​دھوپ کا بالک اور میَں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

گزشتہ برس دسمبر میں تحریر کردہ!

Advertisements
julia rana solicitors london

سردی سخت تھی۔۔۔ سخت تھی سردی
اور میں، ایک اکیلا، آنگن میں کرسی پر اکڑ وں بیٹھا
اپنی ٹوٹی ٹانگ کا نوحہ
دل ہی دل میں دہراتا یہ پوچھ رہا تھا
“دھوپ کہاں ہے؟ یہی تو وقت ہے اس کے آنگن میں آنے کا”
تبھی، جواب میں جیسے، دھوپ کا اک ننھا سا بالک
میری گود میں آ بیٹھا، تو میں نے پوچھا
“اب تک کس تاریک غار میں سوئے ہوئے تھے؟”
بولا،” اس چھوٹی سی بات پہ کیوں ہلکان ہوئےجاتے ہو، میرے بوڑھے دادا؟
میں تو اِدھر آنے کو بگٹٹ دوڑ رہا تھا
پر رستے میں دیکھا تواک گھاس پھوس کے چڑیا گھر میں
دو ننھے چوزے تھے جو اس سردی میں بے ہوش پڑے تھے۔
دم بھر کو رُک کر میں نے جب
ان کے ننھے جسموں کو کچھ گرم کیا تو اٹھ بیٹھے وہ
وہاں سے آنے میں مجھ کو کچھ دیر ہو گئی، دادا جانی
خفا نہ ہوں اب ۔ باقی ساری صبح یہیں میَں
آپ کی گود میں بیٹھا
آپ سے باتیں کروں گا۔”

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply