• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امام بارگاہیں اور ان کی تاریخ(1)۔۔ تحریر و تحقیق: سید فیضان عباس نقوی

امام بارگاہیں اور ان کی تاریخ(1)۔۔ تحریر و تحقیق: سید فیضان عباس نقوی

اسلام میں اولین عبادت گاہ مسجد قرار پائی ،اسلام کی سب سے اولین مسجد،مسجد ِ قبا بنی اس کے بعد مسجد نبوی اور مسجد حرام، مسجد قبلتین جیسی عظیم الشان مساجد تعمیر ہوتی آئیں جس کے بعد اسلام تیزی سے پھیلتا گیا اور دنیا بھر میں لاکھوں مساجد تعمیر ہوئیں ان میں بہت سی  مساجد ملک کے بادشاہوں، نوابوں،وزیروں، امراء نے بھی اپنے شوق سے تعمیر کروائی ہیں۔ جن کے فنِ تعمیر اور شان و شوکت کی وجہ سے ان کے ذوق کی عکاس ہیں۔خطہ عرب سے مبلغین، صوفیاء کرام، اولیاء کرام وغیرہ اسلام کی اشاعت کی غرض سے دنیا بھر میں پھیل گئے اور اپنے کردار اور تعلیمات سے لوگوں کو  اسلام سے روشناس کروانے لگے ،اس طرح کفر کدے توحید کے اعلان سے گونجنے لگے۔

اس وقت تک مسجد ہی واحد عبادت گاہ ہوا کرتی تھی لیکن اس کے بعد مسجد کے ساتھ ایک اسلامی درس گاہ کا قیام بھی عمل میں آیا جو کہ اسلام کی تعلیمات دینے کے لئے بنایا جاتا تھا۔اس کے ساتھ ہی غیر ملکی طلباء کے رہنے کے لئے کمروں کا اضافہ ہوا۔ اس طرح صوفیاء کرام نے خانقاہ کے کلچر کو فروغ دیا۔ جس کا ہندو معاشرے پر بہت گہرا اثر ہوا۔ اس کی وجہ کہ مسجد کا احترام انتہائی حد تک لازم ہوتا ہے۔ اس طرح ہی خانقاہ، مدرسہ کے ساتھ ہی امام بارگاہ کا اضافہ ہو ا۔

امام بارگاہ کی اصطلاح عام طور اہل تشیع کے ہاں استعمال کی جاتی ہے۔ امام بارگاہوں کی تاریخ کا تذکرہ کرنے سے قبل امام بارگاہ کے متعلق شبہات دور کرنا بہت ضروری ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اہل سنت و دیگر مسالک کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ شیعہ حضرات کے ہاں مساجد کی جگہ امام بارگاہ تعمیر کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے اکثر فسادات میں مخالفین کے عناد کا شکار بھی سب سے پہلے امام بارگاہ ہی بنتی آئی ہے۔لفظ امام بارگا ہ عام طور پر اس مقام کو کہا جاتا ہے جہاں ایام محرم میں مجالس عزا کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جہاں تمام اہل تشیع حضرات سوگ کے دنوں میں سینہ زنی و ماتم کی رسومات انجام دیتے ہیں۔اہل تشیع میں مسجد کے بعد مقدس ترین مقام امام بارگاہ ہوتی ہے۔

امام بارگاہ جس مقام پر بنائی جاتی ہے اس کو حضرت امام حسین ؑ کے نام وقف کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کا نام کسی بھی شہدائے کربلا میں سے کسی کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کا مالک متولی کہلاتا ہے۔ اس جگہ کی خرید و فروخت نہیں کی جا سکتی۔ اس کو امام بارگاہ کہا جاتا ہے۔ یعنی امام ؑ کی بارگاہ۔ جبکہ اس کے علاوہ امام باڑے کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جو کہ نہایت نا مناسب لفظ ہے جو کہ مخالفین کی جانب سے رائج کرنے کی کوشش کی گئی۔اما م بارگاہ دراصل ایک کمیونٹی سنٹر کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ امام بارگاہ کے مرکزی ہال میں ایام عزا میں مجالس عزا اور خوشی کے ایام میں جشن اور میلاد کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ علاقے میں فوتگی کی صورت میں جنازہ اور شادی وغیرہ کے پرو گرامات بھی منعقد ہو تے ہیں۔ محرم کے آنے سے پہلے ماہ ذی الحجہ کے آخری دنوں میں امام بارگاہوں کی تزین و آرائش اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔امام بارگاہ میں عام طور پر تعزیہ، علم مبارک (جھنڈا) شبہیہ گہوارہ حضرت علی اصغر، شبہیہ تابوت حضرت علی اکبر ؑ اور شبہیہ ذوالجناح برآمد کی جاتی ہے۔ یہ شبہیات ہر شہید سے منسوب کی جاتی ہیں۔محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں امام بارگاہوں میں عشرہ محرم الحرام کی مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں نامور علما  کرام اور ذاکرین عظام واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین ؑ کے عزیز و اقارب اور ساتھیوں کی شہادت کو پرسوز انداز میں بیان کرتے ہیں جسے سن کر حاضرین پر شدید رقت طاری ہو جاتی ہے۔

جب حضرت امام حسین ؑ نے یزید کی غیر اسلامی حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس اموی دور حکومت میں نواسہ رسول پر لشکر کشی کی اور میدان کربلا میں حضرت حسین ؑ کے خاندان کے افراد کے علاوہ دوست احباب سمیت 72 افراد کو شہید کر دیا۔ کربلا سے اس خونی حادثے کے بعد شیعوں نے کربلا کے واقعے کی یاد کے طور منانا شروع کر دیا۔ اور آنے والے سالوں میں ایک پختہ اور صحیح شکل اختیار کر گئی۔آئمہ کرام نے واقع کربلا کو زندہ رکھنے خاصی تاکید کی اور اس کے واقعات لکھنے اور بیان کرنے کی روایت ڈالی۔ خاندان رسول ؐ اور اُ نکے ماننے والے حکومت کی نظر میں رہتے تھے۔ انکو کربلا کے واقعات چودہ سو سال بعد آج اتنی بڑی ہونے والی تقریبات میں بدل گئے۔عزاداری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مجالس کا اہتمام خود امام حسین ؑ کے بیٹے جو کربلا میں بیمار ہونے کی وجہ سے بچ گئے تھے اور انکی بہن حضرت زینب ؑ نے کیا۔ جس میں ان پرہونے والے مظالم بیان کئے جاتے تھے۔امام بارگاہ کی اصطلاح دراصل عزاداری سید الشہدا حضرت امام حسین ؑ سے مستعمل ہے۔امام بارگاہ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے واقعہ کربلا کے بعد خاندان اہل بیت ؑ کوقید کر دمشق دربار یزید میں پیش کیا گیا جہاں ان کو پورا ایک سال تنگ سی کوٹھڑی نما خرابے میں قید رکھا گیا۔ پھر ایک سال بعد جب انہیں رہا کیا گیا تو سب سے پہلے یہی شرط رکھی گئی کہ ہمیں ایک مکان دیا جائے جہاں ہم اپنے شہداء کا سوگ منائیں گے اور ماتم کریں گے لہذا خاندان اہل بیت نے اس مکان میں تین روز قیام کیا اور بی بی زینب شام کی خواتین جو انکے شہدا ء کا پرسہ دینے آتی ان کو مصائب کربلا سناتیں۔اس طرح تاریخ کی پہلی امام بارگاہ یہ مکان قرار پائی جس میں سب سے پہلے باقاعدہ طور پر مجلس عزا منعقد ہوئی اور عزاداری منعقد ہونا شروع ہوئی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply