پانچ مچڑے ہوئے نوٹ۔۔حبیب شیخ

خدا بخش گھبرایا گھبرایا سا تھا اتنے سارے لوگ، کچھ پڑھے لکھے، کچھ دولت کی انا میں اکڑے ہوئے، کچھ سرکاری عہدوں پر فائز آقا بنے ہوئے۔ اسے انجینئر کے کمرے تک پہنچنا تھا۔ وہ تو پانچ ایکڑ زمین کا مالک ایک کسان اور اپنے حلیے اور چال ڈھال سے بھی کسان، سر پر ٹوپی، بدبو دار اجرک، میلے میلے سے کپڑے، شیو بڑھا ہوا، پسینے سے کئی بار نہایا ہوا۔ کبھی اُس کی دھتکار، کبھی اِس کے انکار کے بعد وہ بالآخر انجینئر کے کمرے تک پہنچا تو چپڑاسی نے اس کی بات سنے بغیر بنچ پر بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ وہ بار بار اپنی اجرک میں لگائی ہوئی گا نٹھ کو دباتا اور اس کے چہرے پر ایک اطمینان کی ہلکی سی لہر دوڑ جاتی کہ اپنی مشکلیں آسان کرنے کے لئےچند مچڑے ہوئےکاغذ اس میں محفوظ ہیں۔ اس کی اپنی زندگی بھی زمانے کی مار سے مچڑی ہوئی تھی، غربت اور یاسیت کی گرہوں سے لگی ہوئی گانٹھ میں محصور۔
خدابخش تھوڑی تھوڑی دیر کے وقفے سے اس نیم مردہ چپڑاسی کو دیکھتا۔ چپڑاسی خود ہی اس سے مخاطب ہوا۔
’انجینئر صاحب سے ملنا ہے؟‘
’ہاں، سہراب گوٹھ سے آیا ہوں صبح تڑکے پانچ بجے کا نکلا ہوا۔‘
چپڑاسی کے چہرے پہ کچھ سختی کم ہوئی۔’ تمہارا نام کیا ہے؟‘
’خدا بخش، بس آج میرا کام ہو جائے منت مان کر آیا ہوں۔‘
’انجینئر صاحب ایک میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں جیسے ہی آتے ہیں میں تمہیں ملوا دوں گا۔‘
کوئی ایک گھنٹے بعد درمیانہ قداور چوڑے خدوخال کا حامل انجینئر یوسف نظامانی نیم تاریک راہداری میں سے چلتے ہوئے پہنچا تو اس کی نگاہ اس مفلوک الحال کسان پہ پڑی۔ اس سے پہلے کہ وہ چپڑاسی سے کچھ پوچھے اس نے سرعت سے بتایا۔ ’سائیں یہ بہت دور سے آیا ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘
انجینئر نے ایک سوالیہ نظرخدا بخش پہ ڈالی۔’ ٹھیک ہے میں یہ فائلیں ان کے ٹھکانوں پہ رکھ دوں۔ دس منٹ کے بعد اسے اندر بھیج دینا۔‘

دفتر کے اندر ۔۔
’کیا بات ہے سائیں؟‘
خدا بخش کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے بات شروع کرے۔
’بولتے کیوں نہیں، میرے  پاس کیوں آئے ہو؟ ‘ یوسف گھورتے ہوئے بولا۔
’سائیں سلام و علیکم۔‘ وہ مزید بات کئے بغیر اجرک میں لگی ہوئی گرہوں کو کھولنے لگ گیا اور پانچ مچڑے ہوئے نیلے رنگ کے نوٹ نکال کر یوسف کے آگے رکھ دیے۔
’تم یہ کیا کر رہے ہو! ‘ اس نے اپنی کرسی پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
’سائیں، سندھو ندی کے آخر میں میری پانچ ایکڑ زمین ہے، اس تک کبھی پانی نہیں پہنچتا۔ سب سے پہلے عروج تالپور کی زمین ہے سب سے زیادہ پانی اس کو ملتا ہے، اس کے بعد زاہد سومرو کے ہزاروں ایکڑوں پہ پھیلے ہوئے کھیت، پھرآصف نعمانی کا چھوٹا باغ۔ ’ان سب کو پانی بانٹا جاتا ہے لیکن میری زمین کو نہیں ۔‘
’تم یہ نوٹ واپس رکھو۔ میں آج ہی اسسٹنٹ انجینئر کو بول دوں گا کہ تمہاری زمین کو بھی پانی بانٹا جائے۔‘
خدا بخش ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا ۔’ سائیں آپ کا بھلا ہو۔ آپ پہ اللہ اپنی رحمتوں کی بارش کرے۔‘ خدا بخش کے منہ سے دعائیں پانی کی طرح بہہ رہی تھیں۔
واپس راستے بھر خدا بخش اجرک میں لگی ہوئی گانٹھ کو دبا دبا کر محسوس کرتا رہا اور مسکراتا رہا۔ کیا یہ چند مچڑے ہوئے کاغذ اس کی زندگی کی کچھ الجھنوں کو سیدھا کر سکیں گے، کیا زندگی کی کچھ گرہیں کھل جائیں گی!

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلے ہفتے دفتر میں ۔۔۔۔
انجینئر حیرانی سے خدا بخش کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ ریا تھا۔ ’میں نے اسسٹنٹ انجینئر کو اسی دن بول دیا تھا کہ تمہیں تمہارے حصے کا پانی ملنا چاہیے۔ کیا پانی نہیں پہنچتا؟‘
’جی سائیں وہ تو آپ کی مہربانی سے دو دن بعد آنے لگ گیا تھا۔‘
’پھر کیا مسئلہ ہے، تم رو کیوں رہے ہو؟‘
’سائیں اب پانی نہیں چاہیے۔‘ خدا بخش نے اجرک سے آنسو پہنچتے ہوئے کہا۔
’تمہیں کیا ہو گیا ہے کبھی تم پانی مانگتے ہو پھر کہتے ہو کہ نہیں چاہیئے۔ بات کیا ہے؟‘
’سائیں جب سے آپ نے پانی کھلاوایا ہے ایک نا ایک مصیبت روز آرہی ہے۔‘
’کیا مطلب، کون سی مصیبت ؟ ‘ یوسف نے خدا بخش کےکپڑوں پہ اٹی ہوئی مٹی کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’جی کسی نے ایک دن میرے کئی درخت تباہ کر دیے۔ دوسرے دن میرا چھپر ایک طرف سے توڑ دیا۔‘
یوسف نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔’ میرا دفتر تمہارے اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا۔ یہ تو پولیس پر ہے کہ تمہاری مدد کرے کہ نہ کرے۔ ‘
’نہیں جی آپ بھی مدد کر سکتے ہیں، آپ یہ پانی رکوا دیں۔ میں اپنی چار بھینسوں پہ گزارہ کر لوں گا۔‘
’اچھا تم جاؤ، میں پتا کرتا ہوں کہ کیا مسئلہ ہے؟ دو تین روز بعد مجھے اس نمبر پہ فون کر لینا۔ یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
خدا بخش ہاتھ جوڑ کر اٹھ گیا۔ ابھی وہ اس چھوٹی سی عمارت سے باہر نکل کر تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔ ’خدا بخش۔‘
وہ رک گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔
’میں تمہارا سب کام کروا سکتا ہوں۔ تمہیں پانی بھی ملتا رہے گا اور کوئی تمہارا نقصان بھی نہیں کرے گا۔‘ یہ کہہ کرچپڑاسی کے چہرے پہ کچھ رونق آگئی تھی۔
خدا بخش کے ہونٹ سل گئے اور چہرہ ایک سوالیہ نشان بن گیا۔
’یہ میرے سفید بال دیکھے ہیں۔ چپڑاسی نے اپنے گھنے بالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔ میں یہاں تیس سالوں سے کام کر رہا ہوں۔ مجھے سب پتا ہے کہ یہاں کیسے کام ہوتا ہے۔‘
خدا بخش نے ہاتھ جوڑ دیے۔ ’مہر بانی، میں تو ساری عمر تم کو دعائیں دوں گا۔‘
’صرف دعاؤں سے یہاں کام نہیں ہوتا، اس کام کے لئے نذرانہ بھی چاہیے ۔‘
خدا بخش اجرک میں لگی ہوئی گرہیں کھولنے لگ گیا۔ ہر ایک گرہ کھولنے کے بعد وہ رک جاتا جیسے شاید کوئی غیبی آواز اسے ایساکرنےسے روک دے گی۔
’سائیں تم اتنی دیر کیوں لگا رہے ہو، ایسے کام جلدی جلدی نمٹاتے ہیں۔ ‘ چوکیدار نے دونوں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
خدا بخش نے اپنی اجرک سے ماتھے سے پسینہ پہنچا ۔ اس میں لگائی ہوئی باقی گرہیں کھولیں اور پانچ مچڑے ہوئے نوٹ نکال کر چپراسی کے ہاتھ میں رکھ دیے۔
چپڑاسی نے تیزی سے جنبش کر کے ہاتھ جیب میں ڈال لیا۔ ’کل صاحب کو فون کر دینا کہ سب ٹھیک ہے اور انہیں تفتیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
تھوڑی تھوڑی دیر بعد بس میں بیٹھے ہوئے خدا بخش کا ہاتھ بے خیالی سےاجرک میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply