اے ماں ،اے میری مہربان ماں /خنساء سعید

رات کے اُس پہر سرما کی برفانی ہوا درختوں سے سیٹیاں بجاتی گزر رہی تھی، خزاں دیدہ درختوں کے پتے شاخوں سے جدا ہو کے رات کے یخ بستہ سناٹے میں اُڑتے پھر رہے تھے۔ دور کہیں بہت دور جھاڑیوں میں گیدڑ کی چیختی آواز سنائی دیتی تو لگتا کہ موت سوکھی جھاڑیوں میں پاؤں میں نوکیلے دانتوں والے گھنگھرو پہنے محوِ رقص ہے ۔ وہ رات تھی یا پھر کوئی جدائی کا سندیسہ لے کر آنے والا ایلچی۔
چودھویں کا چاند آسمان کی وسعتوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا، شبِ مہتاب میں ہر شے پر کسی الہڑ دوشیزہ کی طرح حُسن آیا ہوا تھا ۔ چاندنی درخت کی بالائی شاخوں پر مامتا کی طرح مہربان تھی ۔ درختوں کے بے ہنگم سائے نہایت ہیبت ناک محسوس ہو رہے تھے ۔اس اُجلی اور چاندنی رات میں سر سراتی ہوئی سیاہی قدرت کی پُر اسراریت میں اضافہ کر رہی تھی ۔
ایسے میں وہ درد سے کراہتا ، اپنی کچلی ہوئی خون سے لت پت ٹانگ کو گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا، راستے میں خون کے گرتے ہوئے قطرے اُس کے زخمی ہونے کا ثبوت چھوڑے جا رہے تھے ۔ بالآخر وہ ریل کی پٹڑی کے پاس جا کر گر گیا، چت لیٹا اوپر آسمان کو رجائیت بھری نظروں سے دیکھنے لگا ۔ ۔ چاند، ستارے، روشنی، درخت، زمین پر گرے پتے، ریل کی پٹڑی، گھونسلوں میں سوئے ہوئے پرندے، جھاڑیوں میں سرسراتے ہوئے کیڑے مکوڑے، جیسے ہر کوئی درد سے آہ  و بکا کر رہا ہو، نالہ و گریہ میں بلند آواز سے اپنی اپنی ماں کو پکار رہا ہو ۔ اُس نے بھی نالہ ہائے نیم شبی میں، نیم وا آنکھوں سے اپنی ماں کو پکارنا شروع کیا ۔
ماں
اے میری ماں پیاری ماں
مجھے دعا بھیج
دیکھ میں مر رہا ہوں
درد سے تڑپ رہا ہوں مجھے یہاں بچانے والا کوئی نہیں ہے
تو مجھے بچا لے ماں
تیری دعائیں بہت با اثر ہیں ان کی تاثیر مجھے بچا لے گی مجھے اس درد سے نجات مل جائے گی ۔
مجھے معاف کر دے ماں
وہ وہاں لیٹا اپنی ماں کو پکارتا رہا درد سے تڑپتا رہا پھر آہستہ آہستہ اُس میں بولنے کی سکت نہ  رہی، اُس کی آنکھیں پوری بند ہو گئیں دماغ  شل ہو گیا اُسے لگا کہ وہ مر چکا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
“شمائل اُٹھ جاؤ بیٹے تمہارا ناشتہ بنا دوں” بے سدھ سوئے ہوئے بیٹے کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے ماں نے کہا، وہ اپنے خوبرو بیٹے کو نظر بھر کر نہیں دیکھتی تھی کہ کہیں اُسے نظر نہ لگ جائے ۔اُسے بیوہ ہوئے اٹھائیس سال ہو گئے تھے بیٹے کی خاطر اُس نے عقد ثانی نہیں  کیا کہ کہیں اُس کا بیٹا  اُس سے جدا کر دیا جائے، اپنے چھوٹے سے گھر میں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہی تھی ۔
بیٹے کو پڑھایا لکھایا اُس کی پرورش کی ،اب اُس کا بیٹا ماسٹر کر چکا تھا اُس نے اپنے لیے بہت سے خواب دیکھ رکھے تھے جن کو پورا کرنا اُس کے لیے بہت ضروری تھا ۔

شمائل کو لگتا اگر وہ اس چھوٹے سے گاؤں کے چھوٹے سے محلے میں رہے گا اور چند ہزار تنخواہ پر کسی پرائیویٹ کالج میں پڑھاتا رہے گا تو اُس کے خواب کیسے پورے ہوں گے وہ ایک کامیاب بزنس مین کیسے بن پائے گا بس اُسے اپنا خود کا کاروبار شروع کرنے کے لیے بہت سا پیسہ کمانا تھا۔
اُس نے شہر کی بڑی کمپنیوں میں نوکری کے لئے سی وی جمع کروا رکھی تھی کسی کسی کمپنی سے اُسے کال کر کے انٹرویو کے لیے بلایا جاتا تو وہ دوستوں کے ساتھ مل کر ماں سے چوری انٹرویو دینے چلا جاتا مگر ستم ظریفی وقت تو دیکھیے ہر طرف سے اُسے مسترد کر دیا جاتا ۔
ماں پوچھتی شمائل کہاں گئے تھے؟ تو غم و غصے کی ملی جلی کیفیت میں وہ ماں پر چلّاتا ۔
ماں تو مجھے اپنے کھونٹے سے باندھ کر رکھنا چاہتی ہے،تو کہتی ہے میں تیری کامیابی کے لیے دعائیں کرتی ہوں، کہاں جاتی ہیں تیری دعائیں ،میرے حق میں تیری دعائیں خدا تک کیوں نہیں پہنچتی بتا مجھے،تو چاہتی ہے میں اس چھوٹے سے گاؤں میں غربت کی زندگی گزارتا گزارتا مر جاؤں ،اس لیے مجھے خود سے دور نہیں جانے دیتی مگر میں تجھے بتا رہا ہوں ماں ۔
میں نہیں رہوں گا اس حبس زدہ تنگ گلیوں والے محلے میں، اس ڈربے نما گھر میں، چلا جاؤں گا میں یہاں سے دور اپنی زندگی جینے اپنی دنیا بسانے ۔
اور ماں کی سانسیں تو بس اُن لفظوں میں ہی اٹک کے رہ جاتیں ،کہ چلا جائے گا وہ اُس سے دور اُسے تنہا کر کے اس بڑھاپے میں اپنی ماں کو اکیلا چھوڑ کر ۔

وہ خاموشی سے مجرموں کی طرح گردن جھکائے آنسو بہاتی  ،روتی رہتی ،یہ تھا اُس کا خوبرو جوان بیٹا جس کے سہارے بیوگی میں اُس نے اپنی جوانی گزار دی کہ کوئی بات نہیں بیٹا جوان ہو گا تو ہم دونوں ایک دوسرے کے سہارے رہ لیں  گے،آج وہ ہی اُسے چھوڑنے کی دھمکی دے گیا تھا۔

شمائل کے دوست کا فون آیا ،کہنے لگا شمائل مبارک ہو دوست !میرے باس نے کہا ہے تمہیں انٹرویو کے لیے بلاؤں، تمہارے دن بدلنے والے ہیں تمہارے سارے خواب پورے ہونے والے ہیں بس تم سوموار کو صبح دس بجے انٹرویو کے لیے آ جانا ۔
وہ خوشی سے جھومتا ہوا اُٹھا اور ماں کو آوازیں دینے لگا۔
ماں
ماں
مجھے کال آ گئی مجھے نوکری مل گئی ،ارے وہ ہی جس سے میرے خوابوں کی تعبیر ممکن ہے وہ جھوم رہا تھا مسرت و انبساط اُس کی رگ رگ سے پھوٹ رہے تھے۔اُس کی ماں ظاہری طور پر بہت خوش ہوئی اُس کو دعائیں دینے لگی مگر اندر سے بیٹے کی جدائی کے غم میں اُس کا دل رونے لگا ۔وہ بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں گیا اور سامان پیک کرنے لگا کیوں کہ کل صبح اُسے نکلنا تھا ۔ ماں ساری رات نہ سو سکی، بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہلتی رہی سوچتی رہی کہ وہ اس گھر میں تنہا اپنے بیٹے کے بنا کیسے رہے گی ۔بیٹے کی جدائی کیسے برداشت کرے گی ،انہیں سوچوں میں رات کٹ گئی ،صبح ہوئی تو وہ علی الصبح ہی وہ دیسی گھی کے پراٹھے اور لسی بنا کر باورچی خانے میں اُس کا انتظار کرنے لگی وہ کندھے پر بیگ ڈالے جانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا ۔

“شمائل ناشتہ کر لو بیٹا “ماں نے التجائیہ انداز میں کہا ،ناشتہ کرنے بیٹھوں گا تو ٹرین چھوٹ جائے گی یہ کہتا ہوا وہ ماں کے گلے لگا تو ماں نے ایک دفعہ پھر اُسے روکا ۔
“مت جاؤ شمائل مجھے اکیلا مت کر بیٹا، دیکھ میں تیری کامیابی کے لیے ہر وقت دعا کرتی ہوں، یہاں کالج میں بھی تیری تنخواہ بڑھ جائے گی، پھر ہمارا کون ہے کھانے والا بس میں اور تم ہی تو ہیں” ۔ اُس نے ماں کو خود سے الگ کیا اور کہنے لگا ۔

ماں تجھے خدا کا واسطہ ہے میرے مستقبل ،میرے خوابوں کے بیچ مت آ ،اور میرے لیے دعا نہ  کرنا مجھے تیری دعا کی ضرورت نہیں ہے میرے حق میں تیری دعائیں قبول نہیں ہوتیں، یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور ماں آنکھوں میں آنسو لیے دور تک دعائیں دیتی اُس کو جاتا ہوا دیکھتی رہی ۔

اسلام آباد جا کر وہ نوکری کرنے لگا تھا ، اُس کی وہاں گاؤں کے نجی کالج سے چار گناہ زیادہ تنخواہ لگی ۔ اُس کے پاس رہنے کے لیے ابھی اپنا فلیٹ نہیں تھا اس لیے وہ اپنے دوست کے ساتھ اُس کے فلیٹ میں رہتا تھا ۔گاؤں سے شہر آ کر اتنا پیسہ کماتے ہوئے وہ ماں کو بھول چکا تھا پیسے ہر ماہ وقت پر بھیج دیتا مگر اُس کا حال احوال کبھی کبھار فون کر کے پوچھتا اور وہ اتنے میں ہی خوش ہو جاتی ۔

اُس کا دوست اُسے اپنے سے زیادہ پیسے کماتے دیکھ کر خود سے زیادہ کامیاب دیکھ کر حسد کرنے لگا ۔اُس نے شمائل کے ساتھ ایک بڑا فراڈ کیا اور اُس کے سارے پیسے ہتھیا لیے ،اپنےباس کو ہر وقت شمائل کے خلاف بھڑکاتا رہتا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باس نے اُسے نوکری سے نکال دیا اب اُس کے پاس نہ  پیسے تھے نہ  نوکری اور نہ  ہی رہنے کے لیے گھر ۔۔اسی غم میں وہ سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہتا آج بھی وہ رات کے آخری پہر خالی جیب لیے سڑک کے کنارے بیٹھا اپنی قسمت کو کوسنے میں مصروف تھا کہ ایک بے قابو اینٹوں سے بھری ہوئی ٹرالی اُس کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہی تھی جس کا ڈرائیور غالباً نشے میں دھت تھا ، وہ اُٹھا اور خود کو بچانے کے لیے بھاگنے لگا مگر ٹرالی اُ س کی  ٹانگ کو کچلتی ہوئی آگے بڑھ گئی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہ التجائیں کرتا دعائیں مانگتا ریل کی پٹڑی  کے پاس نیم مردہ حالت میں پڑا تھا ۔ اُس کی ماں کا دل آج ایک عجیب لَے میں دھڑک رہا تھا وہ تہجد میں زارو زار روتی ہوئی رب سے اپنے بیٹے کی کامیابی ، زندگی اور خوشحالی کی دعائیں مانگتی رہی ۔اچانک دوسری طرف دور سڑک پر ایک گاڑی خون دیکھ کر رکی ، اُس وقت گاڑی میں دو بھائی اپنے گھر واپس جا رہے تھے دونوں نے خون کے قطروں کا تعاقب کرنا شروع کیا تو دیکھا سامنے ایک خو بصورت نوجوان بے ہوش پڑا ہے وہ بھاگتے ہوئے اُس کے پاس گئے ا ور اُس کی نبض چیک کرنے لگے نبض بہت آہستہ چل رہی تھی ایک نے پانی اُس کے منہ پر چھڑکا تو اُس کی آنکھوں میں ہلکی سی جنبش پیدا ہوئی اُسے لگا وہ زندہ ہے دونوں لڑکوں نے اُسے اٹھایا اور گاڑی ہسپتال  کی طرف دوڑا دی ۔گاڑی میں لیٹا وہ روتادر د سے کراہتا ہو ا اپنے تخیل میں اپنی ماں سے مخاطب ہوا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماں تیری دعائیں مجھ تک پہنچ گئی ہیں ،تیری دعاؤں نے مجھے اس ویران بیابان اُجاڑ رستے میں تنہا مرنے نہیں دیا ۔ماں تیری دعائیں بے اثر نہیں ہیں ان کی تاثیر سے آج میں پھر سے اس عالم  میں سانس لینے    کے لیے زندہ ہوں ،تو میری جدائی میں یعقوب وار روئی ہو گی تیری سچی دعاؤں اور سچے آنسوؤں سے بڑھ کر اس دنیا میں کچھ بھی نہیں ۔یہی میرے زخم کی قیمت ہے، یہی راس المال جراحت یہی چشم خونبار یہی زبان ِ فغاں سنج یہی دست ماتم کار ہے جس کو میں اپنے ساتھ لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تیرے پاس آ رہا ہوں ،اے ماں اے میری مہربان ماں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply