روداد سفر /ولی اللہ کو کیسے پہچانیں ؟۔۔قسط 40/شاکر ظہیر

کوئٹہ سے کراچی پی آئی اے کی فلائٹ لی ۔ پتھروں کے کچھ سیمپلز مزید سٹڈی کےلیے ساتھ تھے جس کی وجہ سے ائیرپورٹ پر کسٹم والوں نے کچھ دیر روکا پھر خود ہی جانے دیا ۔ کراچی میں سردار سعادت صاحب نے ایک بنگلہ کرائے پر لیا تھا جہاں جاتے ہوئے بھی ہم رُکے تھے اور اب واپسی پر بھی اسی بنگلے میں پہنچ گئے ۔ میں نے کراچی میں چائنیز consulate سے اپنے شادی کارڈ پر ویزہ اپلائی کیا اور پاسپورٹ جمع کروا دیا جو دو دن بعد ویزہ لگ کے واپس مل گیا ۔ ہمارے ساتھ گروپ کے کچھ لوگ حب انڈسٹریل اسٹیٹ کے ورث کےلیے مسٹر وانگ کے ساتھ چلے گئے ۔ جہاں بقول مسٹر وانگ کے ان کی چاغی کی مائننگ سے نکالا کویٹہ گرین اونیکس ماربل آیا ہے جس کی بڑے کٹر پر کٹائی کروا کر چائنا بھیجنا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ماربل کے بنے ہاتھی گھوڑے لینے چلے گئے ۔ گرین اونیکس کے بنے چائینز کو ایسے ڈیکوریشن پیسز بہت پسند ہیں کیونکہ اس کا لائٹ گرین کلر چائنیز کے مقدس پتھر سے ملتا جلتا ہے ۔

وزٹ کے حوالے سے مسٹر چھن کا رویہ مجھے کچھ عجیب محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اس وزٹ سے کلی طور پر مطمئن نہیں یا جیسی ان کی توقعات تھیں ویسا نہیں پایا ۔ ان کے تصور میں شاید یہ تھا کہ وہ لیز کی گئی جگہ پر جائیں گے اور وہاں پر پتھر بکھرے ہوں گے جن کو توڑنے سے کاپر اور گولڈ نکل آئے گا ۔ یا یہ تصور تھا کہ مکمل سروے کا کام ہو چکا ہے اور ڈیٹا بھی مکمل موجود ہے اب صرف مشینری منگوا کر مائننگ شروع کرنی ہے ۔ لیکن حقائق کی دنیا میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا سوائے کچھ نقشوں کے جو بلوچستان مائننگ ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کئے گئے تھے ۔ بہرحال یہ ایک لمبی کہانی تھی مسٹر چھن نے بات نہیں چھیڑی تو میں بھی خاموش رہا اور واپسی کا انتظار کرتا رہا ۔

دو دن بعد ہماری فلائٹ تھی ۔ کسٹم اور امیگریشن کراس کر کے جہاز میں بیٹھ گئے ۔ فلائٹ میں اتفاقاً کراچی کے یاسین بھائی سے بھی سامنا ہو گیا جو اسی چائنا ائیر لائن کی فلائٹ سے چھندو (Chengdu) اور پھر وہاں سے ہانزو ( Hangzhou ) جا رہے تھے ۔ یاسین بھائی سے پہلے ایک مرتبہ ایوو میں ایک ریسٹورنٹ میں ملاقات ہوئی تھی ۔ ریڈی میڈ گارمنٹس کےلیے کپڑا چائنا سے کراچی لے کر جاتے تھے ۔ بہت نرم طبیعت کے مالک تھے اور کھری کاروباری شخصیت ۔ ان کے ساتھ ہی ایک کچھ بڑی عمر کے باریش اور ہاتھ میں تسبیح اور جیب میں مسواک لیے محترم باسط صاحب تھے جن سے میری پہلی ملاقات تھی ۔ ان کا تعارف بھی یاسین بھائی نے کروایا کہ یہ بھی کام کے سلسلے میں ساتھ ہانزو ( Hangzhou ) جا رہے ہیں ۔ ان سے گپ شپ شروع ہوئی اور میں نے بتایا کہ میں ان چائنیز کے ساتھ بلوچستان گیا تھا ۔ ویسے ہی باتوں باتوں میں مَیں نے بتایا کہ ظہر اور عصر کی نماز میں نے کراچی ائیرپورٹ ہی پر اکٹھی پڑھ لی تھی کیونکہ چائنا اور پاکستان کے وقت میں تین گھنٹے کا فرق ہے اس لیے شاید ہم مغرب کے وقت وہاں پہنچیں ۔ یاسین بھائی نے کہا کہ وہ ظہر پڑھ چکے ہیں عصر راستے میں ہی ادا کر لیں گے وہ وضو کر لیں گے اور باسط صاحب تو باوضو رہتے ہیں ۔

باسط صاحب نے بتایا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر وقت باوضو رہیں اور وہ زیادہ وقت ذکر میں مشغول رہتے ہیں جس سے وہ ذہنی سکون محسوس کرتے ہیں ۔ پہلے وہ بہت ہی لاپرواہ اور دنیا دار سے تھے ہر وقت کام میں مگن رہتے تھے اور کبھی مذہب پر توجہ ہی نہیں دی لیکن ذہنی سکون سے بہت دور تھے ۔ پھر ایک دن ایک دوست کے ساتھ نقشبندی بزرگ کے پاس گئے اور ان کی محبت بھری باتیں سن کر وہاں سے بیعت ہو گئے اب عرصہ بیس سال سے انہی کے ساتھ منسلک ہیں ۔ میں تصوف میں ذکر جہریہ اور ذکر خفی کے عقائد کے اختلاف کے بارے میں جاننا چاہتا تھا کیونکہ چائنا میں میرے سسرالی علاقے کے اردگرد میرا اور میری بیوی کا واسطہ انہی دونوں سے پڑ رہا تھا ۔ ایوو شہر میں رہنے والے مسلمان بھی انہی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ اور دوسرے تبلیغی جماعت بھی انہی کی شاخ تھی ، صرف ایک نیا رنگ روپ لیے ہوئے تھی ۔

یہ سوال لے کر میں اپنے علاقے کی خانقاہ میں بھی گیا لیکن کوئی تفصیل , کوئی علمی بات ان کے پاس بھی نہیں تھی وہ بھی صرف دین آباء ہی کے طور پر اسے اپنائے ہوئے تھے ۔ میں اس خانقاہ میں بزرگوں سے عقائد کا اختلاف پوچھتا وہ مجھے کراماتیں سنانے لگ جاتے تھے ۔ دوسرے تبلیغی تو میرے اپنے گھر میں تھے لیکن ان کے سیل کمزور تھے ان سے سوال کچھ پوچھو ان کے جواب میں وہی رٹی رٹائی تقریر ہی ہوتی کہ سب کچھ اللہ سے ہوتا ہے ، یعنی سب کچھ اللہ نے کرنا ہے بقول ان کے ہم مجبور محض ہیں ہمیں صرف کھانے اور فضلہ کرنے کےلیے بھیجا گیا ہے۔

ذکر جہری اور ذکر خفی کے اختلاف کے علاوہ بنیادی طور پر تصوف کے کچھ دعوے بھی میرے لیے الجھن پیدا کیے ہوئے تھے اور بہت سی باتیں تو اسلامی تصوف اور بدھ تصوف ، کنفیوشس تصوف میں مجھے مشترک بھی محسوس ہو رہی تھیں ۔ جیسے وہ بھی پانی پر چل رہے تھے اور بادلوں میں اڑ رہے تھے اور یہ بھی ۔ وہ بھی مدد کےلیے ارواح کو پکارتے اور ہمارے تصوف والے بھی مدد کےلیے اپنی بزرگوں کی ارواح کو پکارتے جیسے المدد یا خواجہ خواجگان ، کہ جنہیں مرے ہوئے بھی صدیاں گزر گئیں ۔ ان کا خدا بھی اس دنیا کو بنا کر ایک طرف لاتعلق ہو کر بیٹھ گیا اور پھر اس دنیا کے امور چھوٹے چھوٹے دیوی دیوتا چلا رہے ہیں ، ہمارے اسلامی تصوف میں بھی یہ امور خدا قطب , ابدالوں کے حوالے کر کے ایک سائیڈ پر ہو گیا جیسے ہندو ازم کا برہما ۔ انہیں بھی غائب سے آوازیں آ رہی تھیں اور ہمارے بختیار کاکی کو بھی کوئی غائب سے آوازیں دے رہا تھا یا وہ غائب سے آوازیں سن رہے تھے ۔ فرق کیا اور کہاں تھا ۔ وہ بھی اپنی بات کا سورس ماورائی دنیا کو قرار دے رہے تھے جہاں ان کے بزرگوں کی ارواح تھیں اور یہ ہمارے تصوف والے بھی یہی سورس قرار دے رہے تھے کہ بزرگوں کی شکتیاں ان کی وفات کے بعد ہمارے تصورات سے بھی آگے بڑھ گئیں ۔پہلے جو زندگی میں ان قوتوں کی محدودیت تھی وہ ان کی موت کے بعد لامحدودیت میں تبدیل ہو گئی ۔ ان کےلیے ٹائم اور سپیس بے معنی ہو گئے تھے ۔ اور میں ان باتوں میں مسلمانوں اور باقیوں میں فرق کرنے سے قاصر تھا ۔ اس امید کے ساتھ کہ باسط صاحب الحمداللہ بہت پڑھے لکھے اور سمجھدار معلوم ہوتے ہیں اور عرصہ دراز سے اس سلسلے سے منسلک ہیں تو ان سے کوئی معلومات مل جائیں یا تصوف کے کچھ اور بنیادی سوالوں کے جواب مل جائیں ، میں نے ان سے بات شروع کی ۔

میں نے کہا یعنی آپ تصوف کے سلسلے سے بیعت ہیں ۔ اور آپ کے تصوف میں کچھ نیک ہستیاں بھی ہیں جنہیں قطب ، ابدال وغیرہ کہا جاتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا بالکل ۔

میں نے پوچھا ، قطب اور ابدال کی موجودگی کا پتہ ہمیں کہاں سے چلا ؟ باسط صاحب نے جواب دیا ان ہی بزرگوں سے جن کی کوششوں سے ہم اور آپ مسلمان ہیں ۔ انہوں نے ہی ہمیں اس بات سے مطلع کیا ۔ معین الدین ابن عربی جنہیں دنیا شیخ اکبر کے نام سے جانتی ہے انہوں نے بتایا کہ دنیا کا نظام چلانے کےلیے خدا نے روحانیوں کی جو ٹیم بنائی ہے اس میں قطب سب سے اونچے مقام پر ہے جس کی ماتحتی میں دو ائمہ ، چار اوتار ، سات ابدال ، بارہ نقباء اور آٹھ انجبار ، کام کر رہے ہیں ۔ اسی طرح علی ہجویری نے تین سو اختیار ، چالیس ابدال ، چار اوتار اور تین نقباء کو قطب کی نگرانی میں متحرک بتایا ہے ۔

یعنی ان دونوں بزرگوں کی قائم کی گئی ترتیب اور تعداد میں بھی فرق تھا ۔ میں نے بہت ادب سے سوال کیا کہ ان دونوں حضرات کی معلومات کا ماخذ کیا ہے ؟ کیونکہ یہ تو ماورائی دنیا کی باتیں ہیں جو عام انسان احاطہ علم و عقل میں نہیں آتیں کہ خدا نے کچھ اختیارات واقعی ہی ان ہستیوں کو دے رکھے ہیں ۔ ان معلومات کےلیے تو کسی ماورائی ماخذ کی ضرورت ہے ۔ باسط صاحب نے جواب دیا کہ یہ آپ ان بزرگان پر اعتراض کرنے لگے ہیں یہ تو اسلام کے ستون ہیں ، صاحب کشف و کرامات بزرگ ہیں ، ان کے فرمودات کو اگر دین سے نکال دیا جائے تو باقی کیا رہ جائے گا ۔

ان کی اس بات پر بے ساختہ میری زبان سے نکلا کہ ان بزرگوں کی ان خرافات کو نکال دیں تو جو کچھ باقی بچے گا وہی خدا کا آسان دین ہوگا ۔ میری یہ بات آخری حد تھی اس کے بعد یا لڑائی اور یا بحث کا دروازہ بند ۔

انہوں نے کہا کہ مجھے آپ دہریے لگتے ہیں۔ آپ کا دل بزرگوں کے احترام سے خالی ہے یا آپ وہابی ہیں آپ سے بحث ہی فضول ہے ۔ میں نے بات بگڑتے دیکھ کر کہا دیکھیے اہل اللہ کو غصہ زیب نہیں دیتا ۔ اگر میں دہریہ اور وہابی ہوں تو پیار و محبت سے آپ کی دعوت کا مستحق ہوں ۔ میری بات سے کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے غصہ پر قابو پایا اور فرمانا شروع کیا کہ شبہات کی زمین میں ایمان کا بیج برگ نہیں لاتا ۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا فرماتے ہیں کہ اللہ جب کسی شخص کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کا دل اولیاء اللہ سے پھیر دیتا ہے ۔ مولانا رشید گنگوہی نے بھی لکھا ہے کہ جو لوگ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوتا ، اگر تم ان کی قبریں کھول کر دیکھو گے ان کا رخ قبلہ سے موڑ دیا گیا ۔

اب میں اگر یہ جواب دیتا کہ مولانا رشید گنگوہی کی اس بات کے ثبوت میں کس نے کوئی قبر کھول کر دیکھی ہے کہ مردے کا رخ قبلہ رخ ہی ہے یا پھر گیا ہے ۔ پھر جو لوگ ان اولیاء اللہ کی بڑائی اور کرامات کو نہیں مانتے تو ان اولیاء کو ان نہ ماننے والوں کے ایمان سے خالی ہونے کے ثبوت پیش کر دینے چاہئیں تاکہ کوئی مجھ جیسا گمراہ باقی نہ رہے ۔ اگر میں جوابی یہ باتیں پیش کرتا تو پھر بات چیت کا دروازہ بند ہو جاتا ۔
لیکن صرف ایک سوال تھا جس کا جواب مجھے ہر صورت چاہیے تھا ۔ کیونکہ اس ولی سے واسطہ تو مجھے گلی تک گلی میں پڑ رہا تھا اور ہر کوئی بلا جھجھک یہ دعویٰ لے کر کھڑا تھا ۔

میں نے باسط صاحب سے کہا کہ اولیاء اللہ کی توہین کا میں سوچ بھی نہیں سکتا بھلا اللہ جسے اپنا ولی کہے اس کے خلاف کوئی مسلمان کیسے کوئی بات کر سکتا ہے لیکن یہ تو پتہ چلے کہ ہم جس آدمی کو ولی سمجھے بیٹھے ہیں وہ واقعی ولی اللہ کہلانے کا مستحق ہے ، آخر ولی کی پہچان کیسے ہوگی ۔ کسی کے اپنے کہنے کی کیا اہمیت ہے ۔

باسط صاحب نے کہا کہ ولی کی پہچان کےلیے ولی ہونا ضروری ہے ۔ یعنی ولی ہی ولی کو پہچان سکتا ہے ۔ میں نے کہا لیکن پھر عام لوگوں پر یہ راز کیسے کھلے گا کہ ایک ولی نے دوسرے ولی کے بارے میں جو کچھ کہا وہ درست ہے ۔

باسط صاحب نے جواب دیا اس یقین کےلیے ضروری ہے کہ آپ اولیاء اللہ کی باتوں پر ایمان لائیں یا اس راستے پر چل کر ولایت کے منصب پر سرفراز ہوں ۔ یعنی جب تک میں پچھلوں کی ولایت کا اقرار نہ کروں خود میری اپنی ولایت مستحکم نہیں ہو سکتی ۔ یا جب تک میں پچھلوں کی کرامتوں کو نہ مانوں میری اپنی کرامتوں کے دعوے قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔

میں سوچتا رہا کہ قرآن تو ان لوگوں کو ولی کہتا ہے جو خدا پر ایمان لائے اور جنہوں نے اس کے دین کی سرفرازی کےلیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ۔ انہی کو اللہ کی پارٹی کے لوگ کہا گیا اور بشارت دی گئی کہ ان کےلیے خوف اور غم کا کوئی موقع  نہ ہوگا ۔ یہ اللہ کی پارٹی کے لوگ معروفات کی تلقین کرتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں یہی لوگ اللہ کی پارٹی کے لوگ یا ولی اللہ ہیں اور اس گروہ میں تمام حقیقی مسلمان شامل ہیں ۔ یہ ایک عمومی اصطلاح ہے تمام انبیاء کے سچے پیروکار اس بشارت کے مستحق ہیں ۔ اس کے مقابل میں اللہ کے باغیوں کو شیطان کی پارٹی کے لوگ کہا گیا ۔ جو برائی کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اور فتنہ فساد پیدا کرتے ہیں ۔

یہ تو تھی قرآن کی بات لیکن اس تصوف کی دنیا میں یہ تعریف قابل قبول نہیں بلکہ دعوؤں کا ایک سلسلہ شروع کیا جاتا ہے ۔ اور ان ساری باتوں کا ثبوت کہاں سے آئے گا یہ تو سوائے دعوؤں کے کچھ بھی نہیں لیکن اب اعتراض کرنا یا ان سے سوال کرنا فضول ہی سی بات ہے مرید تو دماغ کی کھڑکی بند کر کے بنتا ہے ، سوال اٹھانے والا کبھی مرید نہیں بنتا اور نہ کوئی پیر اسے مرید بنانے کی خطرناک کوشش کر سکتا ہے ۔

میرے خیال میں یہ بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پھنسی ہوئی تھی یعنی گھما پھرا کر پھر وہی بات کہ اپنا دماغ بند کریں سوال روک دیں اور بس جو کچھ بزرگوں نے کہہ دیا اس پر ایمان لے آئیں ورنہ آپ وہابی اور دہریے ہیں ۔ یعنی یہ ایک الگ جال ہے یہاں یہ ایک بزرگ دوسرے کی کرامتوں کا اقرار کرتا ہے تاکہ دوسرا بھی اس کی کرامت کا اقرار کرے ۔ یعنی ایک کی بات کا گواہ اس جیسا ہی دوسرا ہوگا باہر سے کوئی دلیل نہیں لائی جا سکتی ۔ مطالبہ یہی کہ بس ہماری بات جیسے ہم کہہ رہے ہیں آپ دماغ بند کریں اور جیسا کہا ویسا مان لیں ۔ ایسی مزید کسی بحث سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی جس کےلیے نہ کوئی عقلی دلیل ہو نہ ہی دین کے ماخذ سے کوئی دلیل ۔ میرے سوال تو وہی تھے کہ ان باتوں کا ثبوت کہاں سے آئے گا جو کسی نان مسلم کے سامنے پیش کیا جا سکے یہ سب کچھ سچ ہے ۔

پھر ایسے دعوے   تو کنفیوشس اور تاؤ ازم کے ماننے والوں کے پاس بھی تھے کہ ان کے بزرگوں قطب اوتار کی شکتیاں بھی بے مثال ہیں ۔ یہ ان کے اوتار ابدال اور ہمارے اوتار ابدال میں کیا فرق ہے ۔ سوال تو اور بھی بہت تھے لیکن یہ سب باسط صاحب سے کرنے فضول تھے جن کی ہر بات عقیدت پر بنیاد رکھتی تھی اور اس عقیدت کی علم کی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی علم کی دنیا میں تو ہر دعوے  کو دلائل اور تجربے کی بنیاد پر تولا جاتا ہے ۔ اور اگر میں نے ایسے سوال شروع کیے تو پھر دہریہ ہی کہلاؤں گا ۔ یہ ایک تصوراتی دنیا کی باتیں تھیں جہاں آپ ایک سپر ہومن یا چھوٹا خدا تراشتے ہیں اور پھر اس سے خود کو منسلک کر کے ماورائی دنیا کے اپنے خدشات اور کام اس کے ذمہ لگا دیتے ہیں ۔ کہ بیعت شیخ کے بعد قیامت والے دن شیخ کے ذمے ہے کہ وہ آپ کو جنت میں داخل کروائے کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے ، خدا سے جو جنت کا مالک ہے خصوصی روابط  ہیں ۔ شیخ کی خوشنودی کےلیے آپ نے نقد پیش کرنا ہے اور اس کے بدلے میں شیخ نے مستقبل کےلیے صرف وعدے کرنے اور دلاسے دینے ہیں ۔ آپ کے رزق میں اضافے کے تعویذ دینے ہیں لیکن اپنی ضرورت کےلیے آپ سے نقد رقم لینی ہے ۔ آپ کی بیماری کےلیے درگاہ کی خاک اور اپنے تعویذ کا علاج بتانا ہے اور خود بیمار ہوں تو علاج کےلیے دنیا کے دوسرے کونے میں موجود ڈاکٹر کے پاس بھی پہنچ جانا ہے ۔ یہ سارے دعوے  قبول ہی عقیدت اور بڑے ناموں کے سبب ہوتے ہیں ۔ یعنی ان کی مشہوری ان کے مریدوں نے کی ہوتی ہے وہ یہی کہانیاں ان کی گڈ ول بنتی ہیں ۔

اہم سوال تو یہ ہے کہ جو کچھ میں ایک عام انسان کی حیثیت سے سوچ اور جانچ رہا تھا میرے جیسا ہی انسان جو مرید بن گیا وہ کیوں نہیں سوچتا جانچتا ۔؟

یہ سب کچھ سوچتے سفر کٹ رہا تھا کہ یہاں مرید خود دھوکہ کھانا چاہتے ہیں ، جھوٹی آس امید چاہتے ہیں وہ خود چاہتے ہیں کہ کوئی اس سے نقد لے لے اور اسے صرف مستقبل کے جھوٹے خواب دے دے ۔ مرید ہوتے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو میرے خیال سے حقیقت کی دنیا میں رہنا ہی نہیں چاہتے وہ چاہتے ہی نہیں کہ کوئی انہیں تلخ حقائق بتائے ۔

ویسے یہ انسان جہاں ہر چیز کی حقیقت کی کھوج میں رہتا ہے وہاں اپنے جھوٹے سکون اور اطمینان کےلیے اس حقیقت کی کھوج سے دستبردار ہو جاتا ہے ۔ پھر وہ ہر حال میں خود کو کمزور ہی سمجھتا ہے اور قریب کے مضبوط سہارے تلاش کرتا ہے چاہے وہ سہارے صرف سراب ہی ہوں ۔ خدا جو اتنی بڑی کائنات کا مالک اور منتظم ہے یہ بزرگ اس حقیقی خدا کو کبھی غصیلا اور بہت دور بتا کر مریدوں کو اپنے سے قریب کرتے ہیں ۔ کہ یہ قریب کی فرنچائز خدا نے ان کے حوالے کر دی ہے کہ انسان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات اور ضروریات کو سننے اور پورا کرنے کےلیے اتنی بڑی کائنات کے کاموں میں مصروف خدا کے پاس وقت نہیں ۔ یہیں سے سارے چھوٹے خدا تخلیق ہوتے ہیں اور اسی کی نفی کےلیے خدا کو بتانا پڑا کہ میں شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں کہ اس سے زیادہ قریب کا کوئی تصور نہیں  پایا جاتا ۔

اپنے انہی سوالوں کو پوٹلی میں باندھ دیا جنہیں کوئی شیطانی وسوسے اور کوئی تشکیک کا مرض کہہ کر جواب دینے سے انکار کر دیتا ۔ جہاز چھندو ( Chengdu ) ائیرپورٹ پر اتر رہا تھا جہاں سے میں نے ہائنزو ( Hangzhou ) کی فلائٹ لینی تھی اور مسٹر چھن اور مسٹر وانگ نے چھن شاہ ( Chang sha ) کی ۔ یعنی یہاں سے ہم نے اپنا اپنا راستہ لینا تھا ۔ میری بیٹی میری منتظر تھی اور میں اس کو دیکھ کر سکون حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ہمیں جدا ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا ۔ اور اس ایک مہینے میں میری لاڈلی اور انسپکٹر بیوی کو تقتیش کےلیے فون پر بھی میں کم ہی میسر آیا تھا اس لیے وہ بھی میری منتظر بیٹھی ہو گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply