ساحر لکھنوی کی شخصیت اور سلام نگاری۔۔ سیدشاہ زمان شمسی

جنابِ ساحر( سید قائم مہدی) چھ ستمبر 1931 کو سرائے رحمت اللّٰہ کھارا دار، کراچی میں اس وقت پیدا ہوئے جب ان کے محترم والدین زیاراتِ مقدسہ کے سفر کے دوران کراچی میں تھے۔ وہ خاندانِ اجتہاد کی اس شاخ کے ثمر ہیں جو اپنی دولت مندی کی وجہ سے نواب کہلاتے تھے۔ 25 نومبر 2019 کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ وادئ حسین کراچی میں مدفن ہیں۔

ساحر لکھنوی مرحوم کے ادبی مشاغل میں مرثیہ گوئی، تنقید نگاری اور مضمون نگاری جیسی اصنافِ سخن شامل ہیں جن پر وہ طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ ان سب اصناف میں سے سلام گوئی کو اولیت حاصل ہے۔

سید قائم مہدی نقوی کا ابتداء میں قلمی نام جمشید بعد میں “ساحر” جب تک لکھنؤ میں رہے جدِ امجد استاذالاساتذہ سید اصغر حسین فاخر اعلیٰ مقامہ کی نسبت سے “ساحر فاخری” بھی لکھتے رہے۔ پاکستان آنے کے بعد اپنی شناخت کے لیے ساحر لکھنوی لکھنا شروع کیا۔ وہ ایک طویل عرصہ سے مرثیہ، قصیدہ، منقبت، سلام و رباعیات اور تاریخ گوئی وغیرہ پر طبع آزمائی کرتے رہے۔

جناب ساحر لکھنوی کے گھر کا ماحول شعر و سخن کی خوشبو سے بسا ہوا تھا۔ والدِ مرحوم، والدہ ماجدہ جنت مکانی، دونوں عمِ محترم اور گھر کی بعض خواتین سب شعر کہتے ہیں۔روزانہ ایک مختصر سی نشست ہوتی۔ ایسے میں ذوقِ شاعری پروان کیوں نہ چڑھتا؟۔ابتداء سلام اور نوحہ سے کی۔ غزل بھی کہنا شروع کی کراچی آئے تو کوئی دس سال شعر و سخن کا ماحول نہ ملا۔

اُن کا سلام و آداب کہنے کا طریقہ، لفظوں کی ادائیگی کا لوچ،تلفظ کی حرمت کا خیال، جملوں کی احترام و ادب سے ادائیگی کا انداز، لہجے کی شگفتہ شگفتہ نرماہٹ، سب کچھ لازوال محبت کا زندہء جاوید پَر تَو ہوتا ہے۔ ایسے لب و لہجے آج کے عہد میں ناصرف ناپید ہیں۔۔۔ بلکہ نایاب ہیں۔

اپنی ذات کے حوالے سے جو وہ اپنا تذکرہ کرتے ہیں تو خاکساری اور انکساری میں کسرِ نفسی کی ان حدوں کو دلیری کے ساتھ چھوتے ہیں جو صرف ایک خاندانی لکھنوی یا پھر ساحر لکھنوی کے حصے میں آنے کا امکان ہے۔

حالانکہ انہوں نے اعلیٰ ترین مروجہ تعلیم حاصل کی مگر جب وہ یہ جملہ لکھتے ہیں کہ میں تو ایک ہیچ مندان بے علم و بے ہنر،کم سودا و کم نظر شخص ہوں تو اس جملے کی بُنت ان کی علمی معاملات میں اعلیٰ ظرفی، کمال علمی اور رفعتِ نظر کے بھید کھول دیتی ہے۔ اُن کی ذات کا شامیانہ انکساری کے میدان میں سب سے نمایاں لگا نظر آتا ہے۔ مثلاً جب وہ اپنی تعلیم کا ذکر کرتے ہیں تو پہلا جملہ اختصار میں صرف اتنا تحریر فرماتے ہیں کہ “تعلیم واجبی ہے” مگر جب ان کی زبانی ان کی حاصل کردہ تعلیمی سرگرمیوں اور ڈگریوں کی تفصیل سامنے آتی ہے تو خواہ مخواہ زبان سے یہی نکلتا ہے کہ یا حضرت لکھنوی! کوئی اس کو واجبی کہتے ہیں۔

“یوپی بورڈ سے میٹرک کا امتحان اول درجے میں پاس کیا۔کراچی میں اسلامیہ کالج سے گریجوایشن کیا۔ اردو ادب میں کراچی یونیورسٹی سے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر ایم اے کیا۔ ایس ایم لاء کالج سے قانون میں گریجویشن(ایل ایل بی) کی ڈگری بھی اوّل درجہ میں حاصل کی۔صنعتی و و مزدور قوانین کا امتحان قانون کی تعلیم کے پرائیویٹ ادارے سے پاس کیا۔ اس خاکسار نے اس امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور پورے پاکستان میں اوّل آیا”۔

(بحوالہ: خانوادہء اجتہاد کے مرثیہ گو صفحہ نمبر 965)

ساحر لکھنوی جیسے صاحب علم و کمال یقیناً نادرِ روزگار اور یکتا و یگانہ ہوتے ہیں فرماتے ہیں:

“میں کیا اور میری علمی استعداد کیا؟ جاہلِ محض ہوں جو کچھ شُد بُد ہے وہ گھر کے ماحول، خاندان کے اثرات، بزرگوں کی میراث اور ماں باپ کی نیک خواہشات اور تمناؤں کا ثمر ہے۔ جب کسی صاحبِ علم کو دیکھتا ہوں ہو تو اپنے آپ سے اس طرح خجل ہو جاتا ہوں جس طرح مور اپنے پاؤں دیکھ کر شرما جاتا ہے۔ اکثر خیال آتا ہے کاش کچھ علم حاصل کر لیا ہوتا”۔

سلاموں میں کس قسم کی زبان استعمال کرنی چاہیے۔ اسلوب، لغت، لفظوں کی بناوٹ اور سلیقہء اظہار کو فصاحت و بلاغت کے نئے اور پرانے معیار کی رو سے کیسے پرکھا جائے یہ جاننا از حد ضروری ہے تا کہ ہر شعری زبان کے لیے حکم لگایا جا سکے۔ موجودہ دور میں لکھے جانے والے سلاموں پر نظر ثانی کی بہت ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ساحر لکھنوی کے سلاموں کو عمیق النظری سے پڑھ کر یہ محسوس ہوا کہ انھوں نے انتہائی شگفتہ زمینوں میں رواں دواں سلام کہے ہیں۔

ماہنامہ خیر العمل کا ساحر لکھنوی نمبر خاکسار کے پاس موجود ہے۔ جس میں قبلہ مرحوم کے تیس(30) سلام ہیں۔ سلاموں میں سادہ زبان کے استعمال کے باوصف بڑی معنیٰ خیز اور قابلِ قدر شاعری کا سرمایہ انھوں نے اردو زبان کو مہیا کیا۔

ان کا یہ ماننا تھا کہ سلاموں میں زبان و بیان کی اہمیت کے ساتھ ساتھ مکمل توجہ تخلیقی جہات پر بھی دینی چاہیے۔ جو شاعر زبان کے استعمال کا فنکارانہ شعور رکھتا ہے وہ اپنی زبان میں کامل مہارت کے تحت اعلیٰ شاعری کی تخلیق کر سکتا ہے۔
ساحر لکھنوی مرحوم خود ایک جدید سلام گو ہونے کی حیثیت سے سلاموں کے نکتے سے بخوبی واقف تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے سلام کی زبان کے نازک ترین مسائل کے باوجود بڑی خوبی کے ساتھ اظہارِ خیال کیا ہے۔

اُن کے سلام کا ہر شعر غزل کے شعر کی طرح مستقل ہوتا ہے اور دوسرے شعر سے ربط نہیں رکھتا۔ مضامین کے لحاظ سے ان کے ہاں کسی ایک مضمون کی پابندی بھی نظر نہیں آتی۔ مثال میں سلام کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:-

نظر میں نور جو آٹھوں پہر حُسین کا ہے
ہماری آنکھ کی پُتلی میں گھر حُسین کا ہے
یہ حریت کا جو چرچا ہے آج دنیا میں
بشر کی فکر پہ یہ سب اثر حسین کا ہے
کہے جو حاکمِ جابر کے منھ پہ کلمہء حق
کسی بھی دین کا ہو وہ، مگر حسین کا ہے

ملاحظہ فرمائیے اس سلام میں آپ کو مضامین کا تنوع نظر آئے گا۔ جناب ساحر کے سلام اسی طرح کے ہیں جن میں اساتذہ لکھنؤ کا رنگ نظر آتا ہے۔

نہ دیکھو ساحرِ بے علم کو حقارت سے
وہ بے ہنر سہی، شاعر مگر حسین کا ہے

مجموعی طور پر ساحر لکھنوی کے سلام مقبول عوام و خواص رہے ہیں اور آج بھی ان کے سلاموں کی پذیرائی ہو رہی ہے۔ اردو سلام و مرثیہ کے مقام ومرتبہ اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے وہ گویا ہوتے ہیں کہ

ساحر سلام و مرثیہ گوئی ہو روز و شب
تیری شفاء کے واسطے بس یہ دوا ہے ایک

یوں تو بہت سے شعراء نے سلام نگاری کو ایک صنفِ سخن کے طور پر زندہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ ساحر لکھنوی نے اس صنف کو وظیفہء حیات بنا لیا۔ شعر ملاحظہ کیجیے گا کہ:

پاؤں تھک جائیں تو سر کے بَل چلو لے کر عَلم
ہاتھ کٹ جائیں تو آنکھوں سے عزا ہوتی رہے

تشریح طلب شعر میں ساحر لکھنوی نسلِ نو کو وفا شعاری کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دراصل درسِ کربلا کے ذریعے ظلم و جبر کے خلاف بغاوتِ عَلم بلند کرنے کا پرچار کیا جاتا ہے۔ یہ شعر صنعتِ تلمیح سے تعلق رکھتا ہے واقعہ کربلا کے پیشِ نظر اس شعر کو پرکھا جائے تو شعری زبان کے لطف سے سرشار ہوئے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔

چراغِ اشکِ عزا بجھ نہیں سکے گا کبھی
ہزار لے کے کوئی سامنے ہوا کو چلے

قبلہ مرحوم نے عزاداری کی اہمیت و حیثیت کو بے باکی سے اس شعر میں بیان کیا ۔ عزاداری کے فروغ کی ترغیب اس شعر کے توسط سے قارئین تک پہنچائی گئی۔ عزاداری فلسفہء شہادت کو زندہ رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ محبانِ عزا جو اس غم سے وابستہ ہیں وہ عزائی غم کو اپنے لیے زادِ راہ سمجھتے ہیں۔ شعر دیکھیے گا کہ

شوقِ ثناء و ذوقِ عزا اور غمِ حسین ع

کیا کیا عطا کیا ہمیں پروردگار نے

Advertisements
julia rana solicitors london

ساحر لکھنوی کے سلاموں میں تخیل کی بلندی، مضمون آفرینی، طرزِ ادا میں جدت محاورہ اور روزمرہ کی پابندی، تشبیہات و استعارات کی ندرت، صنائع و بدائع کا حُسنِ استعمال عروض و قافیہ کے لحاظ سے کلام کی درستی، لطفِ زبان اور حُسنِ بیان شامل ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply