محکمہ زراعت بھوٹان کی خدمات پر نوٹ

مملکت بھوٹان عسکری طور پہ زرخیز ہونے کے باعث محکمہ زراعت پہ خوب انحصار کرتا ہے۔ محکمہ زراعت زر کی آہٹ جہاں سنتا ہے، کھیتی ماڑی کرنے پہنچ جاتا ہے۔ اوکاڑہ میں محکمہ زراعت کے کھیت کھلیان پوری کیلا ریپبلک میں زبان عام ہیں۔ اس محکمے کے جوان سندھ تا خیبر، پنجاب تا بلوچستان اپنے تخم بونے میں مشہور ہیں۔ ڈاکٹر شازیہ کیس اس سلسلے کی ایک اہم مثال ہے۔ اتہاس گواہ ہے کہ محکمہ زراعت کے جوانوں کو جب جب مشن ملا وہ تب تک مگن رہے جب تک ان کا بویا بیج تناور بانس بن کر استعمال کے قابل نہیں ہوا۔ یہ بانس بعد ازاں ریاستی حیوانات کو ہانکے جانے کے کام بخوبی آتا رہا۔ یاد رہے کہ محکمہ زراعت کے مطابق ان کے قبیل کو چھوڑ کر بقیہ ریاست میں سبھی جاندار بلڈی جانور کہلائے جاتے ہیں۔ محکمہ بسا اوقات بانس کی بجائے میٹھے ڈنڈے المعروف موٹے گنے بھی اگاتا ہے۔ یہ گنے اکثر اوقات حیوانات کے سامنے بطور انتخاب رکھے جاتے ہیں۔ زیادہ تر حیوانات ان ڈنڈوں کی مٹھاس کے آگے سر جھکا دیتے ہیں۔ جمالی اور لغاری نسل کے کچھ منتخب جانور بطور مثال لیے جا سکتے ہیں۔ نسبتاً ضدی جانوروں کو البتہ یہی گنے دوسری طرح کھلائے جانے کا بھرپور بندوبست کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھٹو اور حال میں شریف نسل کے جانوروں کو یہ گنے غیر فطری طریقے سے کھلائے گئے۔ 

محکمہ زراعت بھوٹان کی آزادی کے کچھ عرصے بعد ہی سے کیلا ریپبلک کو اپنی خدمات پیش کرنے میں پیش پیش رہا۔ محکمہ عموماً اپنے منصوبہ جات میں اس حد تک پراعتماد ہوتا ہے کہ تجربہ پہلے اور اس پہ ریسرچ بعد میں کرتا ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان میں امریکہ بہادر کی مدد سے بوئے جانے والے بیج اس سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ پہلے پہل بھوٹان و افغانستان کے حیوان یہ بیج کاٹنے پہ مجبور تھے تاہم کچھ عرصے سے محکمہ از خود اس نیک کام میں شامل ہوچکا ہے۔ بھنگ نما یہ فصل خود رو طریقے سے پھیل کر آج کل بنانا ریپبلک آف بھوٹان کی اپنی حدود میں بھی پائی جاتی ہے۔ 

محکمہ زراعت بھوٹان ہر چند سال بعد ایک نئی پنیری کا اجراء کرتا ہے جو تھوڑے ہی عرصے میں حیرت انگیز طور پر پچھلے لگائے گئے پودوں کو تباہ کر ڈالتی ہے۔ چند سال میں یہ ننھے پودے درخت بننے لگتے ہیں تاہم تب تک محکمہ نئے تجربات کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے۔ ستر سال سے جاری ان تجربات کو دوہرا کر محکمہ اپنا کام پورا بھینس چرائے نورا کی پالیسی بخوبی سیکھ چکا ہے۔ 

تاریخ کے کئی مواقع ایسے بھی ہیں جب محکمہ خود اپنی اگائی فصل میں اس قدر الجھ کر رہ گیا کہ اسے باہر نکلنے کے لیے انہی کیڑے مکوڑوں اور جانوروں کی مدد لینی لڑی۔ اکہتر میں بھٹو نسل کے شیر اور ننیانوے میں کارگل پہ نواز نسل کی بھیڑ کی مدد اہم مثالیں ہیں۔ تاہم محکمہ ایسے واقعات کو ہرگز ہرگز اپنی غلطی یا اپنی کمزوری نہیں سمجھتا بلکہ ہمیشہ واضح کرتا ہے کہ یہ کام کیڑے مکوڑوں اور جملہ حیوانات پر عین فرض ہے۔

محکمہ زراعت لائیو سٹاک اور مویشیوں کی افزائش نسل میں بھی ماہر سمجھا جاتا ہے۔ مویشیوں کو سدھانے میں ویسے بھی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان میں سے دو چار کو ہلکی پھلکی پھینٹی جبکہ ایک آدھ کو پوری قوت سے موت کا منظر دکھا کر باقی حیوانات پہ بذریعہ خوف قابو پالیا جاتا ہے۔ نورانی نسل کا ایک جانور کچھ عرصہ پہلے محکمہ زراعت کے نامعلوم جوانوں کے ہاتھ چڑھا جس کے بعد کافی جانور رضاکارانہ طور پر محکمے کی گلے میں آچُکے ہیں۔ اس سے پہلے میر نسل سے تعلق رکھنے والے ایک بکرے کو بھی موت کے مناظر کا کامیاب ڈیمو کروایا جاچکا ہے۔ یوں جانوروں کی میڈیائی نسل محکمہ زراعت کے مویشیوں میں شامل ہے۔ مویشیوں کے علاوہ کئی جنگلی جانور بھی محکمہ زراعت کے زیر اثر رہتے ہیں۔ بندروں کے درمیان فیصلہ کروانے والی لومڑی اس سلسلے کی تازہ مثال ہے۔ 

حال ہی میں محکمہ زراعت نے خود کو بے زبان جانوروں کا نمائیندہ سمجھ لینے والے ایک زبان دراز جانور کے گھر پہنچ کر اس کی خوب درگت بنائی۔ اطلاعات کے مطابق انتخابی موسم میں ایسے کئی جانور عوامی نمائیندگی نامی ایک خطرناک بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے جانوروں کی کامیاب طریقے سے سرکوبی محکمہ زراعت کے اہم ترین فرائض میں شامل ہے۔ محکمہ زراعت کو ہر وہ نسل ناپسند ہے جسے سدھانا مشکل ہو، جیسے بگٹی، مینگل، مری نسل کے جانور لہذا ان کی نسل کو تلف کر کے باقی جانوروں میں کسی بھی قسم کے بغاوتی وائرس کی روک تھام کی جاتی ہے۔

میرے عزیز ہم وطنوں!

چونکہ آج کل انتخابات کا موسم ہے لہذا اندیشہ ہے کہ محکمہ زراعت اپنے فرائض پورے کرتا رہے گا، اوقات سے باہر نکلنے والے تمام خود سر جانور اپنے پاجامے میں رہیں گے اور ریاست یونہی ایف اے ٹی ایف کے یہاں سلیٹی سے سیاہ فہرست کی جانب رواں دواں رہے گی۔ 

اللہ تعالی ہمارے اور آپ جیسے جانوروں کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply