محبت کُھرک ہے۔۔سلیم مرزا

گھوڑے اور احمق والے کھیل میں جب بھی پھونک مارنے کا وقت آیا میں نے گھوڑا بننے کو ترجیح دی ۔پہلی پھونک ہمیشہ میری ہی ہوتی تھی ۔۔
بس ایک بار ہار گیا، کیونکہ اس بار پائپ کے دوسری طرف گھوڑا نہیں تھا ۔گھوڑی تھی ۔
اور دوائی بھی اتنی ساری دے گئی کہ پچیس برس گزر گئے ،ابھی تک آرام ہے ۔
مغلوں کی تاریخ کے مطابق وہ میری پہلی اور آخری منگیتر تھی ۔اس کے بعد میری منگنی کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی، میں نے ڈائریکٹ شادی کی ۔اور شادی کے بعد میں اتنا ہی شریف ہوگیا جتناصاحباں کے بھائیوں سے اگر بچ جاتا تو مرزا ہوسکتا تھا ۔ویسے میں اس منگنی کے معاملے میں اتنا ہی قصوروار تھا جتنا موجودہ حکومت کے معاملے میں آپ ہیں ۔منگنی سے پہلے میرے اپنی منگیتر کے ساتھ تعلقات ہر طرح کے سائنسی تجربات سے پاک تھے ۔ہم دونوں تو ایک دوسرے کی کیمسٹری بھی نہیں جانتے تھے ۔میں نے میٹرک آرٹس میں کیا ہواتھا اور وہ فزکس میں فیل تھی ۔
میرے پچھواڑے ٹانگ مار کر بھاگنے والی منگیتر میری اکلوتی محبت کی واحد رازدار تھی ۔۔اس زمانے میں رازدار اتنا ہی ضروری ہوتا تھا جتنا ففتھ جنریشن وار میں سرکاری میڈیا سیل ۔
رازدار کے پاس ہر اس کام کی خبر ہوتی تھی جو کبھی نہیں ہوتا تھا ۔
لیکن میری سیدھی سچی ماں عاشقوں کی “لُتڑ کُتڑیاں “کہاں سمجھتی تھی ۔

دل ٹوٹا تو سوئی گرنے کی سی آواز بھی نہ آئی ۔ماں پھر بھی سمجھ گئی کہ کچھ ٹوٹا ضرور ہے ۔
انہوں نے کچن میں جھانکا تو وہاں رازدار میرے ہی گلے لگ کے رو رہی تھی ۔
ماں کو دیکھ کر وہ بھاگ گئی اور میں پکڑا گیا ۔

ماں کہنے لگی “پت سلیم ،مجھے کچھ ہوگیا تو تیری شادی نہیں ہونی ۔تونے کروانی نہیں، میرے جیتے جی تو کسی کھونٹے سے بندھ جائے تو میں اس آخری ذمہ داری سے بھی سرخرو ہوجاؤں۔ ”
کہاتو اور بھی بہت کچھ ۔۔کافی جذباتی ڈائلاگ تھے، میں معصوم مشرقی رودیا ۔۔

ماں سے بچھڑنے کا تصور ہر جاندار کے  لئے جان لیوا ہوتا ہے ۔مگر ہم لڑکوں کے نصیب میں ہمیشہ ممتا بھری چھاؤں کہاں ۔؟
یہی صدیوں کا چلن ہے اور یہی رسم ۔
چپ چاپ سر جھکادیا ۔
اور منگنی ہوگئی ۔جو صرف دوسال چلی ۔
منگیتر جاتے جاتے کہہ گئی کہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ گزارہ ہوسکتا ہے،ٹوٹے ہوئے انسان کے ساتھ نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا تو ہاسا ہی نکل گیا ۔عجیب بات ہے جب بھی کچھ ایسا ہوتا ہے میں فرض کرلیتا ہوں کہ یہ میں نہیں ہوں ۔یہ سب وکی کے ساتھ ہورہا ہے ۔وکی ہے ہی اس قابل ،میں تو سلیم ہوں اچھا بچہ ۔
نہ میں نے عشق کیا اور نہ منگنی ۔ ۔
ربیعہ کے ساتھ میری منگنی نہیں ہوئی ۔میری ماں نے رسک ہی نہیں لیا ۔
ایک جمعہ ہم گئے
ایک  جمعہ وہ آئے
وہیں گیارہ تاریخ طے ہوگئی ۔فریقین کو گھر جاکر پتہ چلا کہ اس دن شب برات ہے ۔
تاریخ چھ دسمبر ہوگئی ۔
اب کون یقین کرے گا کہ وہ میری زندگی کی آخری شب ِ برات تھی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply