• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی اور کینیڈین مصنفین کے ادبی روابط۔۔روبینہ فیصل

پاکستانی اور کینیڈین مصنفین کے ادبی روابط۔۔روبینہ فیصل

آج مجھے پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے پچھلے 75 سالوں میں کینیڈا اور پاکستان کے درمیان ادبی روابط پر بات کر نے کے لئے کہا گیا ہے۔ یہاں سب سے بڑا ادبی رابطہ تو خود امیگرنٹ ادیب اور شاعر ہیں۔ ان ہی کی بدولت اردو ادب کینیڈا کی فضاؤں میں پنپ رہا ہے۔نئے ملک میں آباد ہو نے کے باوجود اپنی جڑوں کے ساتھ منسلک رہنے کی خواہش، ایک تخلیق کار کو ہوا میں معلق رکھتی ہے اور وہ دو دنیاؤں کو آپس میں جوڑنے کے لئے خود نجانے کتنی مرتبہ ٹوٹتا ہے۔

کینیڈا نے آزادی 1867میں لی تھی۔ کینیڈا کے اپنے لٹریچر کو نکھرنے میں کوئی سو سال لگ گئے تھے اورکینیڈا کا اپنا انگریزی اور فرانسیسی ادب بھی بیسویں صدی کے نصف اوّل تک عالمی سطح پر قابل اعتنا نہیں سمجھا جا تا تھا۔۔1973ء میں ٹائمس لٹریری سپلیمنٹ، لندن، نے اپنا ایک خاص شمارہ کینیڈا کے ادب کے جائزے پر مشتمل شائع کیا تھا۔ اب یہاں کینیڈا میں ادب میں عالمی سطح کے انعامات پانے والوں کی کثیر تعداد شامل ہے۔ 2013ء کا ادب کا نوبل انعام کینیڈین افسانہ نگار ایلس منرو کو ملا تھا۔

2016 کی مردم شماری کے مطابق، اردو کینیڈا کی 62 غیر سرکاری زبانوں میں نویں نمبر پرہے۔کینیڈا میں اردو کا قصہ نصف صدی سے کچھ اوپر کا ہے۔  اُن کینیڈین مصنفین کو جو اس ملک کی غیر سرکاری زبانوں میں لکھتے ہیں، اور ان میں اردو بھی شامل ہے، انہیں کینیڈین معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو مرکزی دھارے کے کینیڈین مصنفین کو ہے۔ لیکن کثیر الثقافتی کلچر کے اعتبار سے شاید دنیا کا کوئی اورملک اس کی ہمسر ی نہیں کر سکتا ہے۔ 12جولائی 1988ملٹی کلچرلالزم ایکٹ کی منظوری کے بعد کینیڈا کی حکومت تارکین وطن کی وراثتی زبانوں کے تحفظ کے لئے کافی متحرک ہوگئی تھی۔ وفاقی بجٹ سے 6.5ملین غیر سرکاری زبانوں کے فروغ کے لئے مختص کیا گیا۔ اس وقت کینیڈا، باسٹھ غیر سرکاری زبانوں کو پورے کینیڈا میں پڑھانے کے لئے تقریباً دس ملین خرچ کر چکا ہے۔ میگل یو نیورسٹی میں اردو زبان و ثقافت کا شعبہ پاکستان اور کینیڈا کی حکومتوں کے باہمی تعاون سے تشکیل پایا ہے۔
اردو ادیب کو یہاں کے مر کزی دھارے میں شامل کر نے کا سب سے موثر ذریعہ” ترجمہ” ہے۔

1982میں جوڈی ینگ نے کینیڈا میں غیر سر کاری زبانوں میں لکھے گئے ادب پر سروے کیا تھا،(Canadian ethnic studies) اوراس نے اس میں 1970 کے دوران ہونے والے اردو کے ادبی کام اور تراجم کی لسٹ فراہم کی۔

سٹیفن گل نے 1976میں ایشائی شاعروں کی انتھالوجی، (گرین سنو، ویسٹا  پبلی کیشن  ) شائع کی، اس میں پاکستانی شاعر شاہین عالم ولی کی شاعری بھی ترجمعہ کر کے شامل کی گئی تھی۔

اسی سال جان میسکا john Miskaایک ہنگیرین رائٹر اور سکالر نے ایک ethnic writers bibliography. بیبلیوگرافی ترتیب دی تو اس میں اردو زبان کے رائٹرزکو بھی شامل کیا گیا تھا۔
کینیڈا کے ولی عالم شاہین کی کچھ نظمیں ایک انتھالوجی symbiosis میں بھی شائع ہو ئی تھیں۔

“ٹورنٹو ساؤتھ ایشئین ریویو “جسے ایم جی وسان جی نکالتے تھے، اس میں اردو افسانے بھی ترجمعہ ہو کر چھپتے تھے۔عبد اللہ حسین کے افسانے جن کا ترجمعہ محمد عمر میمن نے کیا تھا، بھی اس میں شامل تھے۔
کینیڈا میں اردو زبان کے بہت مترجم موجود ہیں ان میں؛
kathleen grant jaegar, Derek M. cohen
. Leslie Lavigne stanley Rajivia, carla petievich,cameran Mirza،shehla burney،Kenneth Bryant،Linda Voll،
ضمیر احمد، ولی عالم شاہین، خالد سہیل، نصرت یار خان، فاروق حسن، ایم ایچ قریشی اور اے کیو ضیا ۔نسیم سید نے اب اوریجنل (مقامی باشندوں) کی شاعری کوترجمعہ کیا۔ ترجمہ میں سب سے اہم کام بیدار بخت نے کیا ہے، انہوں نے میری این ایرکی،کیتھلین گرانٹ اور لیسلی لیوین کے ساتھ مل کر کشور ناہید،اختر الایمان،امجد اسلام امجد،پروین شاکر، احمد ندیم قاسمی،جمیل الدین عالی، روین شیر اور سردار جعفری کی شاعری کے انگریزی میں تراجم کئے ہیں۔ان ادبی خدمات کے صلے میں ان کو” آرڈر آف کینیڈا “کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

ابھی حال ہی میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز نے دوسرے ممالک کے اہم ادیبوں کو پاکستان میں ترجمعہ کے ذریعے روشناس کرو انے کا فیصلہ کیا تو ناچیز کو بھی ایک اسائنمٹ د ی گئی۔کینیڈا کے اہم مصنفین کی کہانیوں کا ترجمہ عنقریب شائع ہو جائے گا۔ ایسے اقدامات ماضی میں کثرت سے اٹھائے جا تے تو آج پاکستان کا حکومتی سطح پر دوسرے ممالک کے ادب اور ادیبوں سے رابطہ بہت مضبوط ہو چکا ہوتا۔ بہرحال its never too late۔۔ چیئرمین یوسف خشک صاحب ادبی سرگرمیوں پر ایسی ہی گر مجوشی سے کام کرتے رہے تو یہ ادبی اجالا دونوں ممالک میں خوب روشنی بکھیرے گا۔
۔ مشاعرے،پاکستا ن اور اردو ادب کی شان اور پہچان ہیں، جسے تارکین وطن اپنی ہجرت کی  گٹھڑی  میں باندھ کر اپنے ساتھ ہی لے آتے ہیں۔۔ اگر کینیڈا میں ان مشاعروں کی تاریخ دیکھی جا ئے تو یہاں سب سے پہلا مشاعرہ 1952 میں، بیگم شائستہ اکرام اللہ نے(جن کے شوہر اس وقت پاکستان کے ہائی کمشنر کے عہدے پر فائز تھے) کینیڈا کے دارلحکومت آٹوا میں منعقد کروایا تھا ۔ اس تاریخی مشاعرے میں شہید سہر وردی نے بھی شرکت کی تھی۔ اس مشاعرے کی رپورٹ ریڈیو پاکستان کرا چی نے نشر کی تھی۔

1960 میں جب پروفیسر عزیز احمد کینیڈا ہجرت کر کے آئے تو تب سے ہی یہاں اردو کی ادبی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا تھا۔
1970 میں بھی بہت سی  ادبی تقریبات منعقد کی گئی تھیں اور اس کے بعد تو یہ سلسلہ شر وع ہو گیا تھا۔
1977 میں ” کینیڈا – پاکستان ایسوسی ایشن “نے “یونیورسٹی آف آٹوا “کے کیمپیس میں ” اقبال ڈے” منایا۔ کانفرس میں فضل اللہ رضا (ایرانی ایمبیسڈر)،Marietta stepaniants،حفیظ ملک،عبدالقوی ضیا،اور ایم ایچ کے قریشی نے مقالے پیش کئے ۔
1978 میں ٹورنٹو کے معروف افسانہ نگار، رحیم انجان نے فیض احمد فیض کو ٹورنٹو مدعو کیا۔عزیز احمد، اردو کے جانے مانے ناول نگار اس وقت کینسر جیسے موذی مر ض سے لڑ رہے تھے، اس کے باوجود انہوں نے مشاعرے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ فیض احمد فیض کی شاعری پر مقالہ بھی پڑھا۔ اس کے کچھ ہی ہفتوں بعد ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
حفظ الکبیر قریشی نے” انجمن اردو “کے زیر ِ اہتمام 1980میں مشاعرہ منعقد کروایا ۔ فیض احمد فیض دوبارہ ٹورنٹو تشریف لائے تھے۔
کینیڈا میں اطہر رضوی مرحوم اور اشفاق حسین نے پاکستان سے شاعروں اور ادیبوں کو بلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

1981 میں پاکستان سے ادیبوں اور شاعروں کا پہلا وفد آیا تھا ان میں ضمیر جعفری،جمیل الدین عالی،قتیل شفائی،حمایت علی شاعر، صہبا اختر اور پروین فناسید تھے۔ جمیل الدین عالی کا یہ شعر اس وقت کا منظر نامہ واضح کر نے کے لئے کافی ہے؛
اتنی بار بلایا مجھ کو سننے میرا کلام
اب تو کرا چی پڑ جائے گا ٹورنٹو کا نام

اسی سال اکتوبر کے مہینے میں ” پاکستان کینیڈا فرینڈ شپ سو سائٹی آف وینکور “نے ایک ادبی کانفرس اور مشاعرہ منعقد کیا۔
کینیڈا میں پہلی اردو کانفرس1982 میں ” اردو سو سائٹی آف کینیڈا”نے کروائی تھی۔اس میں فیض احمد فیض، جمیل الدین عالی،احمد فراز، علی سردار جعفری،افتخار عارف، گوپی چند نارنگ، carlo coppola,annemarie schimmel اور ادا جعفری وغیرہ نے شرکت کی تھی۔علی سردار جعفری نے “پروگیسو تحریک اور اس کے اردو شاعری پر اثرات”، منیب الرحمن نے” مشاعرہ ایک ادارہ ہے”،

کارلو کوپولا نے”پر وگریسیو شاعری کی تاریخ،اینی میری شملر ” شاعری میں تصوف کا رنگ ” اور حفظ الکیبر قریشی نے ” اردو کلاسیکل شاعری میں جدیدیت” پر بات کی۔
1983میں ” رائٹرز فورم آف پاکستانی کینڈینز “نے” پاکستان کینیڈا امیٹی فورم “کے ساتھ مل کر ایک عالمی اردو کانفرس کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں کر نل انور اور منیر پرویز سامی نے اہم کردار کیا تھا۔
اسی سال سکاربرو میں اختر آصف نے جوش ملیح آبادی کی پہلی بر سی منانے کا اہتمام کیا۔

1984میں ” اردو سوسائٹی آف کینیڈا “نے ایک کانفرس اور معاشرے کا انعقاد کیا اور اختتام پر ایک ورک شاپ بھی رکھی گئی۔ وہاں تین مقالے انگلش اور ایک اردو میں پیش کیا گیا۔
کچھ ہی ہفتوں بعد دسمبر میں ” انٹاریو انسٹی ٹیوٹ آف سٹڈیز ان ایجوکیشن ٹورنٹو “میں مشاعرہ ہوا جس میں جمیل الدین عالی،علی سردار جعفری،پروین شاکر،امجد اسلام امجد، اور نارتھ امریکہ کے شاعروں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔

کچھ سال بعد نسیم سید نے کنگسٹن میں ایک کانفرس،جس کا موضوع Impact of ethnic writers on Canadian culture تھا بھی منعقد کروائی۔ اس میں روسی،فرانسیسی،چینی، انگریزی اور دیگر زبانوں کے مصنفین نے شرکت کی تھی۔

یہاں کینیڈا کی سر زمین پر پچھلی کئی دہائیوں سے اردو ادب کی نشو و نما بہت محبت اور ذوق و شوق سے کی جارہی ہے۔ کینیڈا میں اردو ادیبوں اور شاعروں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ ان میں سے کئی عالمگیر شہرت کے حامل ہیں۔۔ یہاں جو ادیب و شاعر آئے ان میں بعض ایسے ہیں جن کی شہرت اور ساکھ پہلے ہی سے بن چکی تھی۔ پروفیسر عزیز احمد، ڈاکٹر شان الحق حقی، اختر جمال، اکرام بریلوی، حمایت علی شاعر اور سلطان جمیل نسیم۔۔ اس کی مثال ہیں۔ ماسوائے سلطان نسیم کے باقی سب یہیں کینیڈا کی سر زمین میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔۔
شان الحق حقی صاحب کا لغات پر کام اردو زبان و ادب پر ایک احسان ِ عظیم ہے۔

پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں پر یہاں کے امیگرنٹ ادیبوں نے بہت کام کیا ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اقبال اور فیض احمد فیض پر بہت اہم کام کیا ہے۔ احمد فراز اور فیض احمد فیض پر اشفاق حسین اور تسلیم الہی زلفی کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں بھی یہاں کے امیگرنٹ ادیبوں اور شاعروں کی پذیرائی ہو تی ہے۔انہیں وہاں مشاعروں اور کانفرسوں میں بلا یا جاتا ہے ۔ کچھ سال قبل کینیڈا کے شاعر اشفاق حسین کو ادبی خدمات کے حوالے سے پاکستان میں ستارہ امیتاز سے نواز گیا تھا۔ راقم الحروف کو افسانوں کی پہلی کتاب” خواب سے لپٹی کہانیاں ” پر خالد احمد ادبی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اس قسم کی پذیرائی سے امیگرنٹ ادیب نیا حوصلہ اور توانائی پاتے ہیں۔ اور اپنی تخلیق کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان رابطہ بنے رہتے ہیں۔

موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی ادبی رسالہ ایسا نہیں جس میں کینیڈا کے قلم کاروں کی تخلیقات نہ چھپتی ہوں۔۔ابھی حال ہی میں ایک رسالہ” لاہور” کے نام سے شائع ہو رہا ہے، اس میں کینیڈا کی اہم مصنفہ مارگریٹ ایٹ ووڈ اور یہاں کے دوسرے مرکزی دھارے کے مصنفین کے تراجم شائع کے جا رہے ہیں۔
کینیڈا میں 1968 میں اردو کا پہلا رسالہ “صہبا” حفظ الکبیر قریشی نے نکالا تھا ۔ صبیح الدین منصور کا رسالہ” پاکیزہ “اور مختلف رسائل جیسے کہ الہلال۔امروز،ملت،لیڈر، صحافت،سخنور،ایلومنائی انٹرنیشل،دی ایسٹڑن نیوز، آواز،وطن،آفاق، ترجمان،پارس اورملاقات۔۔یہ سب رسائل پاکستانی مصنفین کو کینڈا میں بسنے والے اردو کے قاری سے جوڑنے کا باعث بنتے تھے۔
چند انگریزی رسائل جن میں پاکستانی مصنفین کی تحریریں شائع ہو تی ہیں۔۔یہ ہیں؛
South Asian Review The Toronto
Urdu Canada
South Asian Ensemble
Canadian Asian News

اب پرنٹ رسالوں کے ساتھ ساتھ ویب سائٹس کا زمانہ ہے۔ پاکستان کی کئی اہم ادبی ویب سائٹس ہیں جس میں کینیڈا کے ادیبوں کی تحریریں اور شاعروں کا کلام چھاپا جا تا ہے۔
بیدار بخت کی ذاتی لائبریری جس میں تقریبا ً آٹھ سے دس ہزار تک کتب موجود ہیں،ان میں اردو قلم کاروں کی نایاب کتابیں موجود ہیں۔ انہوں نے یہ کتابیں ٹورنٹو لائبریری کو عطیہ کر رکھی ہیں۔
اب بھی کینیڈا کے تمام بڑے شہروں میں ادبی سرگرمیاں کم و بیش ہر موسم میں جاری رہتی ہیں۔ کر ونا کے دنوں میں بھی ان سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ زوم نے فاصلے اورکم کر دئیے ہیں۔۔ ارباب قلم کینڈا جو ٹورنٹو میں سرگرم ہے، یہ ارباب قلم پاکستان کی توسیع ہے۔ جیسے پروگریسیو رائٹر ز کی بھی ایک توسیع یہاں موجود ہے۔آج ہم اٹلانٹک کے اس پار ہو تے ہو ئے بھی ادب کے دھاگے کے ساتھ پاکستان سے بندھے ہو ئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کینیڈا میں تارکین وطن کی آمد کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور جب بھی جہاز پرندے کی طرح پاکستان سے کسی نئے لکھاری کواپنے پروں میں بھر کر لاتا ہے تو پاکستان اور کینیڈا کے درمیان ایک اور ادبی رابطہ پیدا ہو جاتا ہے۔آنے والوں میں شعر وادب سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے حصے کا دیا جلاتے ہیں اور ادب کو روشنی بخشتے ہیں۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply