تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے۔۔قمر رحیم خان

25جولائی 2021ء کو آزاد کشمیر میں الیکشن ہوئے جس میں پی ٹی آئی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے  سردار عبدالقیوم نیازی کی سربراہی میں حکومت تشکیل دی۔سردار عبدالقیوم نیازی صاحب کے وزیر اعظم بنائے جانے کے اقدام نے ریاستی عوام کی حسِّ ظرافت کو خوب چھیڑااور کئی روز تک سوشل میڈیا مختلف لطائف سے زعفران زاربنا رہا۔کہا گیا ان کے وزیر اعظم بننے کی وجہ ان کا ’نیازی‘ ہونا ہے۔ حالانکہ نسلاً وہ نیازی نہیں ہیں۔شاید وہ لکھاری ہوں اور ’نیازی‘ تخلص رکھتے ہوں۔ اگلے پانچ سال میں ان کا مجموعہ کلام تو سامنے آہی جائے گا۔وزیر اعظم بننے کے بعد اگر وہ اپنا تخلص ’بے نیازی‘ رکھ لیں تو اچھا ہے۔ایک ’بے‘ ہی تو ڈالنی ہے۔فائدہ یہ ہو گا کہ قوم انہیں منافق نہیں پکارے گی۔گو اس سے کسی کو فرق نہیں پڑا، کسی نے بُرا منایا نہ احتجاج کیا۔لیکن تاریخ کچھ ناموں کو ضرور سافلین کی فہرست میں شمار کرے گی۔اقتدار تاریخ سے بے نیاز ہوتا ہے۔ورنہ ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔مگر ہو نہیں سکتی تھی۔ متحدہ ہندوستان ہو، پاکستان یا بھارت، کشمیری قیادت سے خوفزدہ ہی رہے۔یہ سلسلہ یوسف شاہ چک سے شروع ہوتا ہے۔ آج بھی اس تاریخی خوف کا عالم یہ ہے کہ شیخ عبداللہ کو کم و بیش بائیس سال پسِ زنداں گزارنے پڑے۔

آزاد کشمیر میں 1951ء اور 1955ء میں جو کچھ ہوا، اس کے حسن و نزاکت کے باعث تاریخ اسے اپنے دامن میں سمونے سے اب بھی ججھک رہی ہے۔ شملہ معاہدہ میں سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن بنا دیا گیا۔طے ہوا کہ کشمیری اس لائن کو کراس نہیں کر سکتے۔ ہر دو طرف کی حکومتیں انہیں کنٹرول کریں گی۔مقبول بٹ کی باقیات سے بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت خوفزدہ ہے اور گیلانی صاحب کی میت کو چھین کر رات کے اندھیرے میں دفنادیا۔

پھر گذشتہ تیس سال کی خونریزی دیکھیے۔ اس کے بعد بھی خوف کا یہ پارہ گرا نہیں اوپر ہی اوپر جا رہاہے۔جبر کا نتیجہ یہ ہے کہ منقسم، منتشر، پا بہ زنجیر، مجبور و مقہور کشمیر پورے خطے کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔جنگی قوت کو بڑھانے کی ہلاکت خیز کوششوں کی پیچھے دراصل جنگ ہی کا خوف ہے۔مگر ایک دلچسپ اور سنگلاخ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کے دل خوف سے خالی ہو گئے ہیں۔پڑوس میں لگی آگ سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم اس آگ میں جل رہے ہیں۔ نہیں چاہتے کوئی اور بھی جلے۔ مگر کیا کوئی اور بھی یہ چاہتا ہے۔؟ فقط چاہنے سے بھی کیا فرق پڑجائے گا؟

مسئلہ کشمیر کے غیر فطری حل کی تلاش میں ہم نے سب کچھ گنوا دیا۔سر ظفراللہ خان پاکستان کے قابل ترین وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا کیس اتنے اچھے طریقے سے لڑا کہ اس کی مثال ملنا محال ہے۔ کشمیریوں کے حق ِ خود ارادیت کو محدود و مشروط کرنے میں انہوں نے ہی بنیادی کردار ادا کیاتھا۔ سر ظفراللہ خان کی اسی عظیم خدمت نے کشمیر بارے پاکستان کو دوزانو کر رکھا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج ستر سال گزرنے کے بعد بھی کسی کو اس کا ادراک نہیں۔جنرل اسد درانی کو ہوا تھا، جس کے اظہار پر انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔اس لیے جنہیں حقیقت کا ادراک ہے وہ بھی مہر بہ لب ہیں۔جن معاشروں یا قوموں میں لوگوں کو اس قدر ڈسپلن میں رکھا جائے، یقیناً  ان کا مستقبل بہت تابناک ہوتا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آزاد کشمیر میں انتخابات ہوئے مگر وزیر اعظم منتخب نہ ہو سکے۔ہم ہر گز ا س کے دعوے دار نہیں کہ منتخب ہو نے والا تعینات ہونے والے سے زیادہ مختلف ہوتا ہے ، مگر پارلیمانی روایات اور عوام کی آراء کی بھی کبھی کوئی حیثیت ہوتی تھی۔ مگر شاید اس دور میں جب آنکھوں میں حیا ہوتی تھی۔ہم وزیر اعظم آزادکشمیر کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں ’بزدار‘کا لقب دینے سے گریزاں ہیں۔حتیٰ کہ اگرانہوں نے خود کو ’بزدار‘ ثابت کربھی لیا، ہم مارے شرم کہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔مگرانہیں بزدار نہ کہہ پائیں گے۔افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیری قیادت پرکبھی اعتماد نہیں کیا گیا۔شیخ عبداللہ کے ساتھ بھی1947ء سے پہلے ایسا ہی ہوا تھا۔جس کے نتیجے میں وہ مجبوراًدوسری طرف گئے۔ آزاد کشمیر کی اس چھوٹی سی پٹی اور اس کی ”حاضر جناب“ قیادت سے پاکستان کی قیادت کا خوف اگر ختم نہیں ہوا تو سمجھ لیجیے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ آزاد کشمیر کو اپنے اور بھارت کے بیچ ایک بفر زون سمجھتے ہیں۔سادہ زبان میں بفر زون کو ڈھال کہا جا سکتا ہے۔یہ دفاع کی ایک گوریلا اسٹریٹیجی ہے۔مگر یاد رکھیے، ڈھالیں ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب ڈھالوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہو رہی ہو۔آزادکشمیر (کے علاقے اور لوگوں)پر ایک اچٹتی نگاہ، حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے۔مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حقیقت کا اظہار ہمیشہ بیناؤں پر ہی ہوا ہے۔واضح رہے کہ یہاں بات کسی سیاسی جماعت، فرد یا ادارے کے تناظر میں نہیں، تاریخ کے تناظر میں ہورہی ہے۔ تاریخ کا یہ سفر کشمیریوں اور اس خطے کو کس سمت لے کر جا رہا ہے، اس کا اندازہ کرنا شاید زیادہ مشکل نہیں ہے۔ایسے سفر میں جس کی صعوبتیں اب ہمیں مقدر لگنے لگی ہیں، کسی سے کیا شکوہ۔ اپنے نصیب کے کانٹے ہم اپنی پلکوں سے چن رہے ہیں۔ خاموش بھی ہیں، پر زبان حال پہ سوال تو ہے کہ یہ کانٹے کس کس نے بچھائے ہیں۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ حالیہ صدی کے سب سے بڑے مزاحمت کار سید علی گیلانی یہ کہتے کہتے گئے کہ ”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے“۔ان حالات پر مومن خان مومن کا یہی شعر صادق آتا ہے کہ
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے / ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply