• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/مستنصریہ یونیورسٹی علمی درسگاہ سے زیادہ سیاسی داؤ پیچوں میں اُلجھی ہوئی ہے۔(قسط11)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/مستنصریہ یونیورسٹی علمی درسگاہ سے زیادہ سیاسی داؤ پیچوں میں اُلجھی ہوئی ہے۔(قسط11)۔۔۔سلمیٰ اعوان

مستنصریہ میں داخل ہونا گویا ایک عہد میں داخل ہونا تھا۔ عباسی خلفاء نے محل مینار ے بنائے۔ تجارتی منڈیوں اور مرکزوں پر توجہ دی۔ فصیلوں کو کھڑا کیا۔ نظم و نسق کو مضبوط اور امن و امان کی صورت بہتر بنائی۔اسپتال تعمیر ہوئے۔لائبریریاں بنائیں۔ دُنیابھر کی اہم زبانوں سے تراجم کے سلسلے شروع ہوئے مگر درسگاہوں پر توجہ نہ دی۔یہ اعزاز مستنصر کو ملا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی افلاق نے مجھے پروگرام بتایا جس میں سرفہرست مدرسہ مستنصریہ،عباسی پیلس، مستنصریہ یونیورسٹی تھے۔ میں نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”افلاق مجھے آرمینئین چرچ دیکھنا ہے جس کے پاس ہی قبرستان میں وہ جرٹروڈ بیل دفن ہے۔“افلاق کھلکھلاکر ہنسا۔
”آپ تو لگتا ہے اُس پر عاشق ہوگئی ہیں۔“
”ارے نہیں۔ یوں ایک دلچسپ تاریخی کردار تو ہے نا۔اُس کے بارے میں اتنا کچھ بتا کر تم نے اور مروان نے مجھے مشتاق کردیا ہے۔“
سچ تو یہ تھا کہ مجھے تو تصویر کشی کا جنوں بھی نچلا بیٹھنے نہیں دے رہا تھا کہ عراق کی بانی خاتون کی قبر پر اپنی تصویر بنواؤں گی۔
”آپ ڈیڑھ گھنٹہ لے لیجئیے۔چرچ دیکھ لیں۔قبرستان کا چکر لگا لیں۔مدین Midan Square سے گاڑی کوداہیں ہاتھ پر موڑتے ہوئے افلاق مجھ سے مخاطب تھا۔
”رشید سٹریٹ بغداد کی خوبصورت شاہراہوں میں سے ایک اہم شاہراہ ہے۔دجلہ کے ساتھ ساتھ چلتی عالیشان ہوٹلوں اور شاپنگ پلازوں سے سجی گاڑیوں سے لبالب بھری۔
چرچ کی شاندار عمارت کا بڑا حصّہ سفید اور دیگر حصّے زردی رنگے تھے۔مٹیالے سے آسمان کے نیچے سنہری دھوپ میں خوش رنگ پھولوں اور سبزے میں گھرا چرچ بہت خوبصورت نظرآتا تھا۔
سر پر تنی چھتری کو نیچے کرتے اور چھاؤں میں چلتے ہوئے میں نے تصویر کیلئے جگہ کا انتخاب کیااور کیمرہ پاس سے گزرتے دو لڑکوں کو تھما دیا۔
اندر تھوڑا سا گھومی پھری۔یہ بغداد کا قدیم ترین چرچ تھا۔تو بھئی بہت شاندار تھا۔بروشر جو حاصل کیا اُس کے سرسری سے مطالعے نے بتایا کہ یہ پہلے نستورین لوگوں کا تھا۔
”یہ نستوری کون ہیں؟ بروشر میں تو کچھ نہیں تھا۔نام کی حد تک اور تھوڑی سی یہ جانکاری مجھے ضرور تھی کہ یہ عیسائیوں کا ہی ایک فرقہ ہے مگر تفصیلی آگاہی نہیں تھی۔چلوافلاق سے پوچھو گی۔“
اب قبرستان اور جرٹروڈ کی قبر کی طرف نکلی۔
”خدایا سورج تھا کہ جیسے سوا نیزے پر آیا ہوا تھا۔دہل کر واپس بھاگی۔گولی ماری قبرستان اور قبرکو۔بھاڑ میں جائیں تصویریں۔کہیں اپنی قبر نہ بن جائے بغداد میں۔درخت کے نیچے کھڑی ہوئی۔لوگوں کے پُرے تھے جو موسم کی شدت سے بے نیاز چرچ کے راستوں پر آگ برساتی دھوپ میں چلتے پھرتے تھے۔
اور جب گیٹ سے باہر نکلی تو خدا کی کس قدر ممنون ہوئی کہ افلاق کی گاڑی دھوپ میں کھڑی سٹرتی تھی۔اتنی خوبصورت سڑک پر افسوس کوئی درخت نہیں تھا۔
گاڑی میں بیٹھی کچھ سکون میں آئی تو پوچھا”یہ نستوری کون ہوتے ہیں؟“
افلاق کو پیشہ ورانہ گائیڈوں کی طرح جھوٹی اور بے تکی کہانیاں گھڑنے کا ذرا شوق نہیں تھا۔اُس نے آنکھیں پٹپٹاتے کچھ سوچنے کا تاثر دیتے ہوئے بالاخر اتنا کہا۔
”شاید مسیح کی بطور خدا اور انسان کی حیثیت کے تعین کا ہیر پھیر ہے۔بہرحال اس کا پتہ کرتے ہیں۔اچھا ہے میں بھی کلیر ہوجاؤں گا۔
”آج درجہ حرارت 58 پر پہنچا ہوا ہے۔مگر مستنصریہ کے کمرے ٹھنڈے اور ہوا دار ہیں۔سہ پہر کو وہاں چلیں گے۔“دھوپ کی جوانی اور سرکشی آنکھیں چُندھیائے دیتی تھی۔
یہاں دو گھنٹے آرام کیجئیے۔ سوق الغزل کی ایک مسجد کے سامنے اُتارتے ہوئے افلاق نے کہاتھا۔
مجھے خلیل جبیر سے مِلنا ہے۔وہ بغداد کی ماڈرن یونیورسٹی جو مستنصریہ ہی کے نام پر ہے کے انجینئرنگ کالج میں اُستاد ہے۔ذرابات کر آؤں کہ آپ کو یونیورسٹی دکھانے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔آج کل گرمائی تعطیلات کی وجہ سے وہ بند ہے اور کچھ معلومات بھی ہوجائیں۔
ہاں کوئی چیز چاہئیے تو بتائیے آپ کو لادوں۔“
میں انکار کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوگئی۔آج صبح دن بھر کا سامان ساتھ لے کر چلی تھی۔سچی بات ہے جب سے گھر سے نکلی تھی کھانے پینے کا کوئی ڈھنگ کا سلسلہ ہی نہیں تھا۔ صبح ناشتے کی کسمپرسی پر تو اپنے آپ پر رحم آنے والی بات۔کیا کھانا ہے؟خود ہی سوچو۔ خود ہی بھاگتے پھرو۔چائے پینی ہے تو برتن بھانڈے دھوؤ اور چولہوں چونکوں میں سر کو گھساتے پھرو۔ نذر حسین نیاز حسین کے نام پر اگر دوپہر یا رات کو کچھ تقسیم ہوا تو نسرین نے میری چھنی کٹوری میں لے کر سنبھال لیا۔رات کو مجھے بتا دیا جی چاہا تو کچھ منہ ماری کرلی وگرنہ اللہ بیلی۔شام میں چودہ دن یہی سلسلہ چلا اور اب عراق میں بھی وہی کچھ ہورہا تھا۔ افلاق کے ساتھ تو ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔
ہمہ وقت تو بس ایک چِنتا ساتھ چلتی تھی کہ ڈی ہائیڈریشن نہ ہو۔صبح ناشتے میں تربوز پھاڑناہے چاہے جی نہ چاہے کھانا ضروری۔گرمی کو ٹھنڈسے مارنے کی اپنی سی کوشش۔رات کوبند گلاس میں تخم ملنگا اور قتیرہ گوند بھگونا سانس سے زندگی ہے جیسی سوچ کی طرح اہم۔ پانی دودھ کی بوتلیں وافر مقدارمیں خریدتے چلے جانا بھی ضرورت۔
خواتین کے حصّے میں داخل ہوتے ہی میں نے اپنے پرانے کام کئیے۔
پیٹ بھرنے سے کہیں زیادہ یہ تسکین تھی کہ یہ نسخہ بہت کارگر رہا ہے۔
کروٹ کے بَل لیٹ گئی۔ہاتھوں کا سینے کے گرد ہالہ بنالیا کہ بغداد کے چوروں کی چاروں کھونٹ دھومیں ہیں۔فلموں نے بھی شہرت کو چار چاند لگا رکھے ہیں۔
ظہر کی نماز بغیر وضو کے پڑھی۔ہمت ہی نہیں ہوئی کھولتے پانی میں ہاتھ ڈالنے کی۔اب اِسے نماز کہہ لو یا اُس اُوپر والے کو یونہی پرچانے کی کوشش۔
عصر کے سجدے بھی بس ایسے ہی تھے۔
خلیل جبیر افلاق سے عمر میں تو کہہ نہیں سکتی پر تن و توش میں ضرور بھاری تھا۔ ذاتی تعارف کے مراحل سے گزرے تو مستنصریہ مدرسہ کا تعارف شروع ہوگیا۔
مستنصریہ رصافہ Rusafaکے علاقے میں ہے شہدابرج کے پاس ہی۔
گاڑی پارک ہوئی۔کشادہ راستے پر چلتے ہوئے میں اُس انتہائی بلندو بالا محرابی دروازے کے سامنے جا کھڑی ہوئی جس کی پور پور تعمیری بناوٹ کی گُھتی ہوئی ڈیزائن داری کے ساتھ ساتھ نقاشی اور قرآنی آیات سے سجی ہوئی تھی۔بیرونی کرسی اونچی تھی۔سیڑھیاں اترتے ہوئے میں رکتی تھی۔گردن پشت پر پھینکتے ہوئے اوپر دیکھتی تھی اور اس کی پروقار ڈیزائن کاری کو سراہتی تھی۔
مرکزی گزرگاہ ایک وسیع و عریض صحن میں لے آئی تھی جہاں پودوں کی جابجا کیاریاں تھیں۔کجھور کے درخت تھے۔باہیں ہاتھ عمارات کا لمبا چوڑا سلسلہ تھاجس کا مستطیل صورت میں چاروں طرف گھیراؤ تھا۔اندرونی ڈیوڑھی میں بورڈ پر تفصیلات درج تھیں۔جنہیں میں نے پڑھنا وقت ضائع کرنا سمجھاکہ افلاق میرے ساتھ تھااور میری سمجھ بوجھ نے اُسے مستند جانا تھا۔ اِس تپتی سہ پہر میں اِکّا دُکّا انسان ہی نظر آئے تھے۔ماحول سنجیدگی کی ایک گھمبیرتا کے تاثر میں تھا۔
جبیر زورو شور سے بولے چلے جا رہا تھا۔میں چُپ چاپ سُنتی تھی۔پتہ نہیں کیوں اس وقت میرا جی چاہا کہ کوئی مجھ سے بات نہ کرے۔مجھے تاریخ نہ پڑھائے۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے نا۔ بندہ تنہائی اور یکسوئی چاہتا ہے۔جگہوں اور کرداروں سے باتیں کرنے کا متمنّی ہوتا ہے۔چیزوں کواپنی نظر،اپنے اندازاور زاویے سے دیکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔جہاں چاہے بیٹھنے اور ماضی میں گُم ہونے کی آرزو کرتا ہے۔ پر مجبوری تھی۔دو بندے ساتھ تھے اور دونوں ہی معلومات کی بارش میں مجھے بھگوئے جارہے تھے۔
سچی بات ہے میں ایک ٹرانس میں تھی۔مرکزی دروازے سے دروازہ دردروازہ کی سحر انگیزی سے لُطف اُٹھاتی، آنکھیں پھاڑتی، ان پر کی گئی نقاشی اور اس کے طغرائی کام جس کی صورت گری جیومیٹری کی شکلوں کے سنگ سنگ پتے پھولوں سے سجی عباسیوں اور اُمویوں کے طرز تعمیر کے بنیادی تصورات کی آمیزش کی دل کش انداز میں نمائش کرتی تھیں۔
میں پہلے ایوان سے پہلے صحن میں داخل ہوکر ساکت کھڑی اپنے سامنے زردی مائل مٹی رنگ کی اینٹوں سے بنی دو منزلہ عمارت کی بالکونیوں، اُن پر کندہ بھاری پٹیوں کو دیکھتی تھی۔دُنیا کا عظیم ترین،قدیم ترین صدیوں کا اثاثہ سنبھالے میلوں کے رقبے میں پھیلی یہ تعلیمی درسگاہ اپنی عظمتوں کے ساتھ اُس عہد کو خراج پیش کررہی تھی جو کبھی تہذیب و ثقافت کا دُنیا بھر میں مرکز تھا۔جہاں پڑھنے کیلئے پوری اسلامی دُنیا سے طلبہ آتے اور ریاضی،ادب،طِب،فلسفہ،انجینئرنگ،قانون اور قران کی تعلیم حاصل کرتے۔یہی وہ جگہ تھی جہاں سُنی مسلک کے چاروں عقائد حنبلی،شافعی،مالکی اور حنفی کیلئے الگ الگ ڈپارٹمنٹ تھے۔
اب وسیع و عریض تاحدِ نظر پھیلی عمارت کا مستطیل صحن سامنے تھا۔حُسنِ تعمیر سے لدی پھندی غلام گردشیں،اُوپر تنا آسمان تاریخ کھولے کھڑے تھے۔وہ سُناتے تھے اور میں سُنتی تھی۔
تعمیر کا سال 526ھ یا 1226کہہ لیجئیے۔بننے میں کوئی چھ سال لگے۔ بنانے والے کا ذوق کہ دجلہ کو ہمسایہ بنایا۔
کشادہ کمرے طلبہ کے کلاس روم تھے۔انکی اقامت گاہیں تھیں۔انکے لکچرہال تھے۔عمارت میں قرآن کریم کی تعلیم کے لئے اگرخصوصی حصہ تھاتو وہیں ان کی تربیت سازی کے لئے بھی الگ عمارت تھی۔کاغذ، قلم، روشنائی کی فراہمی مدرسے کی ذمہ داری۔ہوسٹل میں طلبہ کو کھانے پینے سے لے کر میڈیکل تک کی سہولت بھی حاصل تھی۔
شاہی کُتب خانے سے 160اونٹوں پر لاد کر کتابیں یہاں لائی گئی تھیں۔انہیں اِس انداز میں ترتیب دیا گیا تھا کہ طلبہ آسانی سے جو کتاب نکالنا چاہتے نکال لیتے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُس کی لائبریری میں اسّی ہزار کتابیں تھیں۔ یہ کتابیں بھی اگر دجلہ کے پانیوں میں گر جاتیں تو پھر پانیوں کا رنگ اور سیاہ ہو جاتا۔پتہ نہیں مدرسہ کیسے ہلاکو خان کے ہاتھوں سے بچ گیا؟
اب سچی بات یہی ہے کہ یہ سب تاریخ کے المیے ہی تو ہیں۔مستنصر کو علم سے محبت تھی جس کا اظہار مستنصر کے ہر انداز سے تھاکہ مدرسے میں ایک بار ہر صورت اس کی حاضری لازمی ہوتی۔
سینئر اُستاد سیاہ عبا یاپہنتا۔سر پر عمامہ ضروری۔چوبی اونچی چوکی پر تمکنت سے بیٹھ کردرس دیتا۔داہیں باہیں دومعاون اساتذہ کا موجود ہونا ضروری،تفصیلی لیکچر، بحث مباحثے،سوالات کے جوابات۔ذرا آج کے جدید تعلیمی انداز اور طریق سے مقابلہ کرلیں۔ ماڈرن تعلیم کے انداز گاؤن، ہڈ،روسٹرم، لیکچر،بحث مباحثے اور سوال جواب۔
اس کے تینوں ایوان تینوں صحنوں میں کُھلتے ہیں اور مَیں پہلے میں کھڑی تھی اور چاہتی تھی کہ ٹپوسی مارکراُس رُخ پر چلی جاؤں جہاں سے دجلہ کا نظارہ کرسکوں۔
خلیل جبیر نے درمیانے وقت کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔
پندرھویں صدی کے بعد عمارت بہت نظر انداز ہوئی۔کبھی اسپتال بنے کبھی سرائے اور کبھی فوجیوں کی بیرکیں حتیٰ کہ 1945ء میں نوادرات کے عراقی ڈائریکٹر نے اِس تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کیلئے باقاعدہ مہم کا آغاز کِیا۔
بہت سے لوگوں، بہت سے مُلکوں کے تاریخی و ثقافتی مراکز نے اِس پر توجہ دی۔عراقی تو مجھے بہت اچھے لگے۔ صدیوں پُرانے اِس ورثے کو تباہ ہوتے دیکھ کر دُہائی تو مچائی۔ہم لوگ تو سچی بات ہے بے حس اور خود غرضیوں کے مارے ہوئے ہیں۔ جہانگیرکے مقبرے کا کاروناروؤں،شاہی قلعے پر آہ و وزاری کروں۔ملکہ نور جہاں کے مقبرے کاسیاپا کروں۔کہیں کُتے لَوٹتے پھرتے ہیں۔شاہی قلعے کی بیرونی عقبی دیواروں کو گجریوں کی پاتھیوں نے ہارپہنا رکھے ہیں اور نور جہاں کامقبرہ، لوگوں کے جھونپڑوں نے چہار جانب سے گھیر لیا ہے۔
بالکونیوں سے دجلہ کو دیکھنا بہت مزے کا کام تھا۔ پختہ کناروں سے نیچے نرسلوں کی لمبی قطاریں تھیں جو پانیوں میں تمکنت سے سراُٹھائے کھڑے تھے۔دریا کے پار سے ال وزیر مسجد کے گنبد اور مینار نظرآتے تھے۔ مجھے سچی بات ہے شیش محل کے جھروکے یاد آئے تھے۔ساتھ اپنا بچپن بھی یاد آیا تھا جب تاریخ میں عباسی خلفاء کو گھوٹے لگتے تھے۔مستنصر بلّاتو کبھی نہیں بھولتا تھا کہ اس کے نام کا اختتام ہی ایسا تھا کہ گرمیوں اور سردیوں میں آدھی رات آگے اور آدھی پیچھے ہماری چھت پر موٹے تازے باگڑ بلّے اپنی خوفناک غرّاتی آوازوں سے وہ سماں باندھتے کہ میدان جنگ آنکھوں کے سامنے آ جا تا اور ساتھ ہی مستنصربلّا بھی۔
مستنصر انداز جہانبانی میں بھی کم نہ تھا۔بیٹے کی تربیت میں کہاں جھُول رہا؟ سپہ گری میں کیوں نہ طاق کر سکا کہ جب مسند پر بیٹھے ہلاکو خان کے سامنے پیش ہوا اُس نے نفرت سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہارے اجداد تو بڑے بہادر اور جیالے تھے۔بادشاہ بن گئے تھے پر بڑے دلیر سپاہی تھے۔مفتوحہ علاقوں میں مرے اور وہیں دفن ہیں۔
”تم“
اُس نے طنزاََ ہنستے ہوئے بلند و بالا بھاری بھر کم دھاتی دروازوں اور اُن پر کی گئی مینا کاریوں کو دیکھا۔
”دروازوں کو یہ سب پہنا دیا ہے۔اِس سے تیرو تفنگ بناتے اور میرا مقابلہ کرتے۔“
جواباََ مستعصم بولا تھا۔
”بس خدا کو ایسے ہی منظور تھا۔“
”تو اب جو سلوک تم سے ہونے والا ہے اسکی منظوری بھی خدا نے دی ہے۔ قالین میں لپیٹ کر ٹھُڈے مارے گئے اور ہڈی پسلیوں کا قیمہ بن گیا۔
عروج و زوال کے المیوں پر سوچتی اورموجودہ صورت پر کڑھتی رہی۔
مستنصریہ کی ایک اور و جہ شہرت اسکا وہ Al-qishla clock tower ہے۔جوفلکیاتی حساب سے گھنٹوں کا اعلان کرتا ہے۔سُورج اور چاند کی پوزیشن کے بارے میں بتاتا۔یہ علی بن تغلب کا کارنامہ تھا۔
ساتھ ہی ال آصفہ Al-Asefiaمسجد تھی۔کیا شاندار سی مسجد تھی۔نقاشی سے لبالب بھرے نیلے گنبد والی۔کھڑکیوں سے دجلے کے نظارے لوٹے اور پار الوزیر مسجد کا دیدار کیا۔
عباسی پیلس کو دیکھنا بھی ایک خوبصورت اور دل کو چُھو لینے والا تجربہ تھا۔ دریائے دجلہ کے کنارے،اس کی بالکونی سے دجلہ کو دیکھتے ہوئے میں نے بے اختیار سوچاتھا بادشاہ چاہے ماضی بعید کے ہوں یا ماضی قریب کے پانیوں کے قریب گھر بنانا کیوں پسند کرتے ہیں؟مجھے باسفورس کے کنارے استنبول کا دولما باشی یاد آیا تھا۔دریائے ینوا کے ساحلوں پر زاروں کا ونٹر پیلس یادوں میں ابھرا تھا۔
شاید پانیوں میں حرم کی باغی سرکش عورتوں کو دھکے دینا آسان ہوتا ہے۔میرے اندرسے ایک جواب یہ بھی تھا۔
1179اور 1225کے درمیانی وقت میں خلیفہ ال ناصرلدناللہ
Al.Naseer Lidinillah نے اِسے بنایا۔ عمارت کے بہت سے حصّے
State Establishment of Antiquities and heritage نے اُسی پیٹرن پر دوبارہ بنائے ہیں۔مرکزی صحن اور دو منزلہ عمارت جس کی بالکونیوں، محرابی جھروکوں اور ان کی اندرونی پیشانیوں پر گھتا ہوا کام آپ کو بے اختیار روکتا تھا۔ اور طرز تعمیر کی خوبصورتی آپ کو فوراََ جکڑ لیتی ہے۔مستنصریہ سے اس کی کافی مشابہت ہے۔ اینٹ کے چوکور ستونوں پر جومحرابیں بنتی تھیں وہ کِس کمال کی تھیں۔نیم قوسی صورت کی یہ تہہ در تہہ ڈیزائن داری کے ساتھ فنِ تعمیر کا وہ نادر نمونہ کہ بقول خلیل جبیر یہ سلجوقی سٹائل ہے۔تُو کمال کاہے۔میں باربار انہیں دیکھتی تھی۔جیسے ایک کے بعد ایک پردے کی تہیں کُھلتی جائیں۔کہیں اس کے اندازدورِ جدید کے پردوں کو اطراف سے باندھنے سے پیدا شُدہ تصویر کے سے لگے۔
اس گُھتی ہوئی تعمیری کندہ کاری میں کہیں ستارے، کہیں جیومیٹریکل ڈیزائن نظر آتے تھے۔صحن میں تالاب اور فرش پر دانہ دنکا چگنے میں مصروف کبوتر۔ بڑا دلکش منظر تھا۔
عمارت کے جس حصے نے مجھے حیران کیا تھاوہ اُس کا پرانا کولنگ سسٹم تھا۔انتہائی موٹی فصیلوں جیسی اینٹوں والی دیواروں میں داہیں باہیں محرابی شکل کے دریچے نما شگاف جو ہواؤں کو کھینچ کر اندر لاتے تھے۔
عباسی محل اور مستنصریہ کو دیکھنے کی میری یہ کاوش اُس نائی جیسی ہی تھی جو بھری پُری دیگ میں سے چند دانے ہی چکھ کر شاندار ہے کا سگنل دیتا تھا۔میں باہر آگئی پیلس کے سامنے وسیع و عریض میدان میں دونوں لڑکوں کے درمیان اب یہ بحث چھڑ گئی کہ شام کا وقت نامعلوم شہدا کی نئی یادگار کو دیکھنے کیلئے زیادہ موزوں ہے۔افلاق کا خیال تھا کہ وقت تھوڑا ہے۔ اُس کے کیلئے زیادہ وقت چاہیے۔
”جبیر اس وقت تو میں یونیورسٹی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کو ترجیح دوں گی۔کافی تھک گئی ہوں۔چلو وقت ملا تو پھر اندر بھی چلے جائیں گے۔بحث کو میں نے سمیٹ دیا تھاکہ واقعی میں اُس وقت چلنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
”Caliphsمسجد کے عقب میں پالتوجانوروں کی مارکیٹ ہے۔کبوتر،تیتر،بٹیر دیکھئیے گا کسی وقت“ افلاق نے کہا۔
”میرے بچے مجھے زندگی میں کبھی بھی کتّے،بلیوں،طوطوں،میناؤں،کبوتروں اوربیٹروں سے دلچسپی نہیں رہی۔
افلاق نے گاڑی چرچ کے سامنے سے گزاری اور میں نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود لوگوں کے ہجوم دیکھے کہ فٹ پاتھوں والی دوکانوں کا یہاں بھی زور تھا۔آوازیں تھیں اور شور و غل میں شام کی ڈوبتی ساعتیں بھرپور زندگی کا احساس دیتی تھیں۔
داہیں باہیں آگے پیچھے ہرجانب سڑکیں ایک دوسرے کو کاٹتی تھی۔اطراف میں شاندار اور خوبصورت عمارات کا پھیلاؤ تھا۔جمہوریہ سٹریٹ پر میں نے نشان دہی پر خلیفہ Caliphsمسجد دیکھی۔جی چاہا اس میں دو نفل پڑھ لوں۔مگر حوصلہ نہ ہوا۔بالکل سامنے رومن کتھولک چرچ کی شاندار عمارت تھی۔
مستنصریہ سکوائر دیکھا۔گاڑی میں بیٹھے بیٹھے تقریباً بارہ فٹ اونچی اُس دیوار کے گرد چکر لگایا جو یونیورسٹی کے گرد حفاظتی نقطہ نظر کے تحت تعمیر کی گئی ہے۔ جدید علوم کے ہر شعبے میں کفیل24000طلبہ کی تعلیم کا بار اُٹھائے بغداد کے شمال مشرق میں میلوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ صدام کے زمانے میں اس کے ڈنڈے کے بَل بوتے پر اطمینان بخش کام کرتی تھی۔ پر اب منفی سیاست،مذہبی تعصب اور بیرونی شازشوں میں اس طرح اُلجھی ہوئی ہے کہ جہاں ایک طرف یونیورسٹی کے ذہین دماغوں کو گولیوں کی سان پر چڑھایا جارہا ہے وہیں سینکڑوں بچے بچیوں کو موت کے گھاٹ اُتاراگیا۔ساڑھے تین سوکے قریب طلبہ یا مارے گئے یا وہ معذور ہوئے۔بہت سی طالبات ریپ ہوئیں۔
پچھلے سال کے خوفناک حادثے کی تفصیلات بڑی دل خراش تھیں۔
بچے بچیاں گھروں کو جانے کیلئے مِنی بسوں اور پارکنگ ایریا میں پارک کی ہوئی گاڑیوں کی طرف بڑھتے تھے جب مین گیٹ پر آکر کھڑی ہونے والی گاڑی میں بم پھٹا۔دوسرے گیٹ پر خودکش بمبار نے تباہی مچائی۔زیادہ نشانہ طالبات بنیں۔
میرے پوچھنے پر خلیل جبیر نے کہا۔شیعہ سُنی اختلافات تو بہرحال ہیں۔ ماضی میں ایران کے حوالے سے بھی معاملہ ذرا خراب تھا مگر اب تو اسی پر سیاست کا کھیل ہو رہا ہے۔ کل سُنیوں کو غلبہ حاصل تھا۔اہم کلیدی پوسٹوں پروہ راج کرتے تھے۔ آج شیعہ پاور میں ہیں۔
یونیورسٹی کے مین گیٹ پر سیاہ جھنڈا جب جی چاہے لہرادیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں کی اکثریت بھی مذہبی و سیاسی گرہ بندیوں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ خوف ذدہ اور پریشان بھی ہے۔سٹوڈنٹس لیگ جس کی پُشت پناہی شیعہ عسکری تنظیمیں کرتی ہیں نے بڑی ماردھاڑ مچا رکھی ہے۔پروفیسروں کو قتل کی دھمکیاں دینا معمول ہے۔بہت سے مُلک چھوڑ گئے ہیں۔ سُنی باغی گروپ، ہڑتالوں کلاسوں کے بائیکاٹ،ذہین لوگوں اور سائنسدانوں کو بچاؤ جیسے نعرے لگاتے اپیلیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک رائے ہے کہ نورالمالکی کی غیر جانب داری کچھ اتنی موثر نہیں ہے کہ ان کے مشیروں باتدبیروں کی دلی ہمدردیاں مسٹر مالکی کی شیعہ پارٹیDawa اور سٹوڈنٹس لیگ کے سرکردہ طلبہ سے ہیں۔
ا ان حالات میں غیر جانب دار ذہین لوگوں کا کام کرنا کِس قدر مشکل ہے۔چُپ چاپ یہ سب سُنتے ہوئے میں اپنے مُلک کی گھمن گھیریوں میں اُلجھی ہوئی تھی۔
اور جب بغداد کی سڑکیں اور بازار برقی روشنیوں سے جگمگاتے تھے۔میں نے افلاق سے کشری (Kushari)کا پوچھا تھا۔دمشق میں تو یہ کھانا میری کمزوری بن گیا تھا۔ترکیب بھی میں نے جان لی تھی۔
”ارے پسند ہے آپ کو۔تو چلئیے کھلاتا ہوں۔وہیں التحریر میں ہی اور اس کے بعد ایک ایسے کیفے میں چلتے ہیں جہاں ہرہفتے کی شب پرانے اور نئے شاعروں کا کلام ترنم سے پڑھا جاتا ہے۔
”مجھے کیا سمجھ آئے گا۔ظاہر ہے عربی میں ہوگا۔“
”ماحول تو دیکھیں گی۔ترجمہ میں کرتا جاؤں گا۔“
سعد بن ابی وقاص روڈ پر ایک چھوٹے سے قہوہ خانے میں چوبی صوفوں پر دھرے میٹرس کے گدوں پر بیٹھے لوگوں کی محفل عروج پر تھی۔ہم داخل ہوئے اور چپکے سے خالی جگہ پر بیٹھ گئے۔لوگوں نے دیکھا ضرور مگرکِسی نے تعجب کا اظہار نہیں کیا۔شاید میں پہناوے کے اعتبار سے عراقی خاتون لگتی تھی۔
کسقدر مترنم آواز تھی۔دھیمی نغمگی سے بوجھل۔افلاق نے جیب سے کاغذ قلم نکالا۔اُس پر حاز م ال تمیمیHazim Al-Temimi کا نام لکھا۔اُس کی نظم”ایک دن“ پڑھی جارہی تھی۔بغداد کے جنوب کا یہ شاعر جسنے دلدلی علاقے کے ایک انسان کی خواہشات کو بہت دل پذیر انداز میں بیان کیا تھا۔ایک دن جب بچہ بڑا ہوگا۔اس کے بڑا ہونے سے اُسکی خواہشات کے تانوں بانوں میں اُلجھی ایک لمبی داستان۔نظم ختم ہوئی۔اس پر تعریفی انداز میں تھوڑی دیر بات ہوئی۔
اب منال الشیخManal-Al-Sheikhکو پڑھا جارہا تھا۔شاعرہ کا تعلق نینوا سے تھا۔ایک دلیر،جی دار اور بے باک شاعرہ۔میں افلاق کے گھٹنے پر رکھے کاغذ پر لکھے لفظوں کو پڑھتی،پھر آنکھیں اٹھاتی اور پڑھنے والے کے چہرے پر ٹکا دیتی۔
وہ عراق کی جون آف آرک ہے۔جس نے ملک چھوڑ دیا کہ اُسے دھمکیاں ملتی تھیں اٹھانے جانے کی،قتل کی مگر جو اپنی پوری قوت سے چلّا کر کہتی تھی۔
”یہ جس آگ کی تم مجھے دھمکی دیتے ہو۔تمہارا خیال ہے کہ یہ مجھے کھاجائے گی۔اطمینان رکھومجھے کالے جادو کا علم آتا ہے۔یہ جان لو کہ میرے ملک میں آنے والا انقلاب مجھ جیسوں کی رہنمائی میں آئے گا۔تمہاری لگائی ہوئی آگ کو اتنی اجازت نہیں دو ں گی کہ وہ مجھے کھا سکے۔میں نے کیا نہیں دیکھا۔پارٹیوں کی اقتدار کی کشمکش،بم باری،ٹکڑے ہوئے انسان یہ سب آپ کو کتنا غم زدہ کرتا ہے۔میری شاعری اسی کا تو اظہار ہے۔
دادو تحسین کے ڈونگر ے برستے تھے اُس کے اشعار پر۔جب دس (10)بج رہے تھے۔محفل تو اپنے عروج پر تھی۔مگر مجھے ڈر تھا اپنے لوگوں کا کہ جنہوں نے بتیاں گل کر دینی ہیں۔میں نے کاغذ پر جھک کر لکھا۔
افلاق اب چلنا چاہیے۔اور ہم جیسے خاموشی سے داخل ہوئے تھے اُسی طرح اٹھ کر باہر نکل آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply