناٹے کے ساتھ اُس کے تصور کے کینوس پر چھپے اور بکھر گئے تھے۔ مگر اس خوبصورت موڑ کے اُس کی زندگی میں فی الحال امکانات بہت کم ہی تھے۔

کافی دیر کے اصرار کے بعد جب اُس نے اپنی والدہ کو یہ واردات سنائی تھی تو وہ ہنسنے لگی تھیں۔ یہ جاننا مشکل تھا کہ اُن کی ہنسی اپنی بیٹی کی بیوقوفی کی وجہ سے ہے یا معصومیت کی وجہ سے ہے۔
معصومیت پر تو پیار آتا ہے ہنسی تو ذلت پر آتی ہے شاید کسی کو دوسرے کی ذلت دیکھ کر رونا آتا ہو مگر یقین کیجیے وہ شخص پھر عہدِ ماضی کا باشندہ ہے عہدِ حاضر میں ایسے دل ناخنوں سے چھیل دیے جاتے ہیں۔

اپنی والدہ کو ہنستے دیکھ کر ماہین کا غصے نما نخرہ اور زیادہ ہوگیا اور وہ دوبارہ اُسی کمرے میں چلی گئی جہاں پچھلی رات والی تنہائی اور خاموشی اُس کی منتظر تھیں۔ اُسے کمرے میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا تھا کہ یہ بھی کیا ظالم تنہائی ہے جو خاموش منظر میں ہوتی ہے اس سے تو انسان کو خوف آتا ہے۔ اگر محفل اور دنیا کے شور میں بھی تنہائی کا احساس ہو تو کم از کم یہ دلاسا ضرور رہتا ہے کہ کوئی ساتھ تو ہے چاہے منافق بن کر ہی ساتھ ہے، مگر اس تنہائی سے رشتوں کے اعتبار ختم ہو جاتے ہیں۔ خاک اس محفل پر جہاں تعلق ہی بے اعتبار ہو اس سے بہتر تو یہی تنہائی ہے جو انسان کو ڈس لے مگر خود مخلص ہو اور تنہائی دوست ہوتی ہے ان لوگوں کی جن کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔

ماہین کو زندگی کی لہروں کا زور یہ سبق سکھا چکا تھا کہ جھوٹی محفلوں سے بہتر ہے کہ ظلم بھری تنہائی ہو اسی لیے تو اُسے اس تصویروں سے بھرے کمرے سے محبت تھی جہاں کے فرش کا نکتہ بھی کل اُس کے لیے پھول بن گیا تھا مگر آج محض نکتہ ہی تھا۔ ہستی بھی تو ایک نکتہ ہے وقت کی سکرین پر چھپا ہوا ایک نکتہ، یہ نکتہ بھی تب تک زندہ ہے جب تک اس نکتے کو سنبھالے ہوئے منظر کی زندگی ہے جیسے ہی منظر بدلا نکتہ بھی بدل جاتا ہے بدلتا کہاں ہے مر جاتا ہے، ہستی بھی ایک نکتہ ہی تو ہے چاہے پھر اپنے وجود کے ثبوت کے لیے ہو یا کسی اور کے وجود کے ثبوت کے لیے جس کا نام یہ بلائے جان محبت ہے، یہ خیال آتے ہی اس کے جسم میں سرسری سی دوڑ گئی۔ محبت ماہین سے کرنے والے چاہے بہت لوگ ہوں مگر ماہین کے لیے محبت ماضی کا وہ ٹوٹا ہوا آئنہ تھی جس میں وہ اپنا آپ دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی کسی قیمت پر بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی. مگر اگلے ہی لمحے تنہائی نے اس کے اندر ایک مدہم سی خواہش پیدا کی کہ کاش کوئی اُس سے محبت کرے بس محبت کرے تقاضا نہ کرے مگر یہ احساس بھی دھواں ہوگیا۔ بہر حال تنہائی قربت کا احساس تو دلا گئی تھی۔۔۔۔

وہ پھر تڑپ محسوس کرنے لگی کہ کہاں جائے وہ محفل کی طرف جائے جہاں منافقت ہے۔ نہیں نہیں نہیں، اُس کے اندر کی آواز شدت سے چیخ اٹھی۔

اُس نے سوچا کہ اگر ایسا ہے تو پھر اپنی طرف واپس آیا جائے مگر اپنی سمت کی بے یقینی نے اُسے متنفر کردیا تھا۔ اُس نے سوچا کیوں نہ قدرت کے حُسن کی طرف چلا جائے مگر یہاں بھی اُسے ایسا لگا کہ قدرت کے جتنے بھی قریب پہنچا جائے وہ پراسرار ہی رہتی ہےاور ماہین کو تو راز جاننے میں بہت دلچسپی تھی۔ وہ راز کے آخری کناروں تک جانے کی جستجو کرتی تھی اور جب وہ پہنچ نہ پاتی تو جستجو کو ہی مار دیتی تھی۔ کتنی دفعہ اُس نے قدرت کے ساتھ یہ کھیل کھیلا تھا اور ہار گئی تھی مگر اس شکست کا احساس بھی خوبصورت تھا، وہ اور شدت سے سوچنے لگی کہ وہ کدھر جائے؟ کوئی جگہ ہی نہیں جانے کے لیے۔ اس الجھن میں اس کا ذہن بالکل خالی ہوگیا اور مصوروں کا تو راز ہی یہی ہے کہ خالی پن سے ان کے اندر تخلیق پیدا ہوتی ہے چاہے انہیں اس کا احساس ہو یہ نہ ہو مگر لاشعور اسی وقت زندہ ہوتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

یہ چمک بھی پروانے کی زندگی کی مانند عارضی ثابت ہوئی پھر دھواں چھا گیا۔ یہ دھواں سگریٹ کے غولے کی مانند دماغ کی اندرونی تہہ سے نکل کر کھوپڑی سے ٹکرانے لگا جس سے سارا ماحول زنگ آلود ہو گیا اور وہ پھر سکتے میں آ گئی۔ ماہین پر طاری ہونے والا سکتہ صرف تنہائی اور خالی پن میں ملبوس نہیں تھا بلکہ اب اس پر شدید قسم کی مایوسی غالب تھی۔ مایوسی بھی تنہائی اور خالی پن کی رشتہ دار ہی تو ہے۔۔۔۔

ماہین پھر سوچنے لگی اور سوچتے سوچتے نجانے کتنا وقت ہو گیا کہ اچانک اس کے دل سے ایک ٹھنڈی مگر کانٹے دار آہ نکلی۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر ایسا کیوں ہے کہ دل اگر خالی ہو تو آنکھیں بھی خالی رہتی ہیں دماغ اگر خالی ہو تو اداسی کا گھر بن جاتا ہے اور اگر گھر ہی خالی ہو تو وہ، ہاں وہ کیا بن جائے گا۔ یقینی طور پر وہ مکان بن جائے گا،
وہ پھر سوچنے لگی کہ اگر مکانوں کو گھر ہی نہیں بنانا تو تعمیر کرنے کا تکلف اٹھانے کی کیا ضرورت ہے، یہ سوال بجلی بن کر لپکا اور سب جلا گیا پھر جو سوچ ابھری اُس نے ماہین کو احساس دلایا کہ اسے نیند کی ضرورت ہے اور وہ خیال کیا تھا بس یہی کہ ” زمین خالی اچھی نہیں لگتی اس پر کچھ نہ کچھ تو ہونا چاہیے پھر چاہے وہ تعمیر شدہ چیز خالی ہی کیوں نہ ہو، اور تم بھی زمین ہی تو ہو تمہارے اندر بھی خالی پن موجود ہے اور خالی پن اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ نہ کچھ تو موجود ہے اور وہ وقت کے کسی لمحے یہ جگہ گھیر لے گا جب تک وہ جگہ نہ گھیرے اس خالی پن کو قبول کرو اور انتظار کرو میری جان تمہارے اختیار میں آخر اور ہے بھی کیا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply