شکور جان کی شعری کائنات(1)-منصور ساحل

جو لو گ حقیقی اور اور یجنل قابل ہوتے ہیں وہ حیات کے ہر میدان میں اتر جائے جیت ان کے قدم چومتی ہے استاد محترم شکور جان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے۔شکور جان ظاہری و باطنی طور پر نہایت خوشگوار انسان ہیں۔ انسیت،انسانیت، جذباتیت،دو جذبیت،انانیت ،کیفیاتی شدت،فکریاتی بلندی اور سماج کے ہمدردانہ محرکات شکور جان کی حیاتیاتی و شعریاتی کائنات کا مرکز ہیں۔ شکور جان کے شعر اور مزاج کی بنت ہی ایسی ہے کہ یہ ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوتی ہے جس طرح وہ شعر میں حساس اور دردمند ہیں تو صحبتِ یاراں میں وہ بلند قہقہہ و مزاحیہ رویوں کے مالک ہیں۔

شکور جان اپنی تخلیقی سطح کی ترقی و ترویج کے لیے مشینی و بناوٹی پن سے گریز کرکے تخلیقی و فطری پن کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس لیے نئے نئے موضوعات اور متنوع تخلیقی امکانات کے در وا ہوجاتے ہیں جن سے یہ شعری نظام تصوراتی اور حسیاتی نوعیت کے سوالات قاری کے سامنے رکھتا ہے ۔شکور جان کی شاعر ی میں عشق ایسی دنیا کی مانند ہے جس میں مرنا،گزرنا،لڑنا اور سہنا روایتی ساخت و وجودیات سے نکل کر ایک دوسری صورت کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں۔
اس ایک داستان میں مرنا پڑا مجھے
دیکھو یہ سخت کام بھی کرنا پڑا مجھے
اس نے کہا کہ تم سے محبت کبھی نہ تھی
یہ سن کے اپنے آپ سے لڑنا پڑا مجھے
تنہائیوں کے غم کا میں عادی نہ تھا شکور
لیکن کسی کے عشق میں سہنا پڑا مجھے
شکور جان کے نزدیک اس کائنات کی بڑی سپر پاور اور سکونیاتی مرکز عشق و محبت ہی ہے ۔ان کی یہ رومانوی دنیا خوابوں کی بنیاد پر قائم ہے ان خوابوں کا شر چشمہ و منبع خواہش کی عدم تکمیلیت میں محسوس کردہ کرب و دکھ کی وہ صورتحال ہے جو سماج سے زیادہ فرد کے باطن و احساساتی احتجاج سے عبارت ہے۔اور یہ احتجاج آزمانے ،نبھانے اور گنگنانے کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے ۔
تمہیں اپنا بنانا چاہتا ہوں
میں خود کو آزمانا چاہتاہوں
پرندے لوٹ کر آتے نہیں ہیں
میں تم کو یہ بتانا چاہتا ہوں
تم اپنے غم مجھے اک بار دے دو
اسے میں گنگنانا چاہتا ہوں
شکور جان ایسے شعرا میں سے نہیں ہیں جو رات بھر کی ہنگامیت میں پوری غزل یا نظم مکمل کرلیں بلکہ وہ انسان ،کائنات اور سماج کے متعلقات پر گہرے تامل کے بعد شعر تخلیق کرتے ہیں ۔ اس کی مثالیں ان کے اشعار سے واضح ہیں جن میں انسانی بے رخی ، عاشق کی خودداری ، ضبط کی منطقی دلیل اور آزمائش جیسے تفکرات سامنے آتے ہیں

میں تھوڑی دیر ہواؤں کی دسترس میں رہا
پھر اس کے بعد محبت بھی چھوڑ دی میں نے

بات کرنی ہے مگر بات نہیں ہوسکتی
تجھ سے اب میری ملاقات نہیں ہوسکتی
تو نے ایک بار محبت کو سبوتاژ کیا
اب دوبارہ سے شروعات نہیں ہوسکتی
شکور جان کے ہاں فکری تازگی بھی ہے اور تجزیات کی بو قلمونیاں و غنائیت بھی۔ موضوعات کے تنوع ، اسلوب کی دلکشی و دلربائی اور فن کی پختگی شکور جان کو اپنے ہم عصروں میں نمایاں مقام عطا کرتی ہے ان کا شعری سفر نہایت زور و توانائی سے جاری ہے اشعار ملاحظہ کیجیے۔

کتاب زیست کا عنوان یہ تھا
وہ میرا تھا مگر ، میرا نہیں تھا
میں جذبوں کے سمندر میں اترتا
مگر وہ شخص تو ڈوبا نہیں تھا

انگلی دبا کے روح کو تسکین مل گئی
لیکن تمہیں خبر ہے؟ کہ تم قتل کر چکے

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply