رہے نام خدا کا۔۔محمد وقاص رشید

گاڑی کے اندر ایک سوگوار سی فضا تھی،کُل چار افراد تھے،پچھلی سیٹ پر ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی، اسکی بیٹی اسکی جھولی میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی،اگلی سیٹ پر اس عورت کا بیٹا تھا  اور اسکا خاوند گاڑی چلا رہا تھا۔ گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی اپنی منزل ،ایک گاؤں کی طرف رواں دواں تھی ۔ جہاں ایک بڑھیا اس عورت کے انتظار میں بے سُدھ پڑی تھی  تا کہ وہ اسکے جسدِ خاکی پر بین کر لے۔ اسکے ہجر کا ماتم کر لے، اسکا غم تو ہلکا ہو چکا،اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے، یکطرفہ طور پر گلے لگ کر اسکے بدن سے رخصت ہوئی روح کا سوگ منا لے۔ کیونکہ یہ عورت بھی کبھی مرنے والی عورت کی روح تھی، اسکی جاں تھی  کہ وہ اسکی ماں تھی۔

عجیب نظام ہےِ بیٹیاں ماؤں کی روحیں ہوتی ہیں ۔ یہ روحیں بیاہ کر رخصت ہوتی ہیں تو انکو اگلے گھروں میں یہ بتانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے کہ  تمہاری ماں نہیں رہی یا باپ چلا گیا۔  دنیا کے بڑے سے بڑے نقصان کی اطلاع دینا آسان ہے کسی کو اسکے دل میں بستی کسی ہستی کی یہ خبر دینا کہ جسے تم اپنا سمجھتے تھے وہ تمہارا تھا ہی نہیں وہ دراصل جسکا تھا وہ لے گیا۔ اب اس ہجر کو اس دوبارہ ہونے والے وصل تک قبول کر لو۔ دوبارہ وصال کیسا ہو گا؟

خاوند نے پیچھے دیکھنے والا شیشہ اپنی بیوی کے چہرے پر مرکوز کر رکھا تھا  تا کہ اسکی بیوی کہیں پیچھے نہ دیکھنے لگے ۔۔ بہت پیچھے۔۔  جہاں وہ خود کو گود میں لیٹی ہوئی بیٹی جتنی محسوس کرے۔۔۔ جہاں وہ ہو اور اسکی ماں ہو،یہی کُل جہاں ہو ۔ کہیں ماں انگلی پکڑ کر چلنا سکھا رہی ہو، کہیں قاعدے سے لے کر پارہ پڑھا رہی ہو، کہیں تختی دھو رہی ہو،  کہیں گیلی لکڑیوں کو پھونکیں مارتے آنکھیں دھواں دھواں کر رہی ہو، کہیں اسکی مسکان لے کے ہنس رہی ہوِ کہیں اسکے آنسوؤں کو اپنی روح کے پلو سے پونچھتے ہوئے رو رہی ہو، کہیں اسے رخصت کرتے گھٹ گھٹ کے رو رہی ہو کہیں اسکی یاد میں رو رو کے گھٹ رہی ہو ۔۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا۔  اسکی آنکھوں کے بند بار بار ٹوٹ پڑتے تھے۔  اُمڈ آنے والا سیلاب یہ پتا دیتا تھا  کہ وہ پیچھے دیکھ رہی ہے، یادوں کے بیک ویو مرر میں سے عقب میں جھانک رہی ہے،آنکھ کھلنے سے لے کر کل ٹیلی فون پر بات کرنے تک اپنی رگوں میں زندگی بن کر دوڑتی ماں کی موت کی خبر ۔۔۔ماں، جو زندگی دیتی ہے۔۔۔ مر کیسے سکتی ہے؟ ۔ وہ تو مر کر اور بھی زندہ ہو جاتی ہے ۔ اسکی سوجی ہوئی آنکھوں سے گرتے آنسو ٹپ ٹپ چھم چھم۔۔ اسکے بچپن سے لے کر آج تک ہر عہد کی چٹختی یادوں کو سیراب کر رہے تھے۔
جسکی کوکھ سے جنم لیا۔۔۔۔ جسکی گود پہلی درسگاہ ہوئی، جس نے انگلی تھام کر چلنا سکھایا تھا۔

خدا خود غیر مرئی ہے اسکی قدرت نہیں، سو خداوند بار بار بیوی کی ڈھارس بندھوانے کے لیے بیوی کو اس قدرت کو دیکھنے اور اسکے آگے سرِتسلیم خم کرنے کے لیے ایک ہی بات کو مختلف انداز میں کہے چلے جاتا تھا۔ ۔ان چار سواروں پر مبنی زندگی کی گاڑی کو آگے دیکھ کر چلانے کے لیے۔ ۔وہ بار بار سر کو ہلکی سی جنبش دے کر آنکھوں کو پونچھ دیتی۔۔۔۔ بیٹا مڑ کر ماں کو دیکھتا اسکے گھٹنے پر ہاتھ رکھتا تھا اور جھولی میں لیٹی بیٹی ماں کو پیار کرتی۔۔  دوپٹے سے اسکی آنکھیں پونچھ دیتی تھی۔

خدا اکثر خشک نہیں نم آنکھوں سے نظر آتا ہے۔۔۔۔ کیا ہے آخر اس نمی میں۔ اچانک ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ یکسر ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح گاڑی دوڑاتے آدمی کے ذہن سے ٹکراتا ہے۔  یہی نمی زمین میں ہوتی ہے تو رزق بنتی ہے، یہ فضا میں ہوتی ہے تو بارش،آنکھ میں ہوتی ہے تو یاد ۔یہ جہاں ہوتی ہے وہاں زندگی ہوتی ہے۔  خدا کا کلام کہتا ہے، ہم نے پانی سے زندگی کو پیدا کیا۔  خدا حی القیوم ہے۔  ایک اکیلا زندہ و جاوید لافانی۔  باقی کا سب کچھ تو فنا ہے ۔ خدا نے زندگی کو پانی سے پیدا کیا ۔ کسی اپنے کی موت یہ پانی آنکھوں سے ٹپکتا ہے تو زندہ و جاوید خدا یاد آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا ہی کو یاد آنا بھی چاہیے۔۔  موت و حیات کے اس نظام میں وقت اور کردار بدلتے ہیں ، باقی سب کچھ ویسا ہی رہتا ہے ۔ آج پچھلی سیٹ پر موجود جھولی میں سر رکھے بچی کی جگہ کل یہ خاتون تھی ۔اور اسکی اپنی جگہ وہ ماں جو اس وقت خدا کے روبرو پیش ہو چکی ۔کل کو گود میں لیٹی بچی کی اپنی گود میں ایک بچی لیٹی اس کے آنسو پونچھ رہی ہو گی۔۔۔ آنسو ۔۔۔۔یہ نمی۔۔۔۔یہ پانی جس سے خدا نے زندگی پیدا کی ۔ اس زندگی کا انجام بھی یہ پانی۔۔  یہ نمی۔۔۔ یہ آنسو ہیں ۔یہ سلسلہ تب تک نہیں رُکے گا جب تک کائنات پر آخری ہستی،عزرائیل بھی یہ کہہ کر آنکھیں نہیں موند لے گا کہ۔ ۔۔۔ رہے نام خدا کا۔
(ساس محترمہ کی رحلت پر لکھی گئی ایک خود نوشت ۔التماسِ دعا)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply