تعبیرِ خواب/محمد وقاص رشید

یہ تصور آباد ہے۔ یہاں راستے اور رہرو دونوں منزل کی تلاش میں رہتے ہیں ۔تنگ اور لمبی لمبی گلیوں میں دونوں اطراف کچے پکے گھروندے ہیں ۔ حبس زدہ گرما گرم مکانوں میں چولہے ٹھنڈے ہی رہتے ہیں۔ یہاں کے باسی غربت کے ساتھ بڑے اتفاق سے رہتے ہیں۔

یہاں ایک نوجوان اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ اسکا نام خواب ہے۔ خواب کا باپ اسکے بچپن میں ہی  چل بسا تھا۔ ماں نے اسے بڑی محنت کر کے ابتدائی تعلیم دلوائی مگر پھرجب وہ بھوک اور مشقت کے کاندھوں پر سوار ہو کر بستر سے جا لگی تو خواب کے لیے درسگاہ چھوڑ کر وقت سے سبق لینا مجبوری بن گیا جو سب سے بڑا استاد ہے۔

دن بھر کی مشقت کے بعد رات وہ گھر لوٹتا تو اپنی ماں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا پھر اسے اچھی طرح سے دباتا۔ آہوں اور کراہوں کے درمیان ماں اسے دعائیں دیتی۔ اسکے بعد وہ اسکا حوصلہ بڑھاتی اور کہتی بیٹا تو پرائیویٹ ہی سہی مگر پڑھنا ضرور۔ تو اپنے باپ کا وہ خواب ہے جسے تعبیر پانی ہے انشاللہ۔

آخر وہ رات آئی جب خواب اپنے کام سے واپس آیا تو اسکی ماں افلاس کے چاٹ جانے سے جو خون بچا تھا اسے تھوکنے لگی۔ وہ اپنی ماں کو اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھا کر تصور آباد کی تنگ گلیوں سے بھاگا اور ہسپتال سے سیدھا قبرستان پہنچا کہ اس دیس کے غریب زندگی بھر سوال لیے پھرتے ہیں اور آخر پہ ہسپتال سے جواب پاتے ہیں۔

خواب تنہا رہ گیا۔ اسکی ماں اسکی زندگی اسکی کائنات کھو گئی۔ زندگی بھر اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنا آپ کھلانے والی آخر ختم ہو گئی۔ اب وہ تھا اورمکان کی لا مکانی ، جہاں بے مائیگی ہی مایا تھی۔

اس گھروندے کیا پورے تصور آباد میں ہر شام شامِ غریباں تھی مگر آج تو کوئی دکھ ہی سوا تھا۔ شبِ ہجراں کی ایک ایک گھڑی قیامت تھی۔ اسکے کانوں میں ایک پرانے گیت کے بول گویا روح کو کچوکے لگا رہے تھے۔

“مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی مائے ئے ”

آنسو تھے کہ آنکھوں سے باہر نہیں گرتے تھے۔ یہ ہنر اس نے اپنی ماں سے ہی سیکھا تھا۔ ضبط کی شمع کے قطرے ایک ایک کر کے دل پر یادوں کے پھپھولے بنا رہے تھے۔ وہ رونا چاہتا تھا مگر اپنے کاندھے سے بھی لگ کر کبھی روتا ہے کوئی۔ دو راتوں سے جاگتا خواب آخر سو گیا زندگی بھر جاگنے کے لیے۔

خواب کے خواب میں کیا ہی خوابناک منظر تھا۔ اسکے ماں باپ ایک نورانی سی طشتری پر بیٹھ کر آسمان کی طرف اُڑے جا رہے تھے۔ اتنے میں ایک ڈائری نما کتاب جو وہ اس سے چھپا رہے ہوتے ہیں وہ اس طشتری سے گر کر خواب کی جھولی میں آ گرتی ہے۔ خواب اسے تھامنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ غائب ہو جاتی ہے لیکن خواب اس پر لکھا عنوان پڑھ لیتا ہے وہ لفظ تھا “تعبیر”۔

ہڑبڑا کر وہ اٹھا اور اچانک اپنی جھولی میں ٹٹولنے لگا مگر پھر اسے یہ احساس ہوا کہ یہ تو خواب تھا۔ اسکا جسم شدید جاڑے کی اس رات میں تندور کی طرح دہک رہا تھا۔ وہ چکراتے ہوئے سر کے ساتھ اٹھا اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ غسل خانے کی طرف بڑھا۔ اس نے وضو کیا اور اپنی ماں کے مصلے پر کھڑا ہو گیا۔ سجدے میں جا کر اسے نہ جانے کیا ہوا کہ جب جائے سجدہ سے اس کی ماں کی پیشانی کی خوشبو آئی تو اسے یوں لگا کہ اسکی ماں اسکی جبیں پر اپنا مخصوص بوسہ دے رہی ہو۔ آنسوؤں سے تر اس بوسے کی یاد دل میں کیا جگی کہ اسکی آنکھیں برسنے لگیں۔ اتنی کہ مصلہ  بھیگ گیا۔ ضبط کے بند ٹوٹے تو نہ جانے کب کا رکا ہوا درد کا دریا بہا اور نہ جانے کب تک بہتا رہا۔ اسکے ہونٹوں سے جذب کی اس کیفیت میں وہ الفاظ نکلے کہ آنے والے وقت میں بارگاہِ خداوندی سے قبولیت کی سند پا گئے۔ وہ الفاظ تھے “اے خدا خواب کو تعبیر عطا کر”۔۔یہ الفاظ اسکی ماں کے الفاظ تھے۔

ایک رات پھر وہی خواب آیا اور اب کے اس نے اپنے گھر کے اس چبوترے کو روشنی سے جگمگاتا ہوا دیکھا تو اسکی آنکھ کھل گئی اس تجسس بے کلی اور اضطراب کی اوج پر وہ ٹارچ لے کر باورچی خانے کے اوپر بنے اس سٹور نما چبوترے پر چڑھ گیا اور اس میں سے ایک پرانے سے صندوق میں اسے وہ رازِ حیات مل گیا۔ وہی ڈائری ۔ وہی تعبیرِ حیات۔

ڈائری نے اسکی روح کے کانوں میں سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ اسکا باپ بنیاد پورہ کے امیر گھرانے کا ایک مختلف فرد تھا۔ اس نے اپنے باپ کی مرضی کے خلاف ایک غریب سے گھرانے کی لڑکی سے شادی کی تو اسکے باپ نے اسے عاق کر دیا۔ سوتیلے بھائیوں نے اسکی ذاتی تعمیر کردہ اس حویلی پر بھی قبضہ جما لیا۔ اور جب اس نے اپنا حق مانگنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنا چاہی تو انہوں نے اس پر ایک قاتلانہ حملہ کیا جس سےوہ بال بال بچتے ہوئے اپنی محبت کے خراج میں سب کچھ تج کر تصورآباد آگیا۔جہاں سے اس نے زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہا تو زندگی نے سرا ہی ہاتھ نہ آنے دیا۔ اپنے بیٹے سے متعلق اسکا ایک خواب تھا اس لیے اس نے اسکا نام ہی خواب رکھ دیا۔ خواب نے اس خواب کو نمناک آنکھوں سے پڑھا تو وہ اسکے دل کیا روح میں اتر گیا۔

خواب نے محنت شروع کر دی اور پرائیویٹ بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اسکے بعد اس نے سی ایس ایس کی تیاری کے پیسے جمع کرنے کے لیے فیکٹری میں اوور ٹائم لگانا شروع کر دیا۔ اس نے ایک اکیڈمی میں داخلہ لے لیا جہاں کے پروفیسر صاحب نے اسکی “کہانی” سن کر اسے ایکسٹرا ٹائم دینا شروع کر دیا۔ وہ اسے گھر پر بھی پڑھانے لگے۔ اس پر اب ایک جنون سوار تھا اور جنون کے بنا خواب کو تعبیر کہاں ملتی ہے۔ وہ رات گئے پڑھتا ، صبح و سویرے پڑھتا۔ فیکٹری میں لنچ بریک میں جلدی جلدی نوالے زہر مار کر کے پڑھنے لگتا۔ باقی لوگ کتابیں پڑھتے وہ انہیں جذب کرتا ہضم کرتا۔

خواب نے اس وقت سبھی کو حیران و ششدر کر دیا۔ جب اس نے سی ایس ایس میں ٹاپ کیا اور اسکے بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وہ اس تحصیل کا اسسٹنٹ کمشنر بن گیا جس میں بنیاد پورہ گاؤں آتا تھا۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب وہ ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے بیٹھا تھا اور وہاں اسکا سوتیلا چچا ایک سیاستدان کے روپ میں موجود تھا۔ جب آمنا سامنا ہوا تو اسکا چچا جو نہیں جانتا تھا کہ یہ خواب کس کی آنکھوں کا خواب ہے کہنے لگا خواب صاحب بڑا منفرد سا نام ہے آپکا۔۔۔ہم اس علاقے میں آپکو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیروں کے لیے ہمیں حکم کیجیے گا ہم خدمتگار ہیں اس علاقے کے۔ خواب نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔جی جی کیوں نہیں۔۔۔آپ کے بارے میں بہت سنا۔۔۔آپ سے نہیں کہنا تو کس سے کہنا ہے۔ ملاقات ہو کے رہے گی انشاللہ۔

خواب نے اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے کچھ ہی عرصے میں خیرہ کن کارنامے سر انجام دیے۔ اس نے چند این جی اوز اور علاقے کے اہلِ درد کے تعاون سے علاقے میں بچوں بچیوں کا مفت تعلیمی و تربیتی مرکز جو شام میں نوجوانوں کا ٹیکنیکل سنٹر بن جاتا تھا قائم کیا۔

منشیات نیٹ ورک پر باقاعدہ دھاوا ہی بول دیااور کئی نشہ کرنے والے جوانوں کو شہر میں علاج کے ذریعے زندگی کی طرف واپسی کی راہ دکھائی۔
ایک اور کمال کا کام اس نے کیا کہ علاقے کے مستعد پڑھے لکھے نوجوانوں پر مبنی ایک سماجی تنظیم بنائی جو دیکھتے ہی دیکھتے رفاہِ عامہ کے کاموں کی ایک بڑی ایڈمنسٹریٹر باڈی بن گئی۔

علاقے میں جرائم کم ہونے لگے امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی۔ نہری پانی کی چوری رکی تو چھوٹے کسان کی زراعت بھرپور پھلنے پھولنے لگی۔ الغرض خواب ایک مسیحا بن گیا۔

اور پھر وہ ہوا جس سے دہائیوں سے پکنے والا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ بنیاد پورہ کے ایک غریب کی بیٹی سے زیادتی ہوئی اور مجرم کوئی اور نہیں خواب کا سوتیلا چچا زاد اور اسکا ایک اوباش دوست تھا۔ خواب نے پوری انتظامیہ کے ساتھ متاثرہ لڑکی کے گھر پہنچ کر ایک حیران کن بیان دیا کہ اس بچی کا مدعی میں ہوں۔

متاثرہ خاندان پر صلح کے لیے شدید دباؤ ڈالا گیا بہت دھمکیاں دیں گئیں لیکن پورا بنیادپورہ اس بچی کی ردا بن کر سر پر سائبان کی طرح تن گیا۔ پورے گاؤں نے یہ مقدمہ اخلاقی ، سماجی اور معاشی محاذوں پر بھرپور طریقے سے لڑا اور آخر کار دونوں مجرموں کی سزا پورے ملک کے لیے مثال بن گئی۔

بڑی مدت سے ایک گمنام اور عام صحافی کی زندگی گزارنے والے ایک نوجوان کو خواب نے اس پر ایک ڈاکومینٹری بنانے کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کی اور انصاف ملنے میں اس ڈاکومینٹری کو پورے ملک میں سراہا جانے لگا اور وہ ایک بڑے چینل کا نامور صحافی اور اینکر بن گیا۔ جس نے بعد کے مختلف امور میں بنیاد آباد کی بڑی مدد کی۔

اور پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ حکومت تبدیل ہوئی اور خواب کے سوتیلے چچا کی جماعت حکومت میں آئی اور خواب کا تبادلہ کر دیا گیا۔ اس نے اس سب کی پیش بندی پہلے سے کر رکھی تھی۔ خواب کے تبادلے کے خلاف جلسے جلوس نکالے گئے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی ملازمت سے استعفی دے دیا۔ کیونکہ خواب اپنی بنیاد سے جڑے رہنا چاہتا تھا۔

خواب جس نے چند نوجوانوں کو اس دوران بیرونِ ممالک بھجوایا تھا ان کا ایک جوائنٹ وینچر بناتے ہوئے اپنے پرانے فیکٹری مالک سے بات کی اور بنیاد آباد میں ایک فیکٹری لگا دی جو کہ فیکٹری کم اور ایک رفاہی ادارہ زیادہ تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بڑی انڈسٹری کا روپ دھار گئی۔

خواب نے پھر اہلِ علاقہ کے اصرار پر اگلا الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا۔ الیکشن میں اس نے اپنے سوتیلے چچا کے خاندان کو عبرت ناک شکست دی اور فتح کے ساتھ ہی اس نے بنیاد پورہ میں اصلاحات کا اعلان کر دیا۔ مافیاز کے خلاف خواب کے منظم کیے گئے سماج کے اکٹھ اور شعور نے بھرپور کردار ادا کیا اور انتہائی جان جوکھوں کے بعد آخر کار ان اصلاحات کے زیرِ اثر شرح تعلیم ، فی کس آمدنی ، امنِ عامہ کی صورتحال ، زرعی و صنعتی ترقی, خوشحالی، سماجی شعور اور ماحولیات کی بنیاد پر بنیاد پورہ پورے ملک کا پہلا مثالی گاؤں قرار دے دیا گیا۔ اس گاؤں کا نام بعد میں خواب نگر رکھ دیا گیا۔

خواب نے اپنے سوتیلے چچاؤں کے ناجائز قبضے سے بہت سی زمینیں چھڑوا کر انکے حق داروں کو دیں۔ آخر پر اپنے باپ کی حویلی بھی، لیکن حویلی تاحیات اپنے ماں باپ کے نام پر بننے والے ٹرسٹ کے نام کر دی۔ اس حویلی میں چائلڈ لیبر کرنے والے بچوں کی جدید ترین تعلیم و تربیت کا ادارہ قائم کیا گیا جسکا افتتاح اسی مظلوم لڑکی نے کیا تھا۔ جس سے ظلم ہوا خواب نے اپنے محسن پروفیسر صاحب کو اس ادارے کا سربراہ بنایا۔ تقریب میں سبھی آنکھیں چمک رہی تھیں مگر دو آنکھیں کچھ زیادہ۔ یہ آنکھیں پروفیسر صاحب کی اکلوتی بیٹی تعبیر کی آنکھیں تھیں۔ آج خواب کی آنکھوں میں تعبیر اور تعبیر کی آنکھوں میں خواب تھا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

خواب سچے ہوں تو تعبیریں مل ہی جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply