لازوال تحریروں سے انتخاب/بانو قدسیہ کے ڈرامے سے ایک مکالمہ

بانو قدسہ کے دولازوال کردار”خالدہ ریاست اور افضال احمد”

مرد: تم اپنے انجام سے واقف نہیں ہو۔ تم مرد بننے کی کوشش کر رہی ہو۔ حالانکہ تمہارا اصلی مقام عورت ہونے میں تھا۔
عورت: وہ تو اُس صورت میں ہوتا کہ تم میرے اُس مقام کی عزت کرتے۔ میرے عورت پن کی وجہ سے مجھے چاہتے۔ میرے صبر و استقلال کی داد دیتے۔

مرد: تم عورتیں مرد کی وائسس تو اکٹھی کر سکتی ہو لیکن اس کی گریٹنس کو شیئر نہیں کر سکتیں۔
عورت: بہت صدیاں بہت قرن عورت نے خود گریٹ ہو کر دیکھ لیا ہے۔ اب وہ مرد کو اُن کی کمزوریوں کی وجہ سے شکست دے گی جو وہ مرد سے سیکھ رہی ہے۔ اب تک مرد کو کُھلی چُھٹی اس لیے ملی ہے کہ عورت نے کبھی اُس کی کمزوریوں کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ اب عورت سو پیاز، سو جُوتے نہیں کھائے گی۔

مرد: تم برباد ہو جاؤ گی۔
عورت: ہونے دو۔۔۔ تخت یا تختہ!

خالدہ ریاست
بانو قدسیہ

مرد: رات گئے تک آوارہ پھرنا۔۔۔ سگریٹ پینا۔۔۔ گھومنا۔۔۔ کیا تمہیں اپنے بچّے کا کچھ خیال نہیں۔۔۔؟مکالمہ
عورت: صدیوں سے تم آوارہ پھرو۔ تم نے اپنی آوارگی میں کیا کچھ نہیں کیا۔ کیا تمہیں اپنے بچّے کا خیال کبھی نہیں آیا۔۔۔ گھر لوٹنے کو تمہارا دل کبھی نہیں چاہا؟؟؟

مرد: عورت اور بچّے کا اصلی رشتہ ہے۔ تمہیں اس کا بھی کچھ پاس نہیں۔
عورت: کِیا بہت کِیا۔۔۔ میری ماں نے۔ میری نانی نے۔ میری پرنانی نے۔ اُس کی نانی نے اور اُس کے بدلے میں تم نے ہمارا کیا کچھ استحصال نہیں کِیا۔ تم نے اور تمہاری جنس نے بچّے کی پیدائش کے بعد ہمیں گھر پر ایسے رکھا جیسے گرمیوں میں لحاف بند کر دیے جاتے ہیں۔ ہماری صلاحیتیں زنگ آلود ہوئیں۔ کیونکہ ہمارے لیے سوائے گھر کے اور کوئی جگہ نہیں تھی۔ ہم زندگی کی گہما گہمی میں حصہ نہ لے سکیں۔۔۔ کیونکہ ہمارے گھر میں ایک بچّہ تھا۔ ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ہماری صرف ایک حیثیت تھی۔ اب تمہارا بچّہ بوتل سے دودھ پیے گا۔ آیا کی گود میں پلے گا۔ جوان ہو گا تو روپیہ بنائے گا۔ Tranquilizer کھائے گا۔ Psychotherapist کے پاس ہفتے میں دو بار جایا کرے گا اور ایک روز ڈھیر ساری Sleeping Pills پی کر سو جائے گا۔

مرد: اور تم کیا کرو گی؟؟؟
عورت: میں اپنی تلاش میں نکلوں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرد: کہاں؟؟؟؟؟
عورت: کہیں۔۔۔ دفتروں میں، کلبوں میں، سڑکوں پر، لِفٹوں میں، پارکوں میں، جہاں جہاں مجھے اپنا سُراغ اور اپنے وجود کا کوئی گُمشدہ حِصّہ ملے گا میں جاؤں گی۔ کیونکہ مُجھے اپنا آپ ثَابِت کرنا ہے تمہاری ہم جنسوں پر۔
 انتخاب:گوتم حیات

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply