اندرے ناں پینڈا/قمر رحیم خان

پہاڑی زبان میں لکھے گئے ایک سفر نامے کا تذکرہ
ہمارے پڑوس میں دوبوڑھے میاں بیوی رہتے تھے۔بوڑھی نیک پرہیز گار جبکہ بوڑھا ایک لبرل آدمی تھا۔ان کے درمیان اکثر نوک جھونک لگی رہتی تھی۔ بوڑھی اس کی بے دینی سے بہت تنگ تھی اور اکثر اسے واعظ ونصیحت کرتی رہتی تھی۔ شاید اس کی خواہش یہ تھی کہ کسی طریقے سے بوڑھے کو لے کر جنت میں جائے۔بڈھا اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔خدا خبر بڈھی سے تنگ تھا یا خدا سے اس کا حسن ظن زیادہ تھا۔آج جنوری کے ان یخ بستہ شب و روز کو دیکھ کربڈھے کی نماز نہ پڑھنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔جس دن ‘‘پیشی’’کے وضو کے ساتھ ‘‘کُوفتاں’’ کی نماز ہو جائے وہ سب سے اچھادن ہوتا ہے۔اور خدا نخواستہ جس دن وضو کرنا پڑ جائے اور خصوصاً کسی مسجد کے وضو خانے میں جانا پڑ جائے ، وہ دن یاد گار بن جاتا ہے۔شاید ہمارا پڑوسی بڈھا ایسی یادگار زندگی کا متحمل نہیں تھا ۔

آج پھر ان کی لڑائی ہوئی۔ بڈھی سناتی رہی ، بڈھا سنتا رہا ۔بڈھی کے خاموش ہو نے پر بڈھے نے کہا‘‘دیکھ بڈھیے، جے میں مسیستی بڑ گیا تے فیر میں کی کھڈنے والا کوئی تو کی نئیں لبھنے لگا’’۔ اور وہی ہوا کہ بڈھا مسیتی بڑ گیا۔

ڈاکٹر صغیر صاحب میں بھی اسی بڈھے کی روح ہے۔میں اب تک ڈاکٹر صاحب کی شان میں اس قدر گستاخیاں کرچکا ہوں کہ اب مزیدکی گنجائش نہیں۔ لیکن جب آدمی بے حیا ہو جائے تو گنجائشوں کا خیال کہاں رہتا ہے۔خاص کر ایسے ماحول میں جب بے حیائی کا طوفان آیا ہو ، آدمی سوچتا ہے ، حیا کی بات کرے توکس سے کرے۔آدمی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔اور جب پورا پورا دن شہر میں ‘‘کُتّا گردی’’ کرنے کے باوجود کاٹ کھانے کو ایک بھی آدمی نہ ملے تو آدمی خود خارش زدہ کتا بن جاتاہے۔ایسے خارش زدہ معاشرے میں آدمی پڑھے کیا اور لکھے کیا؟

حالات یہ ہیں کہ آپ لکھوپھر اسے اپنے پلّے سے چھپواؤ، اس کی تقریب رونمائی کرواؤ اور پھر اپنے دوستوں میں بانٹو۔بات یہیں تک رہتی تو کوئی بات نہیں تھی۔ مزہ تب آتا ہے جب آپ کو پوچھنا پڑے کہ جناب نے کتاب پڑھی تھی؟پچھلے دنوں کرشن چندر کے افسانوں کے پہاڑی ترجمہ پر مشتمل میری ایک حماقت شائع ہوئی۔گھر والی نے بھی گھونگٹ اٹھا کر نہیں دیکھا۔تب سے سوچ رہا ہوں ، مجھ سا بے شرم بھی کوئی ہو گا؟بھلا آج کے دور میں اور خصوصاً آزادکشمیر کے پڑھے لکھے ماحول میں لکھنے والے سے بڑا‘ بے قدرا’ کوئی پیدا ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹر صغیر ان حالات میں اپنی زائد زندگی لکھنے پڑھنے میں گزار چکے ہیں۔سیاست کا میدان ہو، ادب کا یا درس و تدریس کاانہوں نے ہر جگہ اپنے حصے کے دیے جلائے ہیں۔ 14 کتابوں کے مصنف کا آج بھی یہ کہنا ہے کہ کاش مٹی کا قرض ادا ہو جائے۔قرض کب کا ہے اور کتنا ہے جو ادا ہی نہیں ہو رہا؟ 1586ء سے حساب لگا لیجیے۔آزاد ی کی تحریکوں میں اپنی زبان، ادب، کلچر ، تہذیب و تاریخ کوجوڑ کر نہ چلا جائے تو ایسی تحریکیں دیوانے کا خواب بن کر رہ جاتی ہیں۔ہمارے ہاں آزادی کی تحریک پری میچور اسٹیج پر ہے۔ ہم، سرحدی علاقوں کا نہ صرف کلچر دم توڑ چکا ہے بلکہ ہماری سیاسی و سماجی اخلاقیات بھی فوت ہو چکی ہیں۔ تاریخ کو جاننے کی زحمت بہت کم ہوئی ہے اور جو ہوئی ہے وہ بھی بھینگی آنکھ کے ساتھ۔زبان کے معاملے میں ہم گونگے ہیں۔پہاڑی زبان پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں گراں قدر کام ہوا ہے۔جبکہ یہاں ابھی آغاز سفر ہے۔ ڈاکٹر صغیر صاحب پہاڑی میں نو کتابیں لکھ چکے ہیں۔جن میں افسانہ بھی ہے، ناولٹ بھی، نظم اور غزل بھی، پہاڑی لوک گیت اور پہاڑی کہاوتوں کے مجموعے بھی۔

‘‘اندرے ناں پینڈا’’ سفر نامہ ہے۔ یہ کتاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ پہاڑی زبان میں لکھا جانے والا پہلا سفرنامہ ہے۔ڈاکٹر صاحب کا پہاڑی میں کیا گیا سارا کام ہی انفرادیت کا حامل ہے ۔ اس لیے کہ پہاڑی افسانے ہوں، کہانیاں یا ناولٹ، ڈاکٹر صاحب نے ہی ان کا آغاز کیا ہے۔ اس کتاب کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کے سبھی اسفار ریاست کے مختلف حصوں میں ہوئے ہیں۔ ان میں نیلم ، گلگت، سماہنی اور جموں کے اسفار شامل ہیں۔ جبکہ ایک سفر آثار قدیمہ کی تلاش میں ہوا ہے۔

سفر نامہ ایک دلچسپ صنف ہے۔ قاری کو بور نہیں ہونے دیتی۔ آدمی یورپ ،امریکہ ،دور درازاور دیس دیس کی معلومات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ سفر نامے تاریخ کا اہم ماخذ بھی ہوتے ہیں۔ اکثر سفر ناموں کے حوالے مستند سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ سفر نامہ نگار عموماً تعصب سے پاک ہوتا ہے۔ لہٰذاوہ جو دیکھتا ہے وہی لکھتا ہے۔البتہ کم یا ناقص معلومات کے باعث ان میں غلطی کی گنجائش موجود رہتی ہے۔کشمیر پر یورپی اور دیگر غیر ملکی سیاحوں نے بہت لکھا ہے۔ لیکن یہ کام انہی لوگوں کی نظروں سے گزرا ہے جنہیں کشمیر کی تاریخ پڑھنے کا شوق رہا ہو یا خود اس ضمن میں کچھ کام کیا ہو۔

حالیہ دورمیں بھی غیرملکی سیاحوں اور صحافیوں نے وادی کے حالات پر کافی لکھا ہے۔خود کشمیریوں کے ہاتھوں بھی بہت کام ہوا۔ لیکن سفر نامے کے باب میں ہمارے پاس اپنا لکھا ہوا بہت کم ہے۔ حالانکہ اس دوران وطن کے دونوں حصوں کے رابطے کچھ عرصہ کے لیے بحال ہوئے اور بے شمار لوگوں نے سفر کیے۔ لیکن، میری معلومات کے مطابق، ڈاکٹر صغیر صاحب اور ڈاکٹر ظفر حسین ظفر صاحب نے ہی اپنے اسفار کو قلم بند کیا۔ چونکہ دونوں مصنفین براہ راست متاثرین میں سے تھے اس لیے ان سفر ناموں میں جذبات بھی حاوی رہے اور نظریاتی میلان کا اظہار بھی بلا واسطہ یا بالواسطہ ہوتا رہا۔دونوں میں قدر مشترک یہ تھی کہ درد کی ٹیسوں کے ساتھ اپنی محرومیوں کا تذکرہ اور آزادی کا سوال اٹھتا رہا۔

سو اسی تناظر میں یا یوں کہہ لیجیے ،کہ انہی محرومیوں اور آزادی کے سوال کی زمین پر ‘‘اندرے ناں پینڈا’’ تخلیق ہوئی ہے۔ یہ کئی نسلوں کا‘ پینڈا ’ہے۔لکھا کسی ایک نے ہے۔سفرنامہ کی تمام تر خوبیاں ایک پہاڑی سفرنامے میں دیکھ کر یوں لگا جیسے بہت سارے بچوں میں اپنے بچے کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کا دوسرے بچوں سے موازنہ کر رہا ہوں۔ایک طرف انگریزی ، اردو کے کئی ایک سفرنامے ہیں۔ دوسری طرف پہاڑی کا اکلوتاسا ، چھوٹا سا سفرنامہ پورے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس سفرنامے کی ایک منفرد حیثیت یہ بھی ہے کہ دنیا کے متنازعہ ترین علاقے کا سفر ہے۔یہ جبری طور پر تقسیم کیے گئے ملک کا سفر ہے۔غلامی اور آزادی کی کشمکش کاسفر ہے۔ آزادی کی تلاش کا سفر ہے۔ تاریخ کے جبر کے آثار کا سفر ہے۔اور شاید سب سے اہم بات یہ کہ یہ ایک مٹتی ہوئی زبان کے احیا کا سفر ہے۔یہ انتہائی مشکل کام ہے۔ مٹھی بھر قارئین کے لیے لکھنااور کئی ایک کتابوں کا لکھ لینا گناہ بے لذت سے کم نہیں ۔ مگر مقصد کی آبیاری میں جب نسلوں کا سفر درکار ہو تو پتھر کا جگر لے کر ایسے کاموں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے۔مگر ڈاکٹر صغیر پانی کا جگر لے کر اس مشق سخن میں پچھلی چند دہائیوں سے آبلہ پا سفر میں ہیں۔

اس سفر نامے کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ کسی بھی زبان میں لکھا جانے والا واحد سفرنامہ ہے جس میں ریاست جموں کشمیر کے تینوں حصوں کے اسفار شامل ہیں۔ گلگت اور جموں کے اسفار میں تاریخیں لکھ دی جاتیں تو بہتر تھا۔ خصوصاً گلگت کا سفر چونکہ تحریک آزادی سے وابسطہ تھا اس لیے اس میں تاریخیں درج ہوتیں تو یہ ایک مستند اور مکمل حوالہ ہوتا۔پانچوں سفر ایسے ہیں کہ کہیں آدمی سفر میں کھو جاتا ہے ، کہیں تمہید میں اور کہیں مصنف کے دکھ پڑھتے ہوئے چہرے کی ہڈیاں دکھنے لگتی ہیں ۔ دل میں ایک ہول سا اٹھنے لگتا ہے۔ اور کتاب بند کر کہ تھوڑی دیر کے لیے فرار کی راہ اختیار کرنا پڑتی ہے۔

یہ اس سفرنامے کا خاصہ ہے۔اس اعتبار سے یہ کتاب ایک سفر نامہ ہی نہیں ، اپنے آپ کی تلاش بھی ہے۔ ٹوٹے ہوئے آئینے کی ‘‘پھیتی پھیتی ’’جوڑ کر اپنی شکل کو پورا کرنے کی کوشش، اسے جاننے کی کوشش، اس کے خدوخال کو پہچاننے کی کوشش۔ اس کوشش میں انگلیوں کے پور بھی زخمی ہوئے ، پیر بھی۔ مگر چہرہ مکمل نہیں ہوتا۔ اوپر والا ہونٹ سلامت ہے، نیچے والے ہونٹ پرلگنے والی ‘‘پھیتی’’غائب ہے۔ ایک آنکھ ثابت ہے ، دوسری کی فقط پلکیں ہیں۔ پلکوں کے نیچے سے ٹھوڑی تک رخسار سمیت سارا حصہ غائب ہے۔ پیشانی کے بیچ سے سر کٹا ہوا ہے۔ وہ ٹوٹے ہوئے آئینے کی ساری کرچیوں کو جمع کرتا ہے، جوڑتا ہے، کبھی آنکھ بناتا ہے، کبھی رخسار، کبھی ہونٹ تو کبھی ٹھوڑی۔ مگر کچھ بھی بن نہیں پاتا۔جڑنے والی یہ ساری کرچیاں اب تک خون آلود ہو چکی ہیں۔وہ ان کا خون صاف کرتا ہے تو یہ پھر ہل جاتی ہیں۔مگر وہ ہمت نہیں ہارتا۔ اس نے پورا دن لگا دیا۔ اب شام ڈھل رہی ہے۔ اور ہمارے آدھے چہرے کے ساتھ جہاں جہاں ‘‘پھیتیاں’’ آکر جڑی ہیں، ان میں اب خون جم گیا ہے۔ وہ جمے ہوئے خون کو صاف کرنے سے ڈر رہاہے کہ کہیں یہ کرچیاں پھر سے ہل نہ جائیں۔ وہ ٹوٹے ہوئے قلعوں، مندروں ، گوردواروں، پانی کے چشموں، باؤلیوں اور ان کی ٹوٹی دیواروں کا اکھڑا ہوا مصالحہ ہے۔ وہ گری ہوئی چھتوں کے سائے میں کھڑا اپنی اجڑی ہوئی تہذیب کا نوحہ ہے۔وہ اسی تہذیب کاایک منقّش ستون ہے، وہ انہی گری ہوئی دیواروں کا ایک تراشا ہو ا پتھر ہے۔وہ کئی نسلوں کادکھ ہے، ان کا درد ہے، ان کی کتھا ہے۔

آدمی جب اپنے ماضی سے اس قدر جڑ جائے تو اس کے لیے بعض معاملات میں جدّت کو اپنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر میں پہاڑی کے قدیم اور متروک الفاظ کے استعمال کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ان الفاظ کو محفوظ کرنا چاہ رہے ہوں۔جو از خود ایک بڑا کام ہے ۔لیکن یہ الفاظ قاری کے کمزور ہاضمے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ خصوصاً ہمارے بچوں کے لیے انہیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔اگر کتاب یا چیپٹر کے آخر میں ان الفاظ کے معنی لکھ دیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔اس کے علاوہ کچھ الفاظ کے تلفّظ پر توجہ یا بحث کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر صاحب سرکاری ملازم ہیں مگر اس کے باوجود ان کی تحریر میں جو دیدہ دلیری ہے اس کا متحمل کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔شایدان کا خیال ہو کہ ‘تری دو ٹکے کی نوکری ، میرا لاکھوں کا ساون جائے’۔ان کے بعض جملوں سے ان کے زمانہ طالب علمی کی پوری تقریرجھلکتی نظر آتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے کئی رنگ ہیں۔گلگت کے سفر میں ان کا عمومی رنگ نمایاں ہے۔ وہ اپنے دکھوں کا مداوا ہنسی مذاق سے کرتے چلے آئے ہیں۔آج سے تیس برس پہلے تک کچہری چوک راولاکوٹ میں کھڑے، شغل میلے کے رسیاڈاکٹر صغیر کو ان کے ہم جولی انہیں ہاتھ جوڑتے تھے کہ گھڑی بھر کو تو سنجیدہ ہو جاؤ۔حالانکہ وہ سنجیدہ ہی نہیں، رنجیدہ بھی تھے۔ مگر ان کا ماننا تھا کہ دنیا رونے والوں کا ساتھ نہیں دیتی۔تب وہ سب کو ہنساتا، خود روتا تھا۔اور وہ اپنے ہم جولیوں کو کہتا تھا ، ‘‘دیکھا مہاڑے سنگیو،جے میں مسیتی بڑ گیاتے میں کی کھڈنے والا تُسیں کوئی نئیں لبھنے لگا’’۔اور پھر وہی ہوا،وہ ‘‘مسیتی بڑ’’ گیا ۔اس کے‘‘پرانے وقتیں ناں پینڈا، اپنے ہوئے جیے ناں پینڈا تے اندرے ناں پینڈا’’ شروع ہو گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply