جنم ورودھی۔۔سیّد محمد زاہد

سکھیا اس کی دیوانی تھی۔ وہ ہیر گاتا تو کسی پجارن کی طرح اس کے بولوں میں کھو جاتی۔ 

قالوا بلی دے دینہہ نکاح بدھا روح نبی دی آپ پڑھایا ای

قُطب ہو وکیل وِچ آ بیٹھا حکم رب نے آن کرایا ای

یوم الست کو جب خدا نے پوچھا کہ  کیا میں تمہارا رب نہیں؟ تو مجسم روحوں نے خدا کے سامنے سر جھکا دیا، قالو بلیٰ، شَهِدْنَا۔  وہ سکھیا کا بازو پکڑ کر کہتا “تیرا میرا نکاح بھی اسی دن ہوا تھا۔ تیرا جنم دور دراز کی اس دھرتی پر ہوا جسے میں نے دیکھا بھی نہیں۔ پھر خدا تجھے وارث شاہ  تک لے آیا۔ اس دربار کے سائے تلے تجھے دیکھا تو لگا کہ اب مجھ دکھیا کے بھاگ جاگ اٹھے ہیں۔” 

ویرو کی ماں نہیں تھی۔ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو باپ اسے دربار پر چھوڑ گیا۔ ادھر ہی پلا بڑھا۔ سکھیا ملی تو دکھوں کا کچھ مداوا ہوا لیکن سکھ تو کاتب تقدیر انسان کی قسمت میں لکھنا بھول ہی گیا ہے۔ وہ تیس برس کی عمر کا گبھرو جوان تھا۔ مضبوط ہاتھ پاؤں کا مالک۔ اب زندگی کو خوشی سے گذارنے کے اوصاف سے مزین بیوی بھی موجود تھی۔ ملک میں وبا پھوٹی، معیشت ڈوب گئی تو بھوک جو ہمیشہ سے اس کے پیٹ میں پل رہی تھی، خوفناک عفریت بن گئی۔ اس کا دل بڑی خواہشات کی آماجگاہ نہیں تھا۔ ہوتا بھی کیسے؟ وہ تو اپنے اور سکھیا  کے لیے روٹی کی فکر میں ہی غلطاں رہتا تھا۔ سکھیا کے پیٹ میں بچہ بھی پل رہا تھا جس نے بھوک برداشت نہ کرتے ہوئے  باپ کی طرح لاحاصل ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے تھے۔ 

بچپن سے اب تک صرف عرس کے دنوں میں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوتا تھا۔ ان دنوں کبھی کبھار گھی اور شکر کا مزہ چکھنا بھی نصیب ہو جاتا۔ شادی کے بعد اس نے فیکڑی میں نوکری کر لی تھی۔ وبا کے پھوٹتے ہی یہ نوکری بھی چلی گئی۔ وہ بیروزگار سڑک کنارے پڑا رہتا کبھی کبھار مزدوری مل جاتی تو دونوں کے لیے روزی روٹی کا بندوبست ہو جاتا۔ اکثر خالی دل اور خالی ہاتھ، کندھوں پر تفکرات بھرے سر کا بوجھ اٹھائے واپس گھرآ جاتا۔ سکھیا کے پاس بیٹھ کر ہمیشہ اسے حوصلہ دیتا “ملکی حالات بہتر ہونے والے ہیں۔ ٖفیکٹریاں چل پڑیں تو مشکلات کا خاتمہ ہو جائے گا۔” سکھیا پریشان ہو کر  کہتی “پیٹ تو جیسے تیسے بھر ہی لیں گے۔ باقی ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔” رفتہ  رفتہ دونوں کی حالت بگڑتی گئی۔ گھر کا سارا سامان بک گیا۔ کھاٹ کھٹولے کے پائے پٹی پھاٹ گئے۔ ان کی مرمت کہاں سے کرواتے؟ برسات کے دن تھے۔  بوریا زمین پر بچھا لیا تو کھٹملوں اور چوہوں نے نیند حرام کر دی۔ ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے ساری رات بسر کر لیتے۔ سوئیوں سے ان کی آنکھوں کے کونوں میں لکھی ہوئی کہانی پڑھ کر لوگ بھی پریشان ہو جاتے۔  

مصیبت اکیلی تو آتی نہیں، ایک کے بعد دوسری بھی چلی آتی ہے۔  مستریوں کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ کمزور پہلے ہی ہو چکا تھا اور دو دن کا بھوکا بھی تھا۔ چکر کھا کر دوسری منزل سے زمین پر آ گرا۔ دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ 

لوگ اٹھا کر سرکاری ہسپتال لے گئے۔ سکھیا بھی روتی سسکتی وہاں جا پہنچی۔ ڈاکٹروں نے دونوں ٹانگوں کے ساتھ وزن باندھ کر لٹکا دیں کہ جب تک آپریشن نہیں  ہوتا ہلنے جلنے سے درد نہ ہو۔ ہڈیوں کا آپریشن، مریض کی تیاری میں ہی کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ کمزوری دور کرنے کے لیے ادویات کے ساتھ اچھے کھانے کی بھی ضرورت تھی۔ کھانا سرکاری اور پھر پنکھے کی ٹھنڈی ہوائیں بھی۔ ایک دن سکھیا پاس بیٹھی تھی کہ ویرو نے ابلا ہوا انڈہ اس کے ہاتھ میں پکڑایا۔ پوچھنے لگی یہ کہاں سے آیا ہے؟ 

“ڈاکٹرصاحب نے خوراک  اچھی کرنے کا حکم دیا ہے۔ مجھےایک کی بجائے دو انڈے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک تمہارے لیے بچا لیا۔”

“ ویرو تمہیں اس  کی زیادہ ضرورت ہے، تم کھاؤ۔” 

“لیکن تمہیں بھی تو ضرورت ہے، کھا لو۔ تمہاری کوکھ میں بچہ پل رہا ہے۔ میں نے روٹی بھی چھپا کر رکھی  ہوئی ہے، وہ بھی لے لو۔”

 وہ  روزانہ اسے کچھ نہ کچھ کھانے کو دیتا۔ ڈاکٹر روز اسے کہتے کہ زیادہ کھایا کرو۔ اردگرد کے مریضوں کو بھی یہ  کہتے کہ بچا کھچا کھانا اسے دے دیا کرو۔ جوبھی کھانا آتا وہ سکھیا کے لیے بچا لیتا۔ اب تو اس کا دل چاہتا تھا  کہ وہ کبھی بھی ٹھیک نہ ہو، اسی ہسپتال میں پڑا رہے۔   

پھرایک دن پورا گذر گیا اور سکھیا نہ آئی۔  دوسرا اور تیسرا بھی۔ پھر ہفتہ گذر گیا۔  وہ آئی تو بہت ہی بری حالت میں تھی۔ کمزور اور پیلی پڑی ہوئی۔  اس کی حالت دیکھ کر ویرو اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ پوچھنے لگا، “تجھے کیا ہوا ہے؟”

“فکر نہ  کر، جلد ٹھیک  ہو جاؤں گی۔ اب میں بھی پیٹ بھر کر کھاتی ہوں۔ میں بھی ہسپتال میں داخل ہو گئی ہوں۔ 

“کیوں؟”

“میں نے بچہ گرا دیا ہے۔” 

“وہ کیوں؟”

“میں بچہ پیدا نہیں کروں گی۔” 

“کیوں؟” 

 “میں اپنا معصوم بچہ اس دکھ بھری دنیا میں نہیں لانا چاہتی۔ جہاں مفلسی پیٹ کی آگ بھڑکاتی ہے، میں اسے اس دوزخ میں نہیں پھینکنا چاہتی۔” 

وہ خاموش ہو گیا۔ سب سچ تھا۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا ہی چاہتا تھا کہ سکھیا پھر بولنے لگی۔  

“انسان کو بچہ پیدا کرنے سے پہلے اس سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اس مصیبت اور دکھ بھری دنیا میں آنا بھی چاہتا ہے یا نہیں؟” 

وہ  حیران ہو گیا۔ بولا

“جس کا وجود ہی نہیں اس سے کیسے پوچھا جا سکتا ہے؟” 

“تم نے ہی تو بتایا ہے کہ روح ہمیشہ سے موجود ہے۔ اس کو وجود ماں کے پیٹ میں ملتا ہے۔ بہت پہلے یوم الست کو یہی روح مجسم خدا کے حضور سجدہ ریز بھی ہوئی تھی۔” 

کچھ دیر خاموش رہی پھر افسردہ لہجے میں کہنے لگی،

“میرا اپنے خدا سے یہی گلہ ہے۔ رب العالمین نے اپنی ربوبیت کا اقرار لے لیا۔ اس دن انسان کی باوضاحت رضامندی بھی حاصل کر لینی چاہیے تھی۔ ہمیں بن پوچھے بتائے اشتہا کی جلتی دوزخ میں پھینک دیا گیا۔ اب بھوک، دکھ، بیماری، بڑھاپے اور موت کا شکار بننے کے لیے میں اپنے بچے کی روح کو وجود میں نہیں لانا چاہتی۔” 

Advertisements
julia rana solicitors

وہ روتی  جا رہی تھی لیکن مطمئن تھی۔ 

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply