بوتل۔۔خنساء سعید

وہ کئی برسوں سے کرب کی ایک آندھی اور گہری کھائی میں گرتی ہی چلی جا رہی تھی۔ اذیت کی اس کیفیت کی کوئی حد ہی نہیں تھی۔ وہ مکمل کھائی میں گرتی بھی نہ اور، باہر بھی نہ نکل پاتی ۔ پچھلے ڈیڑھ برس سے ہسپتال کے بیڈ پر پڑی اپنی موت کا انتظار کر رہی تھی ۔ہر صبح جب اُس کی آنکھ کھلتی، تو اُسے لگتا آج شاید شفق کی سرخی چھا جانے سے پہلے ہی جسم اور روح کا ایک نحیف سا ناطہ ٹوٹ جائے گا۔ مگرایسا کچھ نہ ہوتا وہ زندہ رہتی، پھر اُس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خودکشی کر لے گی، مگر وہ یہ بھی نہ کر پائی،اُس کا دل دھڑکتا رہتا اور سانس چلتی رہتی ۔

اُس کو انتقام کی تڑپ نے جھلسا کر رکھ دیا تھا۔جلال ضوفشاں کا ماموں زاد تھا۔وہ ضوفشاں کو ہراساں کرتا، اُس کو دھمکیاں دیتا، اور ساتھ ساتھ اپنی ہوس پرست محبت کا اظہار بھی کرتا رہتا تھا۔ایک دن ضوفشاں نے جلال کے سارے میسج اپنے ماموں کے دکھا دیے۔ ماموں نے اُس کے سامنے ہی جلال کو بہت مارا ۔اُس دن سے جلال کے لہو میں چنگاریاں پھوٹنے لگے، اُس نے خود سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ ضوفشاں سے بدلہ ضرور لے گا۔پھر وہ دن آگیا اُس نے ایک فساد پرور، ناری قطروں سے بھری ہوئی بوتل اٹھائی، اورکالج جاتی ہوئی ضوفشاں کے چہرے پر پھینک دی ۔وہ چیخنے چلانے لگی، بن آب مچھلی کی مانند سڑک پر پڑی تڑپنے لگی، اُس کے چہرے کا ایک ایک نقش قطرہ قطرہ بن کر پگھلنے لگا، ایسے جیسے وہ کوئی نمک کی ڈلی ہو۔

ڈاکٹروں نے اُس کا سارا جسم چھیل کر اُس کے چہرے کے خدوخال بنائے، مگر وہ ناکام رہے۔وہ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی سوچتی کاش! تیزاب کبھی بنتا ہی نہ ، بن بھی جاتا تو یوں سر عام دکانوں پر نہ بکِتا ، کاش دنیا میں ایسی کوئی بوتل نہ ہوتی جس میں تیزاب ڈالا جاتا، ایسی لامتناہی سوچیں اُس کو ہمہ وقت گھیرے رکھتیں، آہیں، آنسو، کراہیں، سسکیاں، سبکی اُس کا روز مرہ کا معمول بن چکا تھا ،پھر ڈیڑھ سال کے مسلسل علاج کے بعد اُسے گھر بھیج دیا گیا۔

اُس نے ہسپتال سے باہر نکل کر دیکھا، باہر کا کوئی منظر نہیں بدلہ تھا۔۔ آسمان، راستے، چہرے، پنچھی سب ویسے کے ویسے تھے۔ گیندے کے پیلے پھول جنہیں چن کر وہ اکثر ہار پروتی تھی،امرود کا باغ کہ جس کے ارد گرد کانٹوں والی باڑ لگی تھی وہ اُس باڑ کو ہٹا کر امرود چوری کر کے بھاگ جاتی،بابے فضل کی دکان کہ جس کے اندر شیشے کے مرتبان میں رکھے بھنے ہوئے چنوں کو وہ للچائی نظروں سے دیکھتی،کپاس کی چنائی کو جانے والی عورتیں ، ٹیوب ویل کی آواز ، کچی کیری کا درخت کہ جس پر وہ پتھر مار مار کر کیری اُتار کر کھاتی، تائی نسرین کا ٹریکٹر جس پر وہ تھوڑی دیر کے لیے ڈرائیور بن جاتی، سب کچھ وہیں تھا سب کچھ ویسا تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔۔۔ بس وہ بدل گئی تھی ۔اُس کی دنیا، اُس کا چہرہ، روح، جسم سب جلا دیا گیا تھا۔

گھر واپس آنے کے بعد وہ اپنا چہرہ چھپا کر کمرے میں بند رہتی، کمرے سے باہر بھی نکلتی تو چہرہ چھپایا ہوتا۔۔۔۔اُس کے اندر ہزاروں آبلے ہر وقت رستے رہتے ،وہ کچے صحن کی گیلی مٹی پر بیٹھی لکیریں کھینچتی رہتی۔۔۔۔۔ اُس کو یوں لگتاجیسے اُس کی زندگی بھی ان لکیروں کی طر ح اُلجھ گئی ہے ۔۔

“کب تک یوں منہ چھپا کر بیٹھی رہے گی ضوفی ۔۔۔زندہ رہنا چاہتی ہے تو باہر نکل ۔۔۔یوں کر تو پڑھائی شروع کر دے،تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے بل بوتے تو محلے والوں سے تو کیا پوری دنیا سے لڑ سکتی ہے ۔۔علم کی روشنائی تجھے نئی زندگی دے گی ۔۔۔”اُس کی ماں اُس کی یہ حالت دیکھ کر اُس کو سمجھاتی۔
مگر اماں!
میں یہ چہرہ لے کر باہر نکلوں گی تو لوگ مجھے دیکھ کر ڈر جائیں گے ۔۔نظریں پھیر لیں گے مجھ سے ۔”
“شروع میں تجھے مشکلات سے لڑنا پڑے گا مگر میں جانتی ہوں، پھر تو جیت جائے گی ،توں تو موت سے بھی لڑ گئی تھی ،دیکھ جیت ہی گئی نا، توں میری بہادر اور ذہین بچی ہے میں تجھے یوں اس کمرے میں تل تل مرتا نہیں دیکھ سکتی ضوفی “۔

اور پھر ضوفشاں ہمت باندھ کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور پڑھنا شروع کر دیا ۔اُس نے ایف ۔اے کے امتحان پرائیوٹ دیے اور پھر یونی ورسٹی میں بی ایس کرنے لگی ۔یونیورسٹی میں اُ س کو اتنا پیار ملا کہ اُس کے حوصلے اور بلند ہونے لگے وہ ایک بھر پور زندگی جینے کے لیے پُر عزم ہو گئی ۔

اُس کی یونیورسٹی میں تیزاب گردی کی روک تھام اور اس کے مجرموں کو عبرت ناک سزا دینے کے حوالے سے ایک   روزہ سیمینار ہوا ،جس میں ملک کے بڑے بڑے صحافیوں اور میڈیا کے ساتھ ساتھ تیزاب گردی کا شکار ہونے والی عورتوں اور لڑکیوں کو بلایا گیا ۔اپنی یونیورسٹی میں وہ پہلی لڑکی تھی، جو جھلسے ہوئے چہرے کے ساتھ اپنی بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔سیمینار میں تیزاب گردی کی روک تھام کے لیے اُس کا خصوصی لیکچر رکھا گیا تھا ۔وہ سٹیج پر کھڑی ہو کر پوری خود اعتمادی سے بولنے لگی۔

میرا نام ضوفشاں شاہد ہے ۔ڈیڑھ سال پہلے میرا چہرہ تیزاب کی ایک بوتل کی بھینٹ چڑھ گیا تھا ۔میں نے زندگی کا ایک بڑا عرصہ اذیت کے لیے دان کیا ،مگر اپنے جسم اور روح کے ملبے کو کسی بے نام قبر میں دفن نہیں کیا ۔صبر ،ہمت اور بہادری کا استعارہ بن کر دوبارہ جینے کی ٹھان لی ۔اور ازسر نو خواب بُننے لگی ،خواہشات کے تاج محل پھر سے تعمیر کرنے لگی ۔کیوں کہ اس دنیا میں تیزاب سے جھلسنے والی میں اکیلی لڑکی نہیں ہوں ۔مجھ جیسی لاکھوں لڑکیاں ہیں اس دنیا میں اور کچھ تو میرے سامنے بیٹھی ہیں ۔
زندگی نام ہے ہر حال میں جینے کا، تو تیزاب سے جلنے کے بعد جینے پر کوئی قدغن نہ لگائیں ،قانون کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جائیں اور اپنے مجرموں کو سز ا دلوائیں ۔تعزیرات ِ پاکستان کی دفعہ 332تیزاب گردی کے لیے مختص کی گئی ہے ۔دفعہ کہتی ہے کہ ،اگر کوئی شخص تیزاب یا کسی دوسرے خطرناک مادے سے کسی کے جسم کو نقصان پہنچائے تو اُس سے قصاص لیا جائے گا ۔اور اگر قصاص نہ لیا جائے تو 14 سال کی قید اور 10 لاکھ جرمانہ کیا جائے گا ۔میں سوال کرتی ہوں حکومت ِ وقت سے کہ آخر کب تک پرچون اور ہول سیل کی دکانو ں پر تیزاب سر ِ عام بکتا رہے گا ؟؟تیزاب بیچنے والے بھی زندگیاں بھسم کرنے میں برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔حکومت ان کو بھی عبرت ناک سزائیں دے ۔2018 میں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والوں کی نہ صرف مالی مدد کی جائے گی بلکہ حکومت مفت علاج کی ذمہ داری بھی اُٹھائے گی ۔یہ ہی بل اگر قانون بن جائے تو مجھ جیسی ہزاروں کو جینے میں آسانی ہو گی ۔اور پھر وہ اپنی ہم شکلوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔
آؤ سب اپنے لیے لڑتی   ہیں، پھر سے سب مل کر مسکراتی   ہیں ،بہار کے موسم میں رنگ برنگے پھولوں میں رنگ جاتی   ہیں اور اپنی خوشبو سے فضاؤں کو معطر کرتی ہیں ۔ایک لمبی اُڑان بھرنے کے لیے اپنے پروں پر پڑی کرب کی گرد کو جھاڑ لو ،تاکہ ہم موافق اور مخالف ہواؤں کے سنگ اُڑ سکیں ۔وہ آنکھیں جن میں سے خواب نچوڑ لیے گئے تھے آؤ مل کر اُن کو دھنک رنگ خوابوں سے گیلا کریں ۔اُٹھو اور ہمت، بہادری حوصلے کی علامت بن جاؤ ۔یہ کہہ کر وہ سٹیج سے نیچے اُتر آئی اور سارا ہال کھڑے ہو کر اُس چٹان جیسی مضبوط لڑکی کو داد دینے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی کی ہمہ ہمی بڑھتی گئی ۔وقت کسی پُر سکون جزیرے میں ہلکورے لیتی ندی کی مانند بہتا رہا ۔شب و روز ایک دوسرے کا پیرہن اُوڑھنے لگے ۔اب بچے اُس کو دیکھ کر نہیں ڈرتے تھے ،اب تو وہ خود بھی آئینہ دیکھنے لگی تھی ،بال بنانے لگی تھی ،اُس کی آنکھوں کی چمک واپس لوٹ آئی تھی ،ہنسی سے پھر جلترنگ بجنے لگے تھے،نئے کپڑے پہننے لگی تھی ۔اُ س نے اپنے مسخ شدہ چہرے کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھ لیا تھا ،وہ بقا کی جنگ جیت رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج چودہ برس کے بعد وہ رہا ہوا تھا ۔جیل سے باہر نکلا تو پوری آب و تاب کے ساتھ دہکتے سورج کی کرنوں نے اُس کے چہرے کو چھوا ،اُس نے گھبرا کر دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھ لیے ،کہ کہیں اُس کا چہرہ جل نہ جائے ۔جلال کو لگا کہ سڑک سے ہر گزرنے والا اُس پر تھو تھو کر رہا ہے ۔ہر دیکھنے والی آنکھ جیسے کہہ رہی ہو ۔۔تُف ہے تم پر ،تم نے ایک لڑکی کے چہرے کو نہیں جلایا ،بلکہ اُس کے خوابوں کو یکجا کر کے آگ لگا دی ہے ۔تم نے اُس کی خواہشات کا سر تن سے جدا کر دیا ہے ۔

وہ منہ پر ہاتھ رکھے سب سے نظریں چرا کر دیوانہ وار بھاگنے لگا ۔وہ بے سکون تھا چود ہ برس سے اُس کو سکون کی نیند نصیب نہیں ہوئی تھی ۔۔وہ جیل میں ہر روز خود کو بس ایک ہی بات یاد کرواتا ،کہ جس دن میں رہا ہو جاؤں گا سیدھا ضوفشاں کے گھر جاؤں گا ،اُس سے معافی مانگوں گا ۔جلال نے ایسا ہی کیا، رہا ہونے کے بعد وہ سیدھا ضوفشاں کے گھر گیا ۔ضوفشاں اپنے کمرے میں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔اُ س نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے جلال کھڑا تھا ۔اُسے لگا اُس کا چہرہ ایک دفعہ پھر جلنے لگا ہے ،جلال نے ایک نظر اُس کے چہرے پر ڈال کر فوراً نظریں جھکا لیں اور اپنی ساری ہمت جمع کر کے کہنے لگا ۔۔”مجھے معاف کر دو ضوفشاں، تمہیں خدا کا واسطہ ہے مجھے پُرسکون کر دو ۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

“تم نے مجھے زندہ درگور کیا ہے جلال،اس کے لیے معافی کا لفظ بہت معمولی سا ہے، مگر اب میں ہر لایعنی بوجھ سے آزاد ہو چکی ہوں اس لیے تمہاری معافی کا بوجھ کیوں کندھوں پر ڈھوتی پھروں ،میں نے تمہیں معاف کیا جلال ،مگر میں تمہیں پُر سکون نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے ۔مگر روکو ابھی جانا مت ،میرے پاس تمہارے لیے کچھ ہے ۔”
یہ کہہ کر وہ اندر گئی اور ایک بوتل اُٹھا لائی ۔اُس نے جلال کو سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں بوتل کھولی اور جلال کے چہرے پر اُنڈیل دی ،وہ چیخنے ،کراہنے لگا ۔
تمہارے چہرے پر کرب کے یہ لمحات دیکھنے کے لیے میں نے چودہ برس انتظار کیا ہے جلال ،مگر ڈرو نہیں یہ ایک پر امن بوتل ہے ۔صاف شفاف ،ٹھنڈے، زندگی بخشنے والے چھینٹوں سے بھری ہوئی بوتل۔میں تم جیسی نہیں ہوں جلال! کہ رب کے بنائے ہوئے خوبصورت چہرے کو بگاڑ دوں ،کہ جس کے ایک ایک نقش کو ہمارا تخلیق کار بڑی محبت سے تخلیق کرتا ہے ۔میں تمہارے چہرے کے نقوش مسخ کر کے تم جیسی نہیں بننا چاہتی ۔کیا میں تمہارا چہرہ جلا کر ایک انسان پوری انسانیت کی بے حرمتی کر دوں؟؟ نہیں! مجھے اتنا ظالم نہیں بنایا گیا ۔میں لاکھ کوشش کر لوں مجھ میں اتنی سفاکیت پیدا ہی نہیں ہو سکتی ۔یہ کہہ کراُس نے زور سے دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔اور جلال کو لگا کہ آج وہ اندر سے بالکل خالی ہو گیا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply