مائیں کیوں مر جاتی ہیں ؟۔۔محمد شعیب

“كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-” جب میں چھوٹا تھا اور کسی کی ماں کا اعلان جنازہ سنتا تو دوڑ کر ماں کے پاس آتا بس انہیں دیکھتا رہتا وہ کہتی کیا ہوا ہے میں چپ رہتا۔ کیونکہ مجھے وہ الفاظ کہتے ہوئے بھی ڈر سا لگتا تھا ،میں جب کبھی اکیلے بیٹھتا تھا تو ایک خیال دل میں اُمڈ آتا اور سوچتے سوچتے جسم کے بال کھڑے ہو جاتے ،وہ خیال یہ تھا کہ اللہ نہ   کرے کبھی ایسا بھی ہو کہ والدہ محترمہ ہمارے درمیان نہ  ہوں ۔اور ہمیں ان کے بغیر جینا پڑے،اور جس کا ڈر ہر وقت تھا آج وہ خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ ہمارے گھر میں صبح کی وہ رونق کہ سب بھائیوں نے نماز پڑھ کر والدہ کے پاس آکر بیٹھ جانا اور والدہ محترمہ کے گرد دائرہ لگا کر ان کو سننا۔ ان سے ڈھیر ساری  باتیں کرنا۔ پھر سب نے اجازت لینا۔ اور ان کا کہنا “زا زویا اللہ دے کامیاب کا ” گھر پہنچنے پر دروازے سے ہی ادھر اُدھر دیکھنا کہ والدہ کہاں ہوں گی۔ سب سے پہلے ان پر نظر پڑے اور ہم اپنی جنت کا دیدار کرسکے۔ شام ہوجائے اور ہم میں سے کوئی لیٹ ہو تو ان کا  فون  کرکے ڈانٹنا کہ کہاں ہو اب تک، جلدی آ ؤ  سب تمہارے لئے کھانے پر انتظار کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ہمیں والدہ محترمہ کی  طرف سے وہ کال ہمیشہ کے لئے نہیں آئے  گی۔ پرندوں کے بچے شام ڈھلتے اپنی ماں کے پاس جائیں گے، اور ہمیں ماں کے بغیر لوٹ جانا ہوگا گھر کی طرف۔ بے شک یہ زندگی کے سخت ترین دن   ہیں ، والدہ محترمہ کے  بغیر ایک ایک لمحہ اتنا  تکلیف دہ ہے کہ جس کا پہلے کبھی تصور بھی کیا تھا ۔ والدہ محترمہ نے بہت ساری  ذمہ داریاں چھوڑ دی ہیں ۔ اللہ توفیق دے  کہ ہم اُن  کے ادھورے چھوڑے گئے کام پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں ۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا یہ جو یسرا (آسانی) ہے یہ میری والدہ تھیں  میرے لئے۔ اکثر والدہ محترمہ کہا کرتی تھیں  کہ تُو کیوں ہر وقت مجھے کہتا ہے کہ بس تُو نے کسی بھی بات کی ٹینشن نہیں لینی۔ اور ہر وقت ہنستے مسکراتے رہنا ہے۔ تو میں دل میں کہا کرتا تھا کہ بے بے انسان اتنا لالچی ہے کہ عبادت بھی جنت پانے کی غرض سے کرتا ہے۔ اسی طرح میں بھی لالچی ہی ہوں۔ آپ کو خوش دیکھنے  کا لالچ ، آپ خوش ہونگے تو ہم سب خوش ہونگے۔ مجھے کبھی بھی اپنے جوان ہونے کی خوشی نہیں ہوئی۔ پتہ ہے کیوں۔ ؟ کیونکہ میرے چہرے پر جوانی کے آثار آنے کا مطلب والدہ کے  چہرے پر بڑھتی عمر کے نشانات  کا آنا تھا، کیونکہ میں سب سے چھوٹا تھا۔ اور کوئی بھی بچہ ماں کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ مائیں سبھی خوبصورت ہوتی ہیں ۔ پتہ نہیں کیوں لیکن یہ یقین دل میں پختہ ہوگیا ہے  کہ ان شا ء اللہ جلد یابدیر والدہ محترمہ سے ضرور جا کے ملوں گا۔ اور ایسا ملوں گا کہ پھر بچھڑنے کا ڈر کبھی نہیں ہوگا۔ نہ  ختم ہونے والی زندگی، ملاقاتیں اور خوشیاں ہوں گی۔ ایک تسلی اور امید دل میں ہے کہ مرنا تو سب نے ہے ۔لیکن الحمدالله جن صفات کی حامل میری ماں تھی،تو بہت خوشی ہوتی ہے  کہ ان ان شا ء اللہ رب تعالیٰ نے انہیں وہ مقام عطاء فرمایا ہوگا۔ جس کا ہر مسلمان دل میں ارمان لئے پھرتا ہے۔ والدہ تو ایسی شخصیت کی مالکہ تھیں  کہ میں قسم باللہ یہ آرزو مند ہوں کہ زندگی کے  ہر لمحے پر میں ان کے نقش قدم پر چل سکوں۔ صرف ارمان نہیں بلکہ پختہ عزم ہے کیونکہ ہم بچے یہ جانتے ہیں کہ والدہ محترمہ کے  نقش قدم پر چلنے کا مطلب ہے دونوں جہانوں میں کامیابی ہے۔ کبھی کبھی ایک آہ دل سے نکلتی ہے کہ یا خدا مجھ چھوٹے بچے سے آپ کیسے ماں باپ دونوں والدین اپنے پاس بلاسکتے ہو، ترس نہیں آتا خدا اپ کو مجھ پر کیا۔ ؟ لیکن پھر اللہ تعالیٰ یہ بات دل میں ڈال دیتا ہے  کہ میں انسان سے وہ نعمت نہیں لیتا جب تک اسکا نعم البدل نہ  دوں۔ اور میرے لئے وہ نعم البدل میرے 5 بھائی ہیں ، کہ وہ ایک ہی وقت میں میرے لئے بے بے بھی بن جاتے  ہیں  اور ماں کا وہ لاڈ پیار دیتے ہیں۔ اور دوسرے لمحے میں داجی کا روپ دھار کر باپ کا پیار اور شفقت نچھاور کرتے ہیں۔  بھلا ایک بچہ بغیر ماں باپ کے جی سکتا ہے۔ ؟ لیکن میں جو جی رہا ہوں ۔وجہ میرے بھائیوں کا پیار ،شفقت اور محبت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ہر وقت یہ دعا ہے کہ یا اللہ اتنا ترس تو آتا ہوگا مجھ پر کہ میرے بھائیوں کا سایہ کبھی نہ کھینچنا مجھ پر سے ۔ آپ سب سے میری   بے بے کے لئے دعائے مغفرت اور ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اتنا حوصلہ دے کہ ماں کے بغیر زندگی گزار سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply