ورلڈ اردو ریسرچ اینڈ پبلی کیشن…..روبینہ فیصل 

حال ہی میں ورلڈ اردو ایسو سی ایشن،نئی دہلی کے چئیرمین پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور ان کی ٹیم کی ان تھک محنت اور کوشش سے چار نئے ڈیجٹیل پلیٹ فارم کا افتتاح کیا گیا، جس کے تحت ورلڈ اردو ریسرچ اینڈ پبلی کیشن سنٹر کا قیام،آن لائن اردو لر ننگ پر وگرام،آن لائن رسالہ ترجیحات اور ای بک پبلی کیشن کا آغاز کیا گیا ۔ اردو سے محبت کر نے والوں کے لئے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے۔
مجھے جب 2014 میں جواہر لعل نہرو یو نیورسٹی دہلی کے زیر ِ اہتمام منعقد ہونے والی اردو کانفرس میں ” 21ویں صدی میں اردو جر نلزم “پر  مقالہ پڑھنے کے لئے دہلی آنے کی دعوت دی گئی تو میرا خیال تھا کہ انڈیا میں اردو پر کیا ہی بات ہو گی اور کیا ہی اس کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہوگا۔ مگر وہاں جا کر مجھے خوشگوار حیرت ہو ئی کہ جے این یو والے اردو کے بارے میں ہم  پاکستانیوں سے کہیں زیادہ پر عزم اور پر جو ش ہیں۔ ہال  سٹوڈنٹس سے بھرا ہوا تھا اور وہ سب مکمل انہماک اور اشتیاق سے اردو کے ماضی، حال اور مستبقل پر ہو نے والے مقالوں کو سن رہے تھے۔ میں نے کئی دفعہ مڑ کر دیکھا کہ شائید کہیں سے جمائیوں اور اکتاہٹوں کے مناظر نظر آجائیں مگر وہاں ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ طالبعلموں کے چہروں پر علم کی حقیقی طلب تھی۔ وہاں موجود مندوبین اور منتظمین میں، میرا  پہلے سے تعارٖ ف صرف ڈاکٹر تقی عابدی سے تھا۔ جو ہمارے ہی  کینڈا سے ہیں۔۔ اس کانفرس کو کروانے والی شخصیت خواجہ اکرام الدین سے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہو ئی تھی۔ ان کو جب دیکھا تو طالبعلموں کی علم کی طلب، اشتیاق اور تجسس سب سمجھ میں آگیا، یہ سب خواجہ صاحب کی متحرک شخصیت کا اثر ہی تو تھا۔ ان کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ان کے جسم میں پارہ اور دماغ میں عزم بھرا ہوا ہے۔ اور یہ کمبینیشن کتنا لیتھل ہو تا ہے اس کا اندازہ مجھے تب بھی ہو گیا تھا اور اس دن ان کے آن لائن چار پلیٹ فارمز کا اجرا دیکھ کر اور بھی مستحکم ہو گیا۔خواجہ صاحب کئی سال پہلے بھی اردو کے مستقبل کے لئے نہ صرف فکر مند تھے بلکہ عملی طور پر کچھ کر نے کے خواہاں تھے اور آج بھی وہ اسی ڈگر پر چلتے ہو ئے منزل تک پہنچ چکے تھے۔ اردو زبان کو ایسے دھن کے پکے لوگوں کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ اردو لکھنے اور پڑھنے والے دونوں ہی سست مزاجی میں دنیا کی ساری زبانوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔۔  ایسے میں ایک عملی آدمی جو خود بھی سکالر ہو اردو کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
ابھی تک آن لائن پبلی کیشن کا کام تجارتی بنیادوں پر ایمزون، لولو،اور کینڈل وغیرہ پر ہو رہا ہے جس میں اردو پبلیکیشن کا نام و نشان نہیں ہے۔ آج کا موڈرن ٹکنالوجی کا دور بہت تیزی سے تعلیمی میدان میں ای بک کی طرف بڑھ رہا ہے ایسے میں دنیا کے بڑے تجارتی اداروں نے اردو میں ای بک پلیٹ فارم کی سہولت مہیا نہیں کرائی ہے یہ حیرت انگیز بھی اور المیہ بھی، اس طرح اردو زبان اس ٹکنالوجی کے  دور میں پیچھے رہ جائے گی۔ ورلڈ اردو ریسرچ اینڈ پبلیکیشن کا یہ ادارہ ایک بڑا موقع فراہم کر رہا ہے اگر اردو کے احباب  سنجیدگی سے ادارے کا ساتھ تو ممکن ہے آنے والے دنوں میں یہ اردو کا بڑا دیجٹل اشاعتی ادراہ بن جائے۔ضروری ہے ہم اردو والے اپنی غیر مطبوعہ اور مطبوعہ کتابوں کا اس پلیٹ فارم پر شائع کراکے اس ادارے کے فروغ میں حصہ لیں۔ ایسے میں نان پرافٹ بنیادوں پر سب دوستوں کی مدد سے اردو کتابوں کی اشاعت پہلی مرتبہ آن لائن ہو نا ایک بڑا کارنامہ ہے۔اس سے پرنٹ کتابوں کے پبلشرز کی اجارہ داری او ر منمانی سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔دنیا میں جتنے بھی اردو لکھنے والے ہیں وہ اس پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ جڑ کر نہ صرف اپنے کام کی اشاعت سہل بنائیں گے بلکہ اردو کی ترویج میں بھی ان کا ایک کردار ہو گا۔ اس میں بر صغیر پاک و ہند کے احباب کے علاوہ عالمی سطح پر اردو کی بستیاں بسانے والے سب شامل ہو سکتے ہیں۔
اس آئن لائن رابطے کی وجہ سے، جس میں اردو کتابوں کی آن لائن اشاعت کے علاوہ اردو سیکھنے سکھانے کا عمل، آن لائن ادبی رسالہ ترجیحات کی اشاعت، اور ریسرچ وغیرہ شامل ہیں، دنیا میں جہاں جہاں اردو بولنے والے بستے ہیں، سب ایک دھاگے سے بندھ جائیں گے۔ تفصیلات کے لیے ان کے ویب سائٹ www.worldurdurnp.com کو ضرور ملاحظہ کریں۔
میں ایک مرتبہ پھر سے ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین اور ان کی ٹیم کو آن لائن اردو پلیٹ فارم کے اجرا پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اور امید کرتی ہوں کہ ان کو اس نیک نیتی کا اجر ان کے کاموں کی ترقی کی صورت میں ملے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ورلڈ اردو ریسرچ اینڈ پبلی کیشن…..روبینہ فیصل 

  1. “اردو پر انڈیا میں کیا ہی بات ہوگی”، روبینہ فیصل کا یہ بہان مطالعے کے فقدان، علمی فہم سے معصومانہ فاصلے بلکہ یوں کہا جاۓ کہ یہ بیان جہالت کی انتہا ہے۔

Leave a Reply