کھیلن کو مانگے چاند(1)۔۔شاہین کمال

مجتبٰی صاحب میں کینٹین جا رہا ہو ہوں جلدی سے آ جائیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔
ہاں تم پہنچو! میں بس آیا کہ آیا۔
میں نے تیزی سے فائل سمیٹتے ہوئے جواب دیا۔
آج کیا ہے خاصے میں جناب؟
یار عظیم تم بہت لکی ہو، کیا کھانا بناتی  ہیں بھابھی۔ مزے ہیں بھئی تمہارے۔
خیر آپ ناشکری نہ کریں ۔
بھابھی بھی کم مزے کا نہیں بناتیں۔ عظیم نے مسکراتے ہوئے بدلہ چکایا۔ اور ہم دونوں نے اپنا اپنا ٹفن کیریئر کھول کر ٹیبل پر سجا دیا۔
یوں سمجھیے کہ کینٹین کی ٹیبل پر یہ میری اور عظیم کی روز کی گفتگو تھی۔ ہم دونوں کھانا گھر سے لاتے تھے۔ اس مہنگائی میں باہر کا کھانا سفید پوش کب افورڈ کر سکتے ہیں؟
شکر ہے ہماری مل میں کھانا سبسڈی ریٹ پر ملتا تھا پھر بھی جیب پر اضافی بوجھ پڑ ہی جاتا تھا، اس پیسے میں گھر کی کئی  ضروریات پوری ہو جاتیں۔
میں نے تو مارے کفایت کے فاطمہ کی پیدائش کے بعد سگریٹ اور کبھی کبھار کا شوقیہ پان کھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بس دو بچوں کا باپ کیا بنا کہ دل مارنے کا فن خود بخود آ گیا۔ اولاد کی محبت بڑی جان دار ہوتی ہے کیا کچھ کروا لیتی ہے۔
اپنی ماؤں کے شہزادے باپ بنتے ہی اپنی اولاد کے لئے ٹانگے کا گھوڑا بن جاتے ہیں۔

میری شریک حیات شائستہ، بس یہاں ایک گڑبڑ ہے جب تک اس نیک بی بی کو غصہ نہیں آتا تب تک بلاشبہ شائستہ لیکن اگر جلال چڑھ گیا تو جناب ساری شائستگی گئی بحر اوقیانوس میں۔ شائستہ بتاتی ہیں کہ ان کے اجداد جلال آباد سے تھے۔ اس بیان پر اگر میں لمحے بھر کو بھی شک کروں تو یقیناً کافر کیونکہ ان کا جلال واقعی جلالی ہے۔
خیر کی بات بس یہ تھی کہ زوجہ شارٹ ٹمپرڈ تو ہیں پر اس ٹمپر کا دورانیہ بھی شارٹ ہی رہتا ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ اس اڑتیس سالہ رفاقت میں ہم دونوں کے جھگڑوں نے کبھی دوسری صبح کا منہ بھی دیکھا ہو۔ شائستہ کی سب سے اچھی عادت یہ تھی کہ رات سونے سے پہلے ہر بکھیڑا سمیٹ کر سوتی تھی۔ چاہے وہ بکھرا ہوا گھر ہو یا ہمارا آپس کا جھگڑا۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اس نے مجھے اتنا پیمپر کیا تھا کہ میں کبھی کبھی بے وجہ بھی اس سے روٹھ جاتا تھا تا کہ وہ مجھے منائے گویا
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں۔

اب تو خیر دونوں ہی بوڑھا گئے ہیں سو نہ وہ طنطنہ رہا ہے اور نہ وہ جلال اب سب ہی کچھ ہے روبہ زوال۔ ہماری تو خاموشی بھی اب گویائی رکھتی ہے۔ وہ جب پلنگ پر میرے استری شدہ کپڑے رکھتی ہے تو میں کپڑوں کے رکھنے کے انداز سے ہی اس کی اندرونی کیفیت بھانپ لیتا ہوں اور وہ میری چال اور منہ کے زاویوں سے میرا دفتر میں گزارے سارے دن کی روداد جان لیتی ہے ۔ اس کے مزاج کی دھار بھی اب کند ہو گئی ہے پر راز کی بات بتاؤں وہ غصے میں اس قدر بامحاورہ گفتگو کرتی تھی کے سننے میں مزہ آتا تھا۔ اچھی گزر گئی ہم لوگوں کی۔
شائستہ کھانا تو اوسط بناتیں تھیں پر گھر کی  صفائی ستھرائی اور بچوں کو کچھ بنانے کے جنون میں مبتلا تھیں۔ میرا بڑا ساتھ دیا اس نے۔ گھر پر ٹیوشن کی، سیلائی بھی کی اور اس اضافی آمدنی کو اس نے بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا۔

احمد نے سیفی پولیٹیکنک سے ڈپلومہ لیا اور فاطمہ نے بھی گورنمنٹ کالج سے بی۔ ایس۔ سی کیا۔
دوسرا سب سے اچھا فیصلہ شائستہ کا کہ فاطمہ کی ڈگری مکمل ہونے سے پہلے کسی قیمت پر بھی وہ اس کی شادی کے لیے راضی نہیں ہوئی حالانکہ میرے چچازاد بھائی اور بڑے بھیا اس وجہ سے ناراض بھی ہوئے۔ خاندان میں بدمزگی بھی ہوئی مگر یہ اپنے موقف سے ایک انچ نہیں ہٹی۔ میں مرد ہوتے ہوئے اتنے دباؤ پر گھبرا گیا تھا۔ مگر شائستہ کی ایک ہی رٹ تھی کہ ٹھیک ہے اگر فاطمہ کا نکاح کرنا ہے تو میں تیار ہوں مگر رخصتی ڈگری سے پہلے نہیں ہو گی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ واقعی اس نے صحیح کیا۔ آج فاطمہ اسکول میں وائس پرنسپل ہے، بی۔ ایس۔ سی کے بعد اس نے فاطمہ کو بی۔ ایڈ کے لئے بھی راضی کر لیا تھا۔ جب فاطمہ کی شادی ہوئی تھی، اس وقت فاطمہ بی۔ ایڈ کر رہی تھی اور شائستہ نے فاطمہ کے سسرال والوں سے طے کروا لیا تھا کہ فاطمہ بی۔ ایڈ مکمل کرے گی۔ اس دوران میرا نواسہ سرمد پیدا ہوا، شائستہ نے ہی اس کو پالا تاکہ فاطمہ آسانی سے اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔

پھر فاطمہ نے ماں کے تعاون سے ایم۔ اے اور ایم۔ ایڈ بھی کر لیا۔ اسی طرح شائستہ بہو بھی بڑی اچھی چن کے لائی، نکہت لائقِ اور سمجھدار لڑکی ہے۔ گھر بسانے والی سلجھی ہوئی طبیعت کی۔ اللہ کے کرم سے میری بیٹی اور بیٹا دونوں اپنی اپنی ازدواجی زندگیوں میں خوش ہیں۔
شائستہ پارہ صف عورت ہے نہ خود چین سے بیٹھتی ہے اور نہ دوسروں کو بیٹھنے دیتی ہے۔ اب بہو کے ساتھ مل کر گھر میں ٹیوشن سنٹر چلا رہی ہے۔ کوشش ہے کہ اتنا جوڑ لے کہ اوپری منزل بن جائے۔ اب تک تو آپ لوگوں کو بھی اندازہ ہو ہی گیا ہو گا اس لئے میں خود ہی اقرار کر لیتا ہوں کہ میں شائستہ سے obsessedہوں۔ گوڈے گوڈے اس کے عشق میں مبتلا۔ اس نے حقیقی معنوں میں میرا ساتھ نبھایا ہے۔ زندگی میں اونچ نیچ تو آتی ہی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ میں اپنی بیماری کے سبب بےروزگار بھی رہا، کنبہ برادری بھی ہماری بڑی تھی مگر شائستہ خوش اسلوبی سے سب کچھ نبھاتی رہی۔ اس نے ہر ہر مرحلے پر میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا ۔

ہم لوگوں کی شادی کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ میری ماموں زاد بہن یاسمین کی شادی تھی۔ اماں اور میں ابھی ماموں کی ڈیوڑھی پر پہنچے ہی تھے کہ ایک رکشہ پھٹپھٹاتا ہوا دروازے کے سامنے آ کر رکا۔ اس میں سے شائستہ کی اماں، بہن اور شائستہ برآمد ہوئیں۔ میری نظر شائستہ پر پڑی اور پھر “گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی” ۔ اسی وقت اس کے قریب سے ایک لڑکا جان بوجھ کر اس کے شانے سے رگڑ کھاتا ہوا گزرا۔ غصہ تو مجھے شدید آیا مگر میرے کچھ بھی سوچنے سے پہلے ہی یہ بجلی طرح کڑکی اور کھینچ کے ایک تھپڑ لگایا اس لفنگے کو۔ یہ سارا منظر اماں نے بھی دیکھا۔

اندر جا کر پتہ چلا کہ یہ یاسمین کی جگری سہیلی ہے۔ شائستہ کی خوش مزاجی اور بیاہ کے کاموں میں بھرپور مدد اور سلیقے طریقے نے اماں کو موہ لیا اور انہوں نے ممانی سے شائستہ کا سارا حدود و اربعہ معلوم کر لیا اور تو اور شائستہ کی اماں سے بھی سکھاپا جوڑ لیا اور جناب اماں نے بھی ہتھیلی پر سرسوں جمانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جھٹ منگی پٹ بیاہ رچا دیا میرا۔ اماں کا یہ فیصلہ میرے حق میں بہترین تھا۔ اماں بھی جب تک حیات رہیں، ان کو بہو سے ایسی کوئی بڑی شکایت نہ تھی۔ اماں کی کوششوں سے شائستہ کے کھانوں میں بھی ذائقہ آ چلا تھا۔
میں اماں کی پانچویں اولاد تھا۔ مجھ سے پہلے اماں کے چار مس کیرج ہو چکے تھے ۔

دادی نے بچے کی زندگی کی حفاظت کے خیال سے اماں کو تعویذوں سے لاد دیا تھا۔ پر میری باری میں جانے اماں کے جی میں کیا آیا کہ ایک دن اٹھیں اور سارے  تعویذ اور دھاگے اتار دیے اور دو نفل پڑھ کر سجدے میں گر کر رو رو کر اپنے بچے کی سلامتی کی دعائیں مانگیں۔ بس اللہ تعالیٰ کو بھی رحم آ گیا اور میری ولادت ہو گئی۔ اماں نے اپنی حیات کے آخری دن تک میری زندگی کےشکرانے کے دو نفل پڑھے، روز میری زندگی کے لئے شکرانے کے دو نفل پڑھنا ان کا معمول تھا اور مرتے ہوئے یہ زمہ داری وہ شائستہ کو سونپ گئیں کہ ان کے بعد شائستہ ہر روز میری زندگی کے لئے شکرانے کے دو نفل پڑھے۔
یہ مائیں بھی کیا چیز بنائی ہے مالک نے۔
ان کی محبتوں کا حساب ممکن ہی نہیں۔ یہ ایسا ادھار ہے جسکا سود اولاد کبھی چکتا نہیں کر سکتی۔ یہ بہی کھاتہ تو اماں حوا کے وقت سے کھلا ہے اور شاید روز حشر ہی بند ہو۔
اب تو ہماری نیا بھی گھاٹ آ لگی ہے اور پار اترنے کا سمے آ گیا ہے۔ میری دعا تو یہی ہے کہ میں پہلے جاؤں کہ شائستہ کے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا، قطعی معذور ہوں۔ گو کے یہ میری خودغرضی ہے، مگر میں واقعی اس کے بغیر لاچار ہوں۔ مگر یہ چالاکو بھی یہی دعا مانگتی ہے کہ وہ سہاگن اٹھے۔ اب دیکھئے مولا کس کی سنتے ہیں۔

لیجیے کہانی عظیم کی سنانی تھی اور میں الجھ گیا اپنی کتھا میں۔
عظیم اور میرا آٹھ سال کا ساتھ ہے۔ وہ سنئیر کلرک ہے اور میں اب مینیجر۔ عظیم کم گو اور لئے دئیے رہنے والا انسان ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر بات کرتا ہے اور اس کی باتوں میں دانش اور درویشی ہوتی ہے۔
ایک دن لنچ بریک میں مجھے کینٹین میں کہیں جگہ نہیں ملی بس عظیم کی ٹیبل پر ایک کرسی خالی تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور اس کے اخلاق کا گرویدہ ہو گیا۔ پھر یہ معمول ہو گیا کہ ہم دونوں ساتھ ہی کھانا کھاتے اور جب ہم نے آپس میں کھانا شئیر کرنا شروع کیا تو میں تو اس کے کھانوں کے ذائقے کا اسیر ہو گیا۔ عظیم کی بیگم زہرہ بلاشبہ اپنے فن میں طاق تھیں ۔ اس کے دو بچے تھے۔ بیٹی بیاہ کر کوئٹہ چلی گئی تھی اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بہو اور دو پوتے اور ایک پوتی رہتے تھے۔ عظیم بھٹو کالونی میں رہتا تھا۔ عظیم کی جو سب سے اچھی بات مجھے لگتی تھی وہ اس کا اپنی فیملی سے بےانتہا لگاؤ۔ وہ اپنے گھر والوں کا ذکر ایک جذب کے عالم میں کرتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply