تھوکنا چاہتا ہوں(ایک غصیلی نظم)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مری چشم بینا سے پٹّی تو کھولو
مجھے دیکھنے دو
یہ کیا ہو رہا ہے؟

یہاں جنگ کی آگ میں جلتے ملکوں سے
بھاگے ہوئے مرد و زن، صد ہزاروں
سمندر کی بے رحم لہروں میں غرق ِ اجل ہو رہے ہیں۔

یہاں لاکھوں افراد بمبار گِدّھوں سے بچنے کی خاطر
ادھر سے اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں۔

یہاں چار سڑکوں کے سنگم پہ
بجلی کے کھمبوں سے لتکے ہوئے مردہ تن
اپنی بے نور ٓآنکھوں سے ہر آتے جاتے ہوئے مرد و زن کو
یہ تنبیہہ کرتے ہوئے جھولتے ہیں
ـ بچو  ان درندوں سے، گر تم میں ہمت ہے
بھاگو یہاں سے

یہاں بے زباں باقیات زمانہ
ہمارے پر اسرار ماضی کی سب بے بدل یادگاریں
زمیں بوس ملبے کے ڈھیروں میں اوندھی پڑی ہیں۔۔

یہ کیا ہو رہا ہے؟

یہاں چین سے آمدہ وائرس نے
ہر اک سمت دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں
بڑے بوڑھوں، بچوں ، جواں مرد و زن کو
فقط دو ہی برسوں میں مرگ آشنا کر دیاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے اب نہ روکو
کہ یہ نظم لکھ کر
میں لقوہ زدہ وقت کے ٹیڑھے منہ پر
بہت زور سے تھوکنا چاہتا ہوں!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply