ٹیکنالوجیکل والدین اور ڈیجیٹل بچے۔۔تنویر سجیل

دنیا کی سب سے مشکل جاب والدین کی ہوتی ہے یہ جاب ہفتے کے سات دن و چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہے  اور فرصت لمحہ بھر کی نہیں ملتی ۔ والدین کو اپنے نونہالوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کی بڑھتی عمر  کے مطابق ان کی جسمانی ، جذباتی اور نفسیاتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے پرورش اور تربیت کے انداز کو بدلنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ بچے   عمر کے کسی درجے میں  کسی قسم کی محرومی کا شکار نہ ہوں  اور پرورش کے تمام مراحل خوش اسلوبی سے طے پا سکیں۔

پہلے وقتوں میں والدین کے پاس وافر وقت ہوتا تھا جو وہ اپنے بچوں کے ساتھ گزار تے تھے   مگر جوں جوں انسان نے ترقی کے گھوڑے کی رفتار تیز کی توں توں والدین کی مصروفیت کا دائرہ بڑھتا  گیا اب صورتحال اس مضحکہ خیز صورت میں داخل ہو چکی ہے کہ ترقی کی جانب بڑھتی انسانی دلچسپی نے ایسے ایسے سامان پیدا کر لیے ہیں کہ جن کو استعمال میں  لانے کا اول مقصد تو وقت کی بچت کرنا تھا اور مصروفیت کے ناگ کو ڈسنے سے روکنا تھا  مگر ایسا ممکن نہیں رہا۔ ٹیکنالوجی کی اس ریس نے ایسا بھونچال ڈال رکھا ہے بمشکل  ہی کوئی   ایسا فرد  ہو گا  جو خود کو بھاری فرصت کے ساتھ دستیاب ہو گا ورنہ تو  ہر فرد نے  بے جا مصروفیت کے ایسے دھندے ڈھونڈ لیے ہیں کہ وہ ریئل ورلڈ کو خیرباد کہہ کر ورچول ورلڈ کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا ہے۔ورچول ورلڈ کی اس چکا چوند سے شائد ہی کوئی بندہ بشر نابینا نہ ہو ا ہو کیونکہ ورچول ورلڈ کے گورکھ دھندے کا جو سواد ہے وہ دماغ کو ایسی لذت آفرینی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ اس لذت سے دستبردار ہونا ہی نہیں چا ہتا۔

ٹیکنالوجی کی گود میں پلتا ڈیجیٹل  ورلڈ کا یہ نمونہ جس کو سوشل میڈیا  جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے اتنا دلفریب ہے کہ اس کے بغیر فرد اپنی زندگی کو  مکمل ہی نہیں سمجھتا اور لا چارگی کے ایسے  مقام پر ہے کہ اس کی غیر موجودگی احساس کمتری کے احساس سے ذہن کو سلگاتی رہتی ہے ۔

آج کا نوجوان کچھ ایسی ہی صورتحال سے دو چار ہے کہ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ ورچول ورلڈ کی رنگینی زندگی کو رنگین بناتی ہے یا رئیل ورلڈ کے تعلقات میں بکھرے احساسات  وجذبات زندگی کی خوشی کا سبب ہیں یہی جوان جب شادی  کے بندھن میں بندھتے ہیں اور ماں باپ بنتے ہیں  تو ان کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لیے وقت کم اور سکرین ٹائم زیادہ ہوتا ہے بے خبری کے شکار یہ  والدین  جب اپنے بچو ں کو گود میں کھیلانے کی بجائے سکرین یا  موبائل  سے بہلانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں  کہ بچے کی اصل دنیا رئیل ورلڈ ہے جو ان کے بولنے کی صلاحیت کے لیے زیادہ ضروری ہے والدین کی علمی کمی اور خود کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کی اس کوشش میں جب بچے بار بار سکرین سے جڑتے ہیں  تو  ایسے بچے جسمانی، ذہنی ، جذباتی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگتے ہیں جس کا اظہار بچے کے برے رویے،  مزاج کے اکھڑپن، غصے کے دوروں اور دوسری مشکلات سے ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ سکرین ٹائم بچوں کی اصل گروتھ اور ڈیویلپمنٹ کا ٹائم نگل لیتا ہے اور بچوں کو ایسی معذوری کی طرف لے جاتا ہے جو رئیل ورلڈ میں ان کی ناکامی کا سبب بنتا ہے ۔

بھلا ہو سائنسی  تحقیقات کا کہ وہ مکمل دیانت داری سے سکرین ٹائم کے عادی بچوں پر مسلسل تحقیقات کر کے ہم کو علمی روشنی کی راہ دکھاتی رہتی ہیں  کہ کیسے سکرین ٹائم بچوں کی مائنڈ گروتھ،  پرسنیلٹی ڈیویلپمنٹ ، اور سوشلائزیشن کو بری طرح متاثر کر رہی ہے  جسکا براہ راست  اثر  بچے کی لینگویج ڈیویلپمنٹ ،  سمجھ بوجھ کی صلاحیت ، لوگوں سے میل جول کی اہلیت ، سیلف کانسیپٹ کے عمل اور دوسرے  اہم  ڈیویلپمنٹل پراسز پر منفی  ہوتا ہے  ۔ بچہ باوجود ایک پرکشش شخصیت کے اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہوتا ہے  اسکے پاس ایسی کوئی اہلیت باقی نہیں رہتی جس کے بدولت وہ اپنے تعلیمی کیرئیر کو انجوائے کر سکے اور اپنے مستقبل کی شاندار پلاننگ کر سکے ۔

کیونکہ سکرین ٹائم کے  دماغ پر پڑھنے والے اثرات اتنے خطرناک ہیں کہ اس کو ڈیجیٹل ہیروئین کا نام دیا جاتا ہے  اور کوئی بھی ہیروئین زدہ دماغ اتنا قابل نہیں ہوتا کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ اس کی زندگی کی کامیابی اور خوشی کن صلاحیتوں سے وابسطہ ہے کیونکہ ان صلا حیتوں کو ڈیجیٹل ہیروئین کبھی ڈیویلپ  ہونے ہی نہیں دیتی اور آکر کار قدرت کا انسٹال کیا گیا بہترین شاہکار یعنی دماغ اک ایسی نیند سو جاتا ہے جو کبھی جاگ ہی نہیں پاتا۔

والدین کے بچوں کےلیے سکرین ٹائم کے بڑھتے ہوئے یہ رجحانات اور حیلہ سازی بچے کی زندگی کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے چہ جائیکہ بچے کے ساتھ رئیل ورلڈ میں  کوالٹی  ٹائم گزرانے کے جب والدین  غیر ضروری حد تک ان کو سکرین سے بہلانے اور پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو والدین کا اپنی  ذمہ داری  سے یہ فرار بچے کی پرورش میں ایسے خلاء پیداکرتا ہے جس کو بچہ زندگی بھر نہیں بھر پاتا ۔

آجکل والدین کی اکثریت  ایسی بھی دیکھنے میں آرہی ہے جو بچوں کو سکرین پر اسلامی، اصلاحی اور دینی مواد کو  دیکھنے کے لیے ان کا سکرین ٹائم بڑھا دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بچوں کی پرورش اسلامی خطوط پر   کرنے کی کوشش کر رہے ہیں نہ کہ وہ بچوں کو کارٹون ، میوزک ، گیمز یا ویڈیوز سے لطف اندوز ہونے دے رہے  ہیں۔

جبکہ یہ ا یک دلچسپ قسم کا وہم  ہے جس کو صرف  والدین کی اپنی ذمہ داری سے فرار حاصل کرنے کا بہانہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا جو کہ اسلا م  یا دین کی آڑٖ میں ایسے رویے اور رجحانات کو فرغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دینی مواد دیکھنے سے بچے پر ڈیجیٹل ہیروئین کے اثرات کم ہوں گے ۔ درحقیقت یہ ایک کھلا دھوکہ ہے جو والدین اپنے بچوں کو دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ سکرین ٹائم چاہے جیسے بھی مواد سے لبریز ہو اس کا بچے کی  مائنڈ  ڈیویلپمنٹ پر وہی اثر ہو گا جو سائنسی تحقیقات نے ثابت کر  دیا  ہوا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اگر  ایسے والدین علمی دریافت کو ٹھکر اکر  صرف اپنی  لا علمی  والی سوچ کو ہی ترجیح دیتے ہوئے اپنے بچوں  کو سکرین ٹائم کی دلدل میں دھکیلنے پر بضد ہیں تو یہ ان کی  اپنے بچوں کی بہترین گروتھ سے نا انصافی ہی سمجھی جا سکتی ہے ورنہ تو اس حقیقت کو جھٹلانا ایسے ہی جیسے  کبوتر  بلی کو دیکھ کر آنکھ بند کرنے کا ڈرامہ کر کے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply