غالب کے شعر پر استوار نظم۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

“ریڈکتیو ایڈ ابسرڈم ٭کی تکنیک میں غالب کے دس فارسی اشعار کو میں نے نظموں کا جامہ پہنایا تھا (کہ برہنہ بدن یہ اشعار فارسی میں بدصورت دکھائی دیتے تھے) ان میں سے ایک شعر پر استوار نظم یہ ہے۔ (یہ نظمیں میرے سعودی عرب میں قیام کے دوران (1992-994 ) میں خلق ہوئیں۔ میں نے ا نہیں اپنے کسی شعری مجموعہ میں شامل نہیں کیا)۔ستیہ پال آنند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
براہِ او چہ در بازیم، نے دینے نہ دنیائے
ولیداریم و اندوہے سرے داریم و سودائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اُس کی راہ میں دینے کی خاطر
کون سا در کھول کر دیکھیں
کوئی در جس میں رکھا ہو
برے وقتوں کی غایت کے لیے کوئی دفینہ۔۔۔
کوئی غولق جس میں ہو محفوظ کچھ نقدی بھلائی کی؟
کوئی کھاتا، تجوری، گنج یا بھنڈار
یا اک جاریہ صدقہ
ہمارے بعد بھی جاری رہے جو رہتی دنیا تک
مگر دنیا تو دنیا ہے
بری یا بھلی ہے، ہم نے کیا لینا ہے اس سے؟
اور اگر لینا نہیں ہے، تو بھلا دینے کا کیا مطلب؟
یہی مسلک تھا اپنا اور اس کو مان کر ہم نے
کوئی در بھی نہیں کھولا عوام الناس کی راحت رسانی کے لیے
یہ مانتے ہیں ہم
کہا اک دوست نے، “بھائی
کوئی لنگر ہی کھولو
جو چلے آٹھوں کے آٹھوں پہر نگری میں

اگر دنیا کی خاطر کچھ نہیں تو دین کی خدمت؟
نہیں بھائی۔ ہماری دوستی خود مرتکز تھی اور۔۔
یہی سمجھا تھا ہم نے
دین کی خدمت تو خود سے دور ہونے کی اصالت ہے
اگر ہم روز مرّہ کی روش سے دور ہٹتے تو
یقینا ً دین کی خاطر بھی کچھ کرتے!

اصولاً ہم ہی ہم تھے، خود ہی خود تھے
دین و دنیا کے لیے کرتے بھی کیا آخر؟

’’ولیداریم و اندوہے سرے داریم و سودائے‘‘
فقط دو ہی تو تھے اسباب اپنے پاس، دونوں ہی
سبب تھے میرے خوف و بیم ۔۔۔
اور سودائے سر کے۔جانتا ہوں میں
مرا دل،دکھ کا گہوارہ۔۔
اذیت،فکر اور اندوہ کا مارا ہوا، صید ِ زبوں سا تھا
یہ مرا دل ہی تو تھا جس نے مجھے بے چین رکھا عمر بھر میری

’’سرے داریم و سودائے‘‘۔۔۔
یہ کیسا مشتعل ہیجان تھا ، شوریدگی تھی، خبط تھا جس نے
مرے سر میں ہمیشہ کے لیے گھر کر لیا ۔۔۔اور میں
کسی شوریدہ سر ، خبطی سا خود سے ہی
توغل میں جھگڑتا رہ گیااب تک۔

یہی دو ہی تو تھے اسباب میری دین و دنیا سے

فراموشی کی حالت کے، کہ میں نے بیخودی میںہی
نہیں ’از یاد رفتہ ‘، بھولا بسرا ، قصہ ٔ مذکور ہی سمجھا
۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Reductio ad absurdum

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply