مصور(2،آخری حصّہ)۔۔افتخار بلوچ

ناصر نے اپنی انگلیاں اپنے ہی بالوں میں ڈال کر تیزی سے گھما دیں اور خود ہی بول اٹھا یہ اصل تصویر ہے حقیقی معنوں میں میرا چہرہ جو مکمل طور پر میری زندگی کا عکاس ہے۔ اُس پر اداسی نے حملہ کر دیا تھا وہ بوجھل نظروں سے تصویر کو دیکھتا اُس کی طرف بڑھا اور اُس نے بکھرے ہوئے سیاہ بال بنا دیے اُسے تصویر سے بیزاری ہونے لگی۔ وہ کرسی پر بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا۔ رات گزرتی رہی ناصر کتاب پڑھتا رہا۔ کچھ وقت کے بعد اُسے کتاب سے بیزاری محسوس ہونے لگی مصنف نے کوئی ایسی بات نہیں لکھی تھی جو ناصر کے مزاج سے میل کھاتی ہو۔

اگلی صبح ناصر کی آنکھ تو کھل گئی مگر وہ اور سونا چاہتا تھا اُس نے تصویر کی طرف ایک نظر دیکھا نامکمل تصویر جس میں پریشانی کا عنصر ابھرتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ اُس نے سوچا کیوں نہ کمپنی کو کال کر کے پتہ کیا جائے کہ نوکری کے حوالے سے اُن لوگوں نے کیا سوچا؟۔
وہ فون پر نمبر ملانے لگا مگر کمپنی کے متعلقہ آدمی نے اُسے مایوس کر دیا انہوں نے کسی اور کو چن لیا تھا۔
ناصر زیر لب بڑبڑاتے ہوئے دوبارہ سو گیا۔ کافی دیر بعد جب اُس کی آنکھ کھلی تو باہر عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ ناصر نہا دھو کر آوارہ گردی کرنے چلا گیا۔ رات دیر تک وہ سڑکوں پر پھرتا رہا لوگوں کو دیکھتا رہا شہر کی رونق میں دل لگانے کی کوشش کرتا رہا۔

رات جب گہری ہو گئی تو وہ کمرے میں واپس آیا اُس کی افسردگی میں اضافہ ہو چکا تھا اور فرار کا تسکین کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ آخرکار اُس نے تصویر کی آنکھیں بنانا شروع کی دیں۔ اُس نے شیشے میں اپنی آنکھیں دیکھیں، پلکوں کا اندازہ لگایا ابرو دیکھے آنکھوں کی چمک کا اندازہ لگانے کی کوشش کی مگر تصویر کی آنکھوں میں افسردگی بھرنے کی کوشش کرنے لگا۔ بہت دیر تک انگلیاں چلانے کے بعد اُسے محسوس ہوا کہ اب تصویر کی آنکھیں اس قابل ہیں کہ ویرانی کی عکاسی کر سکیں۔ اُس نے سوچا کیوں نہ آنکھ سے ڈھلکتا ہوا آنسو بھی بنایا جائے مگر خود ہی اُس نے یہ کام کرنا پسند نہ کیا وہ معنویت کا بڑا قائل تھا۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ یہ تصویر دیکھنے والا نظر نہ آنے والے آنسو بھی دیکھے۔ تصویر مکمل کرنے کے ارادے کو التوا میں ڈال کر اُس نے ایک اور کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا۔

اگلے دن کی دوپہر ہو رہی تھی مگر ناصر ایسے سویا ہوا تھا جیسے کئی صدیوں تک جاگنے کے بعد اب اُسے ذرا فرصت ملی ہو۔ اُس کا فون بج اٹھا۔ اُس نے ایک آنکھ کھول کر فون کی سکرین دیکھی تو اُس کے چھوٹے بھائی باقر کی کال تھی۔

“ہاں باقر کیا ہوا” ناصر نے کال ریسیو کر کے کہا اُس کی آواز سے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کال سننا ہی نہ چاہتا ہو۔
“بھائی! باجی کی منگنی ٹوٹ گئی ہے جس کی وجہ سے امی کو ڈیپریشن کا اٹیک ہوا ہے آپ جلدی گھر آئیں” باقر کی آواز بکھرنے کے قریب تھی۔
ناصر کی نیند کافور ہو گئی۔ فکر کا ایک دریا اُس کے دماغ میں بہنے لگا جس کی رفتار میں ناصر کی اپنی ذات بہہ گئی۔

آدھی رات بیت چکی تھی جب وہ گھر پہنچا۔ دیکھا تو سارے لوگ جاگ رہے ہیں اور امی کے پاس بیٹھے ہیں مگر سائرہ نظر نہیں آ رہی۔ سائرہ ناصر کی چھوٹی بہن تھی جو یونیورسٹی سے گریجویشن کر رہی تھی۔ ناصر نے ماں کے سامنے جانے سے پہلے سائرہ سے ملنا مناسب سمجھا اور سائرہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔ ناصر نے سائرہ کے کمرے میں جا کر دیکھا تو وہ رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ سائرہ کی نظر ناصر پر پڑی تو وہ دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی اُس نے آنسو بھی پونچھے مگر آنسو جاری رہے۔ ناصر نے سائرہ کو تسلی دی اُسے مسکرانے کو کہا اور ماں کے پاس چلا گیا۔ وہ سفر سے آیا تھا مگر تھکن کی جگہ فکر اُس کے چہرے پر نمایاں تھی۔ ماں نے جیسے ہی ناصر کو دیکھا وہ خوش ہونے لگی۔ بار بار اُس نے ایک ہی بات کہی
“یہ سارے بھی چلے جائیں اب تو پردیس نہیں جائے گا تیرے بغیر میرا دل بہت گھبراتا ہے”۔

ماں کو سمجھاتے سمجھاتے رات بوڑھی ہو گئی۔ جب رات کے ماتھے پر چاندی ابھرنے لگی تو ناصر ذرا سستانے کے لیے بستر پر دراز ہو گیا مگر نیند اُس سے کوسوں دور تھی۔ وہ اپنے خاندان اور اپنے مستقبل کے امکانات سوچتا رہا۔
صبح ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ناصر نے باقر کو الگ لے جا کر پوچھا
“انہوں نے منگنی توڑنے کی کوئی خاص وجہ بتائی ہے؟ ” اُس کی آواز میں تفکر نمایاں ہو گیا تھا۔
“نہیں بس اتنا ہی کہا کہ لڑکا اب نہیں چاہتا۔ مجھے تو لگتا ہے اُسے کوئی اور لڑکی پسند آ گئی ہے”۔ باقر نے غصے کا ابتدائیہ بنتے ہوئے کہا۔

ناصر کے دل میں الفاظ کا طوفان پیدا ہو گیا مگر وہ چھوٹے بھائی کے آگے کچھ بولنے سے قاصر تھا۔ اُسے بار بار ایک خیال آتا تھا کہ آخر خوشی کے لیے یہ گھر ممنوعہ علاقہ کیوں بن گیا ہے اُسے قسمت سے گلے ضرور تھے مگر طبیعت کی انصاف پسندی اپنی خرابیوں کا ادراک بھی کروا دیا کرتی تھی۔ منگنی ٹوٹنے سے اُس کے خاندان کی عزت پر داغ آ چکا تھا اور یہ داغ اُس وقت تک رہنا تھا جب تک سائرہ کے بال سفید نہ ہو جائیں!

اُسے گھر آئے ہوئے دو دن گزر گئے تھے وہ سارا دن اپنی ماں کو اور سائرہ کو سمجھاتا رہتا یہ کوشش اُس کی اپنی طبیعت پر بوجھل پن پیدا کر دیا کرتی تھی۔ باپ کی اداسی اور فکر اس کا دل اور جلاتی مگر وہ کر بھی کیا سکتا تھا وہ بے بس تھا جزوی اختیار کا کوئی قلمدان اُسے عطا نہیں ہوا تھا۔

اگلے دن دوپہر سے کچھ پہلے کا وقت تھا جب اُس کا فون بجنے لگا۔ ناصر نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف موجود شخص نے اسے بتایا کہ وہ ایک کمپنی سے بات کر رہا ہے اور کل بارہ بجے آپ کا انٹرویو ہے۔ ناصر ایک حقیقت پسند آدمی تھا اُس نے سوچا ہو سکتا ہے یہ لوگ مجھے نوکری دے دیں یوں میری والدہ کی پریشانی تھوڑی کم ہو جائے۔ اُس نے باقر کو مشورے کے لیے بلایا تو باقر نے اس کے جانے کی شدید مخالفت کی اور گھر کی صورتحال کو سامنے رکھ کر دلائل دیتا رہا مگر ناصر کو امید نے جکڑ لیا تھا وہ تھوڑی دیر بعد گھر سے روانہ ہو گیا۔

پانچ چھ گھنٹے کے سفر میں وہ صرف یہ سوچتا رہا کہ اُس کی غیر موجودگی میں امی کیا سوچتی ہونگی؟ کہیں وہ اور پریشانی کا شکار نہ ہو جائیں۔ نجانے باقر امی کو سمجھا بھی پائے گا یا نہیں؟ ۔ کئی سوال ناصر کے ذہن میں سر اٹھاتے رہے مگر وسیلہ روزگار کی امید نے اس کا سفر جاری رکھا۔

اگلی صبح وہ وقت پر انٹرویو دینے پہنچ گیا۔ انٹرویو لینے والا اس سے مختلف سوالات پوچھتا رہا ناصر نے جن کے معقول جوابات دیے۔ انٹرویو ختم ہونے کے بعد اُس نے خاص طور پر گذارش کی کہ اُسے جواب سے جلد از جلد آگاہ کر دیا جائے ساتھ اپنی مشکالات کا بھی بتایا۔ متعلقہ افسر نے ناصر کی گزارشات سن کر کہا کہ وہ لوگ ناصر کو کل صبح تک اطلاع دے دیں گے۔
ناصر کو ایک اور رات اپنے کمرے میں گزارنی پڑی۔ بکھری ہوئی کتابیں اور نامکمل تصویر۔

اُس کا ذہن مسلسل سائرہ اور ماں کی حالت کا طواف کر رہا تھا۔ بے یقینی اس کے رگ و پے میں گردش کرنے لگی تھی مگر وہ پر امید تھا کہ اُسے نوکری مل جائے گی اور یوں گھر کی مخدوش صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ رات گزرتی جا رہی تھی آخر اُسے تنہائی نے بیزار کرنا شروع کر دیا۔ وہ کہاں جائے؟ کسے جا کر بتائے؟ کب تک سارا غبار اپنے اندر رکھے؟ وہ مسلسل سوچتا رہا کہ کیسے زندگی کو بہتر کیا جاسکتا ہے؟ کوئی جواب نہ بن پڑنے پر آخر اس نے تصویر مکمل کرنے کی ٹھان لی۔ وہ اٹھا ایک بار پھر اس نے شیشے میں دیکھا اور خود کو کاغذ پر اتارنے لگا۔ رات بہت دیر کے بعد اُس نے تصویر مکمل کر لی تھی۔
بکھرے ہوئے بال، اداس آنکھیں اور نیم وا ہونٹ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔
تصویر مکمل کرنے کے بعد اطمینان کی کنکری نے فکر کی جھیل میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی مگر خود ہی گہرائیوں میں گم ہو گئی ناصر بھی سو گیا۔

اگلی صبح اٹھتے ہی اُس نے کمپنی میں کال کی تو اُسی شخص نے جواب دیا کہ ” ہم معذرت خواہ ہیں ہم نے ایک اور موزوں گریجویٹ کو چن لیا ہے آپ حوصلہ نہ ہاریں اور امید رکھیں”۔
ناصر کا دماغ گھومنے لگا۔ امید کا آسمان اداسی کے صحرا میں دفن ہو گیا۔ ناصر نے فون میز پر رکھا اور دیواروں کو دیکھنے لگا۔ اُس کی نظریں کسی جگہ نہیں رک رہی تھیں اور ہونٹ کانپ رہے تھے کہ اُس کی نظر تصویر پر رک گئی۔ ناصر تصویر کی طرف بڑھا تصویر کے سامنے پہنچنے تک کئی گالیاں اُس کے ہونٹوں سے گزر گئیں اور ایک آنسو رخسار تک پہنچا ہی تھا کہ ہاتھ سے مسلا گیا۔
تصویر کے نیم وا ہونٹوں پر ناصر کے ہاتھ رقص کرنے لگے۔ جب وہ کام سے رکا تو تصویر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔ مسکراتے ہوئے ہونٹ جن کے پیچھے دانتوں کی سفیدی نظر آ رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ناصر نے پیچھے مڑ کر ایک نظر تصویر کو دیکھا اپنا سامان باندھا اور گھر روانہ ہو گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply