ہجر کا نم۔۔شاہین کمال

گلستان جوہر تو خود اپنی ذات میں ایک شہر بن گیا ہے، اپارٹمنٹس کا جنگل ۔ کبھی کبھی تو یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ شاید یہی میدان حشر ہو گا، لوگ ہی لوگ ایک جم غفیر ہے۔
آج کل گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو گئی ہیں اور ان دو مہینوں کی چھٹیوں میں کریش کورس کروانے کی اچھی رقم مل جاتی ہے۔ میں پراویٹ اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ میرے پاس چونکہ سائنس کے مضامین ہیں اس لئے ٹیوشن آسانی سے اور پیسے بھی نسبتاً اچھے مل جاتے ہیں۔ پیسہ جو سب کی ضرورت ہے
بلکہ اب تو مانو اَن داتا ہی ہے۔
“کھل جا سم سم”
ہر قفل کی چابی اور شاید ہر غم کا مداوا بھی ۔
میں اور یوسف اپنے تینوں بچوں کے مستقبل کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے اپنی زندگیوں سے رنگ کشید کئے جا رہے ہیں۔ سخت محنت نے جہاں میرے  روپ کو گہنایا ہے وہیں میرے یوسف کو بھی جھلسا دیا ہے۔ جب کبھی میں اپنی شادی کی تصاویر دیکھتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ تو اپنی پرچھائی بھی نہیں رہے ۔ ہم جو اپنے خاندان کے سب سے خوبصورت کپل کا اعزاز رکھتے تھے وقت کی گرد باد میں دھول ہو رہے ہیں ۔ اولاد کی محبت تو اپنا کچھ بھی رہنے نہیں دہتی حتی کہ اپنا آپ بھی۔
جوہر موڑ سے اس گھر تک جہاں میں ٹیوشن  پڑپڑھانے جاتی ہوں، کا پیدل سفر کوئی تیس پینتیس منٹ کا ہے۔ پیدل چلنا میرا شوق کم اور مجبوری زیادہ ہے کہ اسٹاپ سے ان کے گھر تک رکشے والا تیس پینتیس روپے مانگتا ہے۔ ویگن اور رکشے کا کرایہ ملا کر آتی جاتی تقریباً سو ڈیڑھ سو روپے روز کرائے کی مد میں خرچ کرنا میری بچت اسکیم کی ایسی کی تیسی کر دیتا سو پیدل ہی چلنے میں عافیت تھی۔ ویسے بھی گرمیء حالات کا دم پخت دھوپ کی شدت کی شکایت کیا ہی کرے گا سو دھوپ کی تو برداشت ہے ۔
بس اس سفر میں ایک بہت مشکل امر ہے۔ اگر آپ کا کبھی اس راستے سے گزر ہوا ہے تو شاید آپ کو میری بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ جب آپ جوہر سوئٹس کے اسٹاپ پر ویگن سے اتر کر حرمین ٹاور والی سڑک سے اندر کی طرف آتے ہیں تو آپ کو کنکریٹ کا ایک لامتناہی سلسلہ ملتا ہے۔ ان آپارٹمنٹ بلڈنگ کے نچلے
حصوں میں دکانیں ہیں، دودھ دہی، بیکری، پنساری، سبزی قصائی، نائی، درزی، الیکٹریش، پلمبر، لوہار، پان والا، مرغی والا، حلوا پوری والا، غرض دکانیں ہی دکانیں اور لوگ ہی لوگ بیچنے والے اور خریدنے والے لوگ۔ اس بھری پری سڑک سے گزرنا گویا پل صراط سے گزرنا ہے۔
آپ جیسے جیسے آگے بڑھتی جائیں گی آپ کے پاؤں شل ہوتے جائیں گے۔
وجہ؟
وجہ کشش ثقل نہیں بلکہ وہ کنکھجورے جیسی آنکھیں ہیں جو آپ کے جسم کے چپے چپے پر رینگ رہی ہوتی  ہیں۔ شرمندگی اور اذیت شاید جسم کا بوجھ بڑھا دیتی ہے۔ اس سڑک پر بارہ تیرہ منٹ کی واک بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔ اتنی کہ دل چاہتا ہے کہ اس عرصے کو اپنی حیات ہی سے منہا کر دیں۔
خیر غریب کی زندگی کی جمع پونجی ہی   کتنی؟
اس میں ہوتا ہی کتنا کچھ ہے جو منفی بھی کیا جائے ؟
ننگا نہائے کیا اور نچوڑے کیا؟
“مرضی” اس چار حرفی لفظ کا ہماری زندگیوں میں گزر کہاں؟
ہم زندگی جیتے کب ہیں بس زندگی ہم پر سے گزرتی چلی جاتی ہے۔
ہاں تو میں اس سڑک کی روداد سنا رہی تھی۔ مزے کی بات یہ کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے عبایا پہنا ہوا ہے یا آپ نے محض ڈوپٹے کو اپنے گرد لپیٹا ہوا ہے۔ آپ میم صاحب ہیں یا ایک معمولی ملازمہ یا بھکارن، بس جنس عورت شرط ہے۔
وہ لیزر گائیڈیڈ نگاہیں آپ کے وجود کو قاش قاش کئے بغیر نہی پلٹتیں۔ یہ اسی ایک سڑک کی کہانی نہیں ہر پر ہجوم جگہ کا یہی رونا ہے۔ بنت حوا کو ان چبھتی نظروں سے کہیں
امان نہیں۔
پیمائش میں مختصر مگر عذاب میں طویل ترین سڑک ایک موڑ لیکر نسبتاً کم رش والی سڑک میں تبدیل ہو جاتی ہے کیونکہ اس سڑک پر موجود اپارٹمنٹس اور اس کی دکانیں ابھی آباد نہیں ہوئیں تھیں۔ ہاں ہاں! آپ ٹھیک سمجھے وہی شہر خموشاں تک لے جانے والی سڑک ۔ کہانی اسی موڑ کے بعد والی سڑک پہ شروع ہوئی تھی ۔
وہ مہینے کی تیسری جمعرات تھی اور دو ویگنوں کے مابین ہونے والے تیز رفتاری کے خطرناک مقابلے کے نتیجے میں میں قدرے جلدی پہنچ گئی تھی۔ میں ممکنہ حادثے سے بج جانے پر خیر مناتی ہوئی تیز قدموں سے چلی جا رہی تھی کہ قبرستان کی پاس والی مسجد، “مسجد اویس قرنی” کی بند دکان کے تھڑے پر وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں   سے  ایک جو کم عمر اور بہت خوب رو تھا زار و قطار رو رہا تھا۔ اس کے رونے میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جس نے میرا دل پانی کر دیا تھا۔ ان کے قریب جانا دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا کیونکہ وہ عام طور پر چورنگیوں اور لال ہوتے سگنل پر گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے، کھڑکیوں کے شیشے تھپتھپاتے میک اپ سے لتھڑے نظر آنے والوں سے کافی مختلف تھے۔ میں دل پر جبر کر کے اس تھڑے سےآگے نکل تو آئی مگر پھر دل کی دہائی پر پلٹ آئی۔ میرے قریب آنے پر دونوں بڑی عمر کے مخنث کچھ چوکنے اور مضطرب سے ہو گئے پر کم عمر اسی شدت سے روتا رہا۔ میرا سفر چونکہ بہت لمبا ہوتا ہے یعنی ناگن چورنگی سے گلستان جوہر بلاک١٩ تک، سو میں پانی کی چھوٹی بوتل ساتھ ہی رکھتی ہوں اور عموماً میری بوتل یہاں تک پہنچنے پر خالی ہو جاتی ہے مگر آج آدھی بوتل پانی سے بھری ہوئی  تھی۔ میں نے کچھ کہے بغیر بوتل کا ڈھکن کھول کر بوتل اس کے آگے کر دی۔ بوتل سے ہوتی ہوئی اس کی نظریں مجھ تک آئی اور وہ ایک بار پھر سے پھپھک کررونے لگا یا لگی(؟) ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھ سے رہا نہیں گیا۔ مجھے لگا میرا منو (منور) میرے سامنے بلک رہا ہے۔ میں نے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور دوبارہ بوتل سامنے کر دی۔ اس بار اپنی قیمتی اور صاف ستھری قمیص کے دامن سے ناک پوچھتے ہوئے لمحہ بھر میں اس نے بوتل خالی کر دی۔
کاہے رو رہے ہو؟
“میا مر گئی  ہے۔”
ساتھ بیٹھے بھاری بدن مگر میک اپ  سے مبرا چہرے والے نے جواب دیا۔ جو مردانہ چہرے کے ساتھ زنانہ کپڑوں میں کچھ زیادہ ہی عجیب لگ رہا تھا۔
میرے دل پر جیسے گھونسا لگا۔
ہاں بیٹا میا (ماں) مرے تو رونا تو بنتا ہے۔
یہ فیضان کی کہانی ہے جو اس نے آنسوؤں اور آہوں کے درمیان سنائی۔
اس کا نام ماں نے یقیناً بڑی چاہ سے فیضان رکھا ہو گا پر اب تو اس کے بگڑے نصیب کی طرح نام بھی بگڑ کر فیضا عرف برفی ہو چکا تھا۔ وہ کبھی حنا بینگلوز کا مکین تھا۔
سترہ سال پہلے وہ شیخ عبداللہ کریم صاحب کے گھر رب کریم کی طرف سے پانچویں اولاد بنا کر اتارا گیا تھا۔ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے بعد سکینہ اپنی گھر گرہستی میں مصروف بڑی بیٹی ارم کے جہیز کے سامان جوڑنے میں مشغول تھیں جو اب خیر سے سترہویں سال میں قدم رکھ رہی تھی۔ سفید پوش گھرانوں میں بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی گھر میں جستی پیٹی بھی آ جاتی ہے، جس میں ککڑی جیسا قد نکالتی ہوئی بیٹی کا جہیز بھی آہستہ آہستہ جمع ہوتا جاتا ہے۔ کچھ دنوں سے سکینہ کا جی ماندہ ماندہ، کچا کچا سا تھا۔ یہی گمان تھا کہ بلڈ پریشر لو ہوگیا ہو گا۔ الٹیاں لگی تو خیال گزرا کہ باسی سالن کھا لیا ہے۔ پھر جب ڈاکٹر تک رسائی ہوئی تو پتہ چلا کہ لو! اب جگ ہنسائی کا پورا سامان تیار ہے۔
دس سال بعد ان کے گلشن میں ایک اور پھول کھلنے جا رہا ہے۔ حیرانگی، شرمندگی عجب طرح کے جذبات کی یلغار تھی۔ خاندان میں نکو بنی، آس پڑوس میں تمسخر کا نشانہ بھی ۔ جوان ہوتی لڑکیوں سے آنکھیں ملانا بھی دشوار لگا جی تو چاہا کہ ڈھیروں ڈھیر ہلدی پی جائیں یا ڈاکٹرنی سے پیٹ صاف کروا لیں مگر خوف خدا آڑے آیا۔ بچیاں آنے والے مہمان کے متعلق جان کر بہت پر جوش تھیں۔ ان کے لئے وہ آنے والا کھلونا ہی تو تھا۔ بچیوں کے مثبت ردعمل کے بعد سکینہ کی شرمندگی میں کچھ کمی واقع ہوئی۔
پھر وہ دن آیا کہ وہ ننھا وجود اس بے مہر دنیا میں آیا۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔۔ سب کچھ ختم ہو گیا۔
وہ خوبصورت معصوم وجود، اس کا تعلق تیسری جنس سے تھا۔ اس ننھے وجود نے سب کو سکتے کی کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ گھر میں مرگ جیسا سوگ تھا۔ سب سے پہلے سکتے کی کفیت سے باہر آنے والے شیخ عبداللہ کریم تھے۔ شیخ عبداللہ کریم اس کی جنس جاننے کے بعد کریم اور ستار نہ رہے بلکہ جبار و قہار بن گئے کہ اللہ کے مومن بندے تھے پنج وقتہ نمازی پرہیز گار اور اللہ کی سب صفتیں مانے والے۔ سو فیضان کے لیے انہوں نے قہار و جبار کا روپ دھار لیا۔ ماں بیچاری سکینہ اپنی سکینت کی مسکین لیرو لیر چادر سے جتنا اس کمسن کو ڈھک سکتی تھی ڈھکتی رہی مگر کب تک؟
بات گھر سے نکلی اور چوبارے چڑھی۔ حسب توفیق دنیا نمک دان بنی۔ جتنے چرکے، جتنے زخم لگا سکتی تھی لگایا اور بھس میں چنگاری ڈال کر ایک بچے کے بچپن کو خاکستر کر دیا۔ شیخ صاحب سے وہ ننھا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا۔ ان کو وہ اپنی مردانگی کی ہتک لگتا تھا۔ ان کے عتاب کے خوف سے ارم اس کو پچھلے کمرے میں رکھتی تھی۔ جب تک اس نے چلنا نہیں شروع کیا تھا اس کو لوکانا چھپانا آسان تھا۔ چلنا سیکھنے کے بعد تو وہ بہت شریر ہو گیا تھا۔ نچلا بیٹھنا جانتا ہی نہ تھا۔ مگر ساری شرارت اور شوخی شیخ صاحب کے گھر میں قدم رکھنے سے پہلے تک ہوتی۔ اس کے نین نقش بڑے تیکھے تھے، بادامی ترچھی کھنچی آنکھیں جن پر پلکوں کی دراز چلمن۔ دودھ میں سیندور گھلا رنگ۔ جو اسے دیکھتا وہ قدرت کی صناعی پر دم بخود رہ جاتا۔ عادت کا پیارا من موہنہ بچہ۔ بہنیں ہی خیال رکھتی اور اس کے واری صدقے جاتیں۔
ارم کو بیسواں سال لگا تو رشتے بھی آنے لگے کہ حسن اس گھرانے کی میراث تھا ۔ مگر ہر رشتے کے انکار کے وجہ فیضان بنا۔ اس بات نے شیخ صاحب کے جبر و قہر کو مزید مہمیز کیا۔ ان کی فیضان سے نفرت بڑھتی چلی گئی اور دوسری قیامت یہ تھی کہ ہیجڑوں کی بستی میں فیضان کے حسن کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور آئے دن کوئی نہ کوئی گرو یا خان ان کی چوکھٹ پر دست سوال لیے کھڑا ہوتا اور محلے والوں کی تمسخرانہ مسکراہٹ جلتی پر تیل ڈال دیتی۔ شیخ صاحب جلبلا کر اس ننھی سی جان کو دھنک کر رکھ دیتے۔ وہ ہنستا کھیلتا بچہ اب مرجھانے لگا تھا۔ فیضان سات سال کا تھا جب ارم کے لئے آنے والے لوگ فیضان کی اصلیت جان کر پلٹ گئے۔ اب صرف ارم ہی نہیں تھی،نجم بھی قد میں اس کے برابر آ کھڑی ہوئی تھی اور شیخ صاحب بیٹیوں کی شادی کی فکر میں گھلے جا رہے تھے۔ وہ ہر نقصان، ہر مشکل کا سبب فیضان کو گردانتے۔
انہیں بے رحم دنوں میں شاہ زمان خان پشاور سے نوٹوں سے بھرا بریف کیس لیکر ان کے دروازے پر آیا۔ جانے یہ شیخ صاحب کی بےبسی کی انتہا تھی یا دولت کی چمک کی چکاچوند یا تقدیر کا بےدرد لمحہ؟
بس فیصلہ ہو گیا۔
سودا طے پا گیا۔
فیضان کی قسمت کا فیصلہ و سودا شیخ  صاحب شاہ زمان خان کے ہاتھوں کر چکے تھے۔ ان کو کلنک کا یہ داغ ہر قیمت پر اپنے ماتھے سے دھونا تھا اور یہاں تو قیمت بھی بہت اچھی مل رہی تھی۔ بس آڑے آتی تھی تو ممتا۔ اب ممتا کی مصیبت یہ ہے کہ وہ عورت کے کے پنجر میں محصور اور عورت کی کم نصیبی یہ کہ وہ سر تا پا قید۔ یہاں تو چار بچے اور بھی تھے۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا۔4:1 کی ممتا اور 100% زوجہ۔ کتنا مقابلہ کرتی ہار گئی ۔ بلکتی ممتا کے سامنے شاہ زمان اس کے جگر کو ایسے جھپٹ کر لے گیا جیسے شکرا چوزے کو۔ مگر ماں زیادہ مقابلہ نہیں کر سکی اور اس ایک کی محبت ان باقی چار پر فوقیت لے گئی۔ ممتا کے اصول بھی تو سارے وکھڑے ہی ہوتے ہیں۔ اسی اولاد کو سب سے زیادہ چاہے گی جو کمزور ہو، بیمار یا لاچار ہو۔ تو یہاں بھی لاچار فیضان ممتا کی بازی جیت گیا اور ماں صرف تین سال کے قلیل عرصہ میں زندگی ہار گئی ۔
شاہ زمان نے اس کو شان سے پالا، اس پر اچھی انوسٹمنٹ کی کہ مستقبل میں سود سمیت وصولنا تھا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا برفی کے مجرے کی کمائی سے اس نے اپنی شان و شوکت کو دو بالا کیا ۔ فیضان پچھلے چھ سالوں سے اپنے چاہنے والوں کی دل بستگی کا سامان فراہم کر رہا ہے۔ کسی بہت شاندار کارکردگی کے انعام کے طور پر خوش ہو کر شاہ زمان نے حاطم طائی کی قبر پر لات ماری اور کہا کہ
“مانگ کیا مانگتا ہے؟”
اس بےبس نے ماں کی جھلک مانگی۔ وہ محافظوں کے ساتھ کراچی بھیجا گیا مگر اب اس گھر کے مکین اور لوگ تھے۔ شیخ عبداللہ کریم بیوی کی وفات کے بعد گھر بیچ کر کراچی کی بھیڑ میں گم ہو گئے تھے ۔ ماں کو آس تھی کہ لخت جگر لوٹے گا ضرور سو وہ انتظار میں وہیں پیوند خاک ہوئی۔
اب وہ گورکن کے ہاتھ پر پانچ ہزار کا پتہ دھر کے ماں کی ڈھیری کی زیارت کر کے آزردہ بیٹھا ہے۔
بلکتا ہوا سترہ سالہ فیضا نہیں وہی سات سال کا فیضان۔
اگلے دو دن وہ مجھے قبرستان کے دروازے سے لگا کھڑا نظر آیا۔ میں نے پوچھا کہ تم دروازے پر کھڑے ہو کر کیوں فاتحہ پڑھتے ہو؟
قبر کے پاس کیوں نہیں جاتے۔
کہنے لگا نہیں باجی میں نجس ہوں۔ میرا وجود اس لائق نہیں کہ میں قبرستان یا مسجد کی چوکھٹ پھلانگ سکو۔
میرا دل کٹ گیا۔
ہم ظالموں نے اپنی کاملیت کے زعم میں اللہ تعالیٰ کی اس بے بس مخلوق سے باعزت زندگی جینے کا حق ہی چھین لیا۔ ان لوگوں کے لئے جسم فروشی اور بھیک کے علاوہ زندگی کرنے کا کوئی اور کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں۔
مجھے اچھی طرح سے اپنے بچپنے کے صادق چچا یاد ہیں، جن کا تعلق بھی اسی تیسری جنس سے تھا۔ وہ ہم لوگوں کے سامنے والے برکت چچا کے گھر میں ڈرائیور تھے۔ برکت چچا کا گھر بہت باپردہ تھا اور ان کی تینوں بیٹیوں کو اسکول کالج لانے چھوڑ نے کی  ذمہ داری صادق چچا کی تھی۔ برکت چچا کے گھر صادق چچا کی بقیہ ملازمین سے زیادہ عزت و تکریم کی جاتی تھی۔ وہ شام میں واپسی سے پہلے اکثر ہم بچوں کو کہانیاں بھی سناتے تھے ۔ ان سے کبھی ڈر نہیں لگا اور نہ ہی محلے والے ان سے اچھوتوں جیسا سلوک کرتے تھے۔
میرے بزرگ بتایا کرتے تھے کہ حرم پاک اور مسجد نبوی میں پانی پلانے کی زمہ داری اسی تیسری جنس(مخنث) کے سپرد تھی۔ مسجد نبوی کی صفائی اور دروازے کو کھولنے اور بند کرنے کے  ذمہ دار بھی یہی لوگ تھے۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں کے ذاتی محافظ یہی لوگ ہوتے تھے۔
ہم لوگ ان بےکسوں کو جانوروں سے بھی کمتر گردانتے ہیں۔ خبیث ذہنی بیماروں نے ان کو تفریح کی شے بنا ڈالا ہے۔ ان کی عزت نفس کو پامال کر دیا اور زندہ متحرک انسان کو انسانیت کے درجے پر فائز رکھنے کے بجائے عزلت کی پستی میں دھکیل دیا ۔
اللہ کی بےبس مخلوق کی اس قدر تحقیر؟
اللہ تعالیٰ کو تو اپنی ساری مخلوق بہت عزیز ہے۔ وہ کریم تو سب کا خالق و رب ہے۔ روز محشر اس ظالمانہ اور بدصورت معاشرتی روئیے کا کیا جواب ہو گا ہمارے پاس؟
محبت میں خدا نے کی خلق مخلوق یہ ساری
ابھی بھی پوچھتے ہیں کہ شریعت میں محبت ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply