بخت گزیدہ(1)۔۔شاہین کمال

ایک لات نے مجھے منجی سے نیچے ہی نہیں گرایا بلکہ سوہنے خوابوں کی دنیا سے کریہہ حقیقی دنیا میں لا پھینکا۔ میں جلدی سے اپنی پیٹھ سہلاتا اور لنگڑاتا ہوا اپنی بوری اٹھا کر گھر سے بھاگ نکلا۔ روٹی تو ویسے بھی ملنی نہیں تھی کیا فائدہ تھا خالی پیٹ گالی سننے کا۔ میں گھر سے تھوڑی دور جا کر نالی پر بیٹھ کر فارغ ہوا۔ کل دن سے خالی پیٹ عجیب عجیب آوازیں نکال رہا تھا۔
کالی میا کی کوشش ہوتی تھی کہ ابا کے اٹھنے سے پہلے ہی مجھے گھر سے نکال دے۔ وہ تو مجھے لات بھی منہ ڈھک کر مارتی تھی تا کہ میری نیستی شکل دیکھ کر اس کا دن نہ منحوس گزرے۔
ابا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ مجھے کھانا ملتا ہے یا نہیں کیونکہ ابا نے تو اپنی دانست میں اماں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی دفنا دیا تھا۔ اب اس بھری دنیا میں میری واحد ہمدرد اماں کی سہیلی ماسی تاجاں تھی جو اگلی گلی کی چوتھی کھولی میں رہتی تھی۔

ماسی تاجاں کی کھولی پہ رک کر میں نے ٹاٹ کے بوسیدہ جھولتے پردے کے ادھر سے ڈرتے ڈرتے آواز لگائی “سلام ماسی” ۔
دل میں دعا یہی تھی کہ چاچا کبڑا آنگن میں نہ ہو ورنہ تو روٹی کے ساتھ گالی اور ٹھڈے بھی لازمی تھے۔ آواز سنتے ہی ماسی نے جلدی سے ایک روٹی پر چٹکی بھر کھانڈ چھڑک کر مجھے پکڑا دی اور ساتھ ہی ہشکارا بھی دیا۔ وہ بیچاری بھی کیا کرے، کبڑا چچا دیکھ لیتا تو اس بھی شامت آ جاتی۔

اب سے چھ مہینے پہلے تک میرے یہ دن رات نہ تھے۔ میں اسکول بھی جاتا تھا اور موٹا جھوٹا ہی سہی تین وقت کھانا بھی کھاتا تھا۔ لاڈ اٹھانے کو اماں بھی تھی۔
ابا کو اللہ جانے مجھ سے اور اماں سے کاہے کی خنس تھی۔ گالی اور جوتے کے علاوہ بات ہی نہیں کرتا تھا۔ اماں میری دبلی پتلی پیلے رنگ کی مدقوق سی عورت تھی، جس کے چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔ دنیا کے لیے اس کی شکل جیسی بھی ہو میری تو ماں تھی، جنت تھی۔ اس نے اپنی ساری توانائی
اور جوانی ابا کی خدمت اور اس کے گھر کو سنوارنے پر وار دی تھی۔ وقت سے پہلے ہی پرچھائی ہو گئی اور بدلے میں حقدار ٹھہری تھی گالی اور لات کی۔ کیا گھور اندھیرے جیسی قسمت پائی تھی اماں نے بھی۔

ابا کباڑیا تھا اور اچھا کماتا تھا۔ گھر میں اس کا کھانا الگ پکتا تھا، وہ ہفتے میں دو دن گوشت کھاتا تھا۔ ایک دن مرغی اور ایک دن چھوٹے کا گوشت۔ اماں اور میں روکھی سوکھی کھاتے تھے۔ روٹی کبھی تو سبزی یا کبھی اچار کے ساتھ ہوتی پر کھاتے پیٹ بھر کر تھے ۔ اماں سے میں نے کئی بار پوچھا کہ ابا آخر اتنا غصہ کیوں کرتا ہے مگر اماں بس آنکھیں پونچھ کے رہ جاتی۔ ہمارے گھر کبھی کوئی نہیں آیا گیا۔ نہ کوئی ابا کا رشتہ دار اور نہ ہی کبھی کوئی اماں کا پرسان حال۔ مجھے اماں کا پیار میسر تھا دوست کے نام پر ماسی تاجاں کا بیٹا فیضو تھا اور کیا چاہیے ہوتا ہے زندگی کرنے کے لئے۔
ابا کا غصہ، گالی گلوچ اور اس کا اماں کو مارنا میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ ابا کے خلاف میرے دل میں نفرت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ خاص کر جب وہ اماں کو مارتا تھا تو میرا دل چاہتا تھا کہ ایک بھاری پتھر اٹھا کر اس کا سر کچل دوں۔

کبھی کبھی تو میں باوجود اپنی ناتواں جان سے اماں کو بچانے کی بھرپور کوشش بھی کرتا اور اماں کے لیے اس ہمدردی کی  پاداش  میں ابا سے چار چوٹ کی مار کھاتا، بعد میں اماں روتی جاتی اور میری چوٹوں کی سکائی کرتی جاتی۔ ابا نشہ بھی کرتا تھا۔ میں دل ہی دل میں دعا کرتا تھا کہ ابا کام کے لئے نکلے تو کسی ٹرک کے نیچے آ جائے۔

ایک دن ابا اماں کو مار پیٹ کر بکتا جھکتا گھر سے نکل گیا تو میں نے اماں کو سہارا دے کر پلنگ پر بیٹھایا اور اسکو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے یہی ٹرک والی بات دہرا دی۔ اماں کو تو مانو بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ اس برے حالوں میں بھی اس نے مجھے تین چار مکے جڑ دیئے اور تین دن تک مجھ سے ناراض رہی۔ ابا تو خیر سمجھ میں آتا ہی نہ تھا پر اماں کا بھی کیا بولوں، اسی سے پٹتی تھی اور اسی کے جینے کی دعا مانگتی تھی۔
ماں بھی میری کوئی وکھری ٹیئپ تھی۔

جاتی سردیوں کے دن تھے میں اسکول سے آیا تو جی ماندہ تھا۔ کھانا بھی نہیں کھایا اور سو گیا۔
شام میں اٹھا تو اماں بےکل تھی۔ جب تک مجھے کھانا نہیں کھلا لیا اس کو قرار نہ آیا۔ ابھی میں رکابی رکھ کر صحن میں لگے ہینڈ پمپ پہ منہ دھو ہی رہا تھا کہ ابا اندر داخل ہوا، تیور بہت ہی بگڑے ہوئے تھے۔ میں تو جلدی سے اندر کوٹھڑی میں دبک گیا۔ اماں نے دسترخوان بچھایا اور کھانا لگا دیا۔
آج کھانے میں چھوٹا گوشت تھا۔ ابا نے پہلا نوالہ ہی منہ میں  رکھا اور لگا کہ اس کو جن چمٹ گئے ہیں۔ رکابی دیوار پر دے ماری اور اٹھ کے اماں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ پھر اماں کو زور سے دھکا دیا اماں صحن میں لگے ہینڈ پمپ سے ٹکرائی اور وہیں ساکت ہو گئی ۔ میں اماں اماں چیختا ہوا اماں کی طرف لپکا تو مگر شاید راستے میں ہی چکرا کے گر گیا۔
مجھے ہوش آیا تو ماسی تاجاں میرے سر پر گیلی پٹی رکھ رہی تھی۔ میں نے روتے ہوئے اماں کو پکارنا شروع کر دیا تو ماسی مجھے گلے لگا کر رو پڑی اور بولی جھلیا ماں اب بہت سکون سے ہے تو اس کو رو رو کر پریشان نہ کر۔ میرے آنسو وہیں جم گئے۔
مگر نہیں وہ جمے کہاں ؟
وہ تو اندر گرنا شروع ہو گئے اور پھر کبھی رکے ہی نہیں۔ میرا اندرو اندر جھل تھل ہے۔

ماسی بتاتی ہے کہ میرے تین دن اسی ہوش و بے ہوشی میں گزر گئے۔ ابا سے کسی نے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی۔ نہ  کسی نے تھانے میں رپورٹ  لکھوائی اور نہ ہی پولیس آئی۔ اماں مرن جو گی جیسے خاموشی سے جیتی تھی ویسے ہی چپتے چپاتے حیاتی بھی ہار گئ۔ نہ کوئی رولا نہ واویلا۔

ابا اماں کو دفنا کے، ماسی کے ہاتھوں پر میرے لئے چند روپے رکھ کر گاؤں روانہ ہو گیا۔ ماسی نے مجھے بتایا کہ ابا صادقہ آباد سے آگے ایک گاؤں ہے شمیم آباد ہے، وہاں کا رہائشی تھا اور وہیں سے کراچی آیا تھا۔ اماں ابا کی ماموں زاد بہن تھی۔ ماموں نے مرتے وقت اپنی دھی رانی کا ہاتھ بہن کے ہاتھوں میں دے دیا اور ساتھ ہی زمین کا ایک چھوٹا سا زرخیز ٹکڑا بھی۔ ابا اس قطعہ زمین سے تو خوب فیض یاب ہوا پر والی ِزمین کو مٹی ہی میں رول دیا۔ ماسی نے بتایا کہ ابا اماں سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اماں بہت دبلی پتلی تھی۔ کم صورت تھی اور ابا گاؤں کی ایک مٹیاری پر دل ہارے بیٹھا تھا اور دونوں کے درمیان قول و قرار بھی ہو چکے تھے پر دادی نے سیاپا ہی پا دیا۔ دادی کے زور زبردستی سے زیادہ زور آور اور پرکشش وہ زمین کا زرخیز ٹکڑا تھا جس نے وقتی طور پر ہی سہی مگر مٹیارن کو کنارے لگا دیا تھا۔ اس زر اور زن کے تول میں زر اپنا سنہرا پھریرا لہراتا ہوا جیت گیا تھا۔
وہ زرخیز زمین کا ٹکڑا اماں کی خوشیاں اور ساری شادابی نگل گیا۔ اماں کے جزبات کے لیے وہ ٹکڑا ہمشہ شور زدہ زمین ہی رہا۔ ناکارہ اور بےفیضا۔

ابا کی بےوفائی پر مٹیارن بھی طیش میں آ گئی اور اگلے ہی ہفتے اس نے چودھری کے منہ چڑھے ملازم شیرا سے بیاہ رچا لیا۔ ان حالات میں ابا کے لئے گاؤں میں رہنا دوبھر ہو گیا سو اس نے سب کچھ بیچ باچ کر شہر کی شاہراہ پکڑی۔ شہر تو شہر صوبہ ہی چھوڑ کر کراچی پہنچ گیا۔ فیوچر کالونی میں کھولی کرائے پر لی اور ٹین ڈبوں کی ریڑھی لے کر نئے سرے سے زندگی شروع کی۔
طبیعت کا غصہ تھا یا جانے کیا؟

نہ دن کو دن سمجھا اور نہ رات کو رات، بس محنت اور کام ہی اس کا دین اور ایمان بن گئے تھے۔ دو سال کے اندر اندر اپنی دکان پھر اگلے چند سالوں میں اپنی کھولی بھی بنا لی۔ پر مزاج کی کڑواہٹ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی گئی۔ اماں کو دیکھ کر اس کو غصہ چڑھتا تھا۔ میرا وجود بھی اس کے جہنم کی تپش کو سرد نہیں کر سکا۔ اس نے مجھے کبھی اپنایا ہی نہیں، مجھے بھی اماں کے کھاتے میں شامل کرکے اپنی نفرت کا حدف بنا لیا۔ اسی زہر آلود ماحول میں میں نو سال کا ہو گیا تھا ۔

اب میرے بالکل سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اماں کے بغیر زندگی کا رنگ ڈھنگ کیا ہو گا؟
زندگی کیسے بسر ہوگی؟
میں ماسی اور فیضو کے ساتھ اماں کی قبر سے ہو آیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ واپس آنے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ میرا جی کر رہا تھا کہ وہیں اماں کے پئتانے کوئی مجھے بھی مٹی میں دبا دے اور میں سکون کی میٹھی نیند سو جاوں۔ زندگی کا بوجھ میری بساط اور برداشت سے بہت زیادہ تھا۔

ابا کو گئے آج چھٹا دن تھا۔ اب کبڑے چچا نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ سہ پہر کا وقت تھا، ابھی عصر کی اذانیں شروع نہیں ہوئیں تھیں ۔ ماسی تاجاں منجی پر سوکھنے کے لئے ڈالے ہوئے پاپڑ سمیٹ رہی تھی کہ فیضو آندھی کا بگولا بنا گھر میں داخل ہوا اور چیخ کر بولا
” تیرا ابا ابھی ابھی پہنچا ہے اور اس کے ساتھ تیری کالی میا بھی ہے۔”
میرا رنگ پیلا پڑ گیا اور میں پورے جسم سے کانپنے لگا۔ مجھے ماسی نے بتایا تھا کہ مٹیارن کا خصم چوہدری کے مخالفین کے ہاتھوں پچھلے برس بسنت میلے میں مارا گیا ہے۔ تب سے ابا کا گاؤں کا پھیرا بہت بڑھ گیا تھا۔ اور اب ابا اس کالی ماتا کو  لے آیا تھا گویا میری قربانی پکی تھی۔ اس رات تو نہیں پر اگلے دن صبح سویرے ماسی تاجاں مجھے میرے گھر پہنچا گئ۔ ابا نے مجھے سر سے پیر تک گھورا اور کہا کہ
“بندے دا پتر بن کر رہئں” ۔

کالی میا صرف گھورتی رہی۔ دوپہر اور رات کو روٹی بھی دی۔ ابا آج کام پر نہیں گیا تھا۔ دوسری صبح سویرے سویرے کالی میا نے منجی کو لات مار کر مجھے جگایا اور بورا پکڑا تے ہوئے کہا کہ یہاں مفت کی روٹی نہیں ملتی۔ بھوسی ٹکڑ چن کر لا پھر روٹی حلال کر۔

پھر میری زندگی اسی مشقت بھری ڈگر پر چل پڑی، اماں کا لاڈلا جس کو اماں لال صابن سے مل مل کے نہلاتی تھی، ہر دوسرے دن جس کو یونیفارم دھو کے پہناتی تھی وہ اب پہچان میں نہ آتا تھا۔ موٹا تو میں کبھی نہ تھا پر اب پوری 206 ہڈیاں گن لو۔ پچھلے ہفتے جب چاچا کبڑا گھر پر نہیں تھا تو ماسی تاجاں نے مجھے اپنی کھولی میں بلا کر نہانے کہا اور میرے غلیظ کپڑے دھوئے۔

ابا کسی کام سے دوسرے شہر گیا ہوا تھا، میری آنکھ سویر کھل گئی تھی۔ میں گھر سے بوری لیکر نکل ہی رہا تھا کہ میری شامت نے مجھے آواز دی اور میں دبے پاؤں باورچی خانے میں گھس گیا۔ چنگیر سے روٹی اٹھا کر پلٹا ہی تھا کے کالی میا کو دروازے پر کمر پر ہاتھ رکھے کھڑا پایا۔ اس کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک تھی جیسے اسے اسی موقعے کا انتظار ہو۔ بس پھر کیا تھا اس نے بے تحاشا اپنے ہاتھوں اور ٹھڈوں کا استعمال کیا پر میری دلخراش چیخوں کے جواب میں کوئی نہ آیا ۔ کون آتا محلے والے اب اس شور شرابے کے عادی ہو چکے تھے۔ یوں بھی ایک لاوارث بچے سے کس کو ہمدردی ہونی تھی۔
پھر اس نے میرے دونوں ہاتھوں کو صحن میں پڑی منجی کے پائے سے باندھ دیا اور کہا آنے دے اپنے باپ کو تیری ہڈیوں کا سرمہ نہ بنوایا تو میرا نام نہیں۔ پھر میں تیرا کلیجہ بھون کے کھا جا ؤں گی۔ کالی میا بڑی سچی تھی جو کہتی تھی وہ کرتی بھی تھی۔ اماں کی طرح جھوٹی نہیں کہ میری شرارت پر مجھے دھمکائے مگر میرے ایک ہی آنسو پر ساری ڈانٹ بھول کر میرے واری صدقے جانے لگے۔

اماں اب اتنی بےمروت ہو گئی  تھی کہ میری ہزار آہوں اور سسکیوں پر بھی نہیں آتی تھی، میرے بھوکے پیٹ کی گڑگڑاہٹ بھی اس کو بلانے میں ناکام رہی تھی۔ بس کبھی کبھار راتوں میں خالی پیٹ سوتے ہوئے ایک سائیہ سا سرسراتا محسوس ہوتا تھا۔

مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا، مجھے یقین تھا کہ ابا مجھے نہیں چھوڑے گا۔ روتے روتے میرا گلہ بیٹھ چکا تھا۔ گرمی کی شدت سے میری چندیا پگھل رہی تھی اور پیاس سے دم حلق میں تھا۔ گرمی کی شدت سے گھبرا کر کالی میا کوٹھری کے اندر پڑی تھی۔ دیوار سے فیضو نے جھانکا۔ پھر وہ دبے پاؤں صحن میں کودا اور میرے ہاتھوں کو آزاد کر دیا۔ وہ تیزی سے بیرونی دروازے کی طرف لپکا، میں بھی اپنے مضروب جسم کو گھسیٹتا اپنی پوری جان لگا کر صحن پار کر گیا۔ تھوڑی دور بھاگ کر میں بے دم ہو کر گر گیا۔ فیضو مجھے دیوار کی آڑ میں بیٹھا
کر گھر سے کچھ کھانے پینے کو لانے دوڑ گیا۔
فیضو نے مجھے پانی پلایا اور روٹی کو بھی پانی میں بھگو بھگو کر میرے منہ میں ڈالتا چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ماسی تاجاں گرم ہلدی والا دودھ لیکر آئی۔ دودھ پی کر میری جان میں جان آئی۔ ماسی کے پاس ایک جھولا تھا۔ ماسی نے وہ جھولا مجھے پکڑا یا اور کہا پتر تو بھاگ جا، تو عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دے اور وہیں رہ جائیں اب لوٹ کر نہ آئیں،
یہ ڈائن تجھے نہیں چھوڑے گی۔
جا شاباش ہے پترا بھاگ۔

ماسی نے مجھے کچھ مڑے تڑے نوٹ پکڑائے، میں فیضو کے گلے لگا ماسی نے سر پر پیار کیا اور میں لنگڑاتا ہوا اسٹاپ کی طرف چل پڑا۔ بس اسٹاپ تک مجھے پر ابا کی دہشت سوار تھی کہ کہیں وہ نہ آ جائے اور میں پکڑا جاؤں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مغرب کے قریب میں درگاہ پر پہنچا، وہاں کھوا سے کھوا چھل رہا تھا۔ بے پناہ رش تھا، میں نے اتنی روشنی اور اتنے لوگ اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے۔ میں سیڑھیوں کی پاس ایک کنارے
سکڑ سمٹ کر بیٹھ گیا۔ رات گہری ہوئی تو مزار سے رش چھٹنے لگا۔ میرے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا کروں۔ مارے دہشت کے مجھے بھوک بھی نہیں لگ رہی تھی۔ اتنے میں لڑکوں کا ایک غول میری طرف بڑھا اور ایک لڑکے نے میرا تھیلا اچک لیا۔ میں بےساختہ اپنے سر کو بچاتے ہوئے زمین پر گر کر چیخ چیخ کر رونے لگا،
کبھی اماں کو کبھی اللہ کو پکارنے لگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply