ربّ کا رستہ۔۔روبی قریشی

یہ نومبر کی شام تھی ، سردیاں اُتر رہی تھیں ۔ ایک ایسی لڑکی کو دلہن بنایا جارہا تھا،جو اس سے قبل ہمیشہ میچ کھیلتی تھی، دوڑ  میں حصہ لیتی تھی۔  پی ٹی میں حصہ لیتی تھی اور گرل گائیڈ میں نیلی چڑیا بنتی تھی۔اس لڑکی کو پہلی مرتبہ اتنا میک اپ، بھاری جیولری اور قیمتی آتشی گلابی لباس پہنایا جارہاتھا۔ساری کزنز اس کے کپڑوں کی، جیولری کی اسکے حسن کی تعریفیں کررہی تھیں،اور یوں اپنی ذات کی تعریف سننا اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شادی کے بعد دس سال تک مجھے سر اٹھانے کی فرصت نہ ملی۔جب میں نے دنیا کو دوبارہ دیکھا تو میری گود میں بچے تھے ۔ سر پہ ساس سُسر کی ذمہ داری تھی اور ایک عدد اپنی  ماں کا بگڑا ہوا لاڈلا بیٹاتھا، جو اب میرا دلدار شوہر تھا۔شاید کم عمری کی وجہ سے جلد ہی میں نے اپنے آپ کو حالات کے مطابق   ڈھال لیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب عام گرمیوں کا کپڑا 6 روپے گز،  36 روپے کا سوٹ اور الکرم کا 20 روپے گز ، 100 کا سوٹ ملتا تھا۔
صبح 9 بجے سلائی شروع کرتی تو 2 بجے تک سوٹ تیار ،شام کو شوہر کی آنکھوں کی تعریف،اپنی خوش لباسی کی خوشیاں،لگتا تھا یہی زندگی ہے ۔ خوشبوئیں ، کپڑے، تعریفیں۔۔ سہیلیوں کی سنگتیں
کیا زندگی میں اور کچھ اس سے زیادہ مزے کا ہو سکتا ہے؟
کچھ سال اسی میں گزر گئے
پھر جب بچے کچھ بڑے ہوئے۔۔
اب ایک کالج جارہا ہے۔ دوسرے نے ٹیوشن پہ دیر لگادی، بیٹی کی وین نہیں آئی،تو اندازہ ہوا کہ جب تک بچے چھوٹے تھے، میرے ہاتھوں میں تھے وہی وقت اچھا تھا۔شام کو سارے چوزے میرے پروں کے نیچے ہوتے تھے۔اب میں نے بچوں کے بڑی کلاسوں میں آنے کے بعد اللہ سے لو لگا لی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں ان کو سڑکوں پہ حادثات سے محفوظ رکھوں، برے دوستوں سے بچاؤں، بری تقدیر سے چھپاؤں،بس رات دن کی دعائیں میرا آسرا تھیں۔لیکن اللہ سے میرا یہ تعلق صرف اپنے مطلب کیلئے، صرف مانگنے کیلئے رہا۔۔ گو کہ اللہ تو اس تعلق سے بھی بہت پیار کرتے ہیں۔پھر ایک دن سب سے بڑا بیٹا سرگودھا چھوڑ کے دوسرے شہر میں چلا گیا۔۔ پڑھنے کیلئے۔
اور  جب بیٹا فوج میں جانے کے بعد پہلی مرتبہ چھٹی پہ آیا ۔ اس کے سوجے ہوئے پاؤں، ٹنڈ منڈ کٹے ہوئے بال، رت جگوں سے سرخ آنکھیں دیکھیں تو دل جیسے ڈوب سا گیا۔
اب جو رب کو پکارا۔ ۔۔ یہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ایک بے بس ماں کی پکار تھی
پھر بیٹیوں کے رشتے اور ان کی شادیوں کے مسائل۔
اب جو راتوں کو اللہ کو پکارتی یہ کچھ الگ ہی تڑپ اور شدت والی پکار تھی
میں جانتی ہوں کہ میری زندگی کے ہر امتحان کے بعد میں ایک قدم اللہ کے اور قریب ہوئی ا ور اب زندگی کے بہت سارے نشیب وفراز کے بعد، نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اللہ کی یاد میں جتنا مزہ ہے وہ نہ اچھے کپڑے   میں ہے  نہ میچنگ جیولری میں ہے، نہ قیمتی جوتوں میں ہے،یہ چیزیں ہماری ضرورت ہیں ہم ان سے دامن چھڑا نہیں سکتے،لیکن یہ ہمیں وقتی خوشی دیتی ہیں،اصل خوشی وہی ہے جو اللہ کے ساتھ قربتوں میں ہے،یہ احساس ہی کتنا پیارا ہے کہ وہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے، جو رب العالمین ہے، جو سب جانتا ہے  لیکن وہ چا چاہتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے پاس آئے،خود اپنی باتیں بتائے۔۔ وہ ہماری کہانی ہماری زبانی سننا چاہتا ہے۔
اسے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے  جب اس کا بندہ اپنے گناہوں پہ نادم ہو کے اس کے پاس آجاتا ہے۔یہ کیسا اصول ہے میرے رب کا دنیا میں ہم جس کے گنہ گار ہوتے ہیں اس سے ہم چھپتے پھرتے ہیں۔۔ اپنی عافیت کیلئے
لیکن رب کے گناہگار اس کے حضور حاضر ہو جاتے ہیں، اپنی عافیت کیلئے
اے اللہ۔۔۔ میں جب آپ سے دور ہونے لگوں مجھے عمدہ طریقے سے اپنی طرف بلائیے،آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply