سعودی بلکہ حجازی کہہ لیں، مصنفہ رجاء عالم جو مکہ سے تعلق رکھتی ہیں، ان کا یہ ناول اک کمال ہے جو حجازی خواتین کی نسلوں کے لیے ایک خوبصورت تحفہ ہے، رجاء عالم کی بطور ناول نگاری کے فن کی دنیا کے جانچنے کے لئے یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ وہ اس نسب سے تعلق رکھتی ہیں جس خاندان کی جڑوں سے ہی نجیب محفوظ جیسی مشہور ومعروف ہستی کا تعلق ہے اور معروف احمد عبدل جواد کا بھی تعلق ہے، یہ ناول بیک وقت حقائق پر مبنی بھی ہے اور خیالی بھی ہے، یہ حال بھی کہہ رہا ہے اور ماضی بھی، یہ ارضی دنیا بھی سمیٹے ہوئے ہے اور دوسرے جہانوں کو بھی، یہ زندگی اور موت دونوں کی سرحدوں کو ملاتی کیفیت کا بیان ہے، اس میں تمام جہان سمٹے ہوئے ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں، جیسے ہر ربط کو ایک مربوط سمت میں سمیٹ لیتا ہے، یہ نسلوں کا سفر ہے جو متضاد جہانوں میں بدلتی دنیاؤں میں اپنے کرداروں کے شعور میں ایک ایسی یکجائی پر قائل کرتا ہے جس میں ہر شے مربوط ہو جاتی ہے کوئی شے الگ نہیں رہتی۔ جیسے دنیا سے الگ بھی کوئی دنیا نہ ہو جیسے وقت خود وقت سے آزاد نہ ہو، سب ایک لمحہ حاضر میں موجود ہوں اور شعور کے ہر لمحے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں۔
اس ناول کا بیانیہ ہی عجیب ہے، جس کی دنیا میں رحم بھی ظلم کے ساتھ ہے، محبت نفرت کے ساتھ، معافی انتقام کے ساتھ، محرومی کے ساتھ خواہشیں، تسلیم کے ساتھ انقلاب کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ دنیا میں تضادات اکٹھے ہو کر لوگوں میں خوشیوں اور غموں کے احساس کو پیدا کرتے ہیں، یہ ناول خاص طور پر بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اہل مکہ سے تعلق رکھنے والی خواتیں کا پس منظر دکھاتا ہے۔ جو حجاز کے سماجی وجود میں بڑی تبدیلیوں کا دور بنا۔ رجاء عالم نے مکہ کی ایک بہت ہی مخصوص تصویر پینٹ کی ہے، بلکہ مکہ کے ایک خاندان کی، اس کی قبائلی شاخوں اور نسلوں کے ساتھ، وہاں کے مردوں، عورتوں اور عورتوں کے ساتھ ان کی اولاد کا ربط دکھایا ہے، اس ربط کا استحکام تبدیلیوں کے ساتھ، وہاں کی زندگیوں کے ساتھ، جو کہ سردار خاندان ہے، طاقت، دولت اور وقار رکھنے والا ایک قدیم خاندان، جو قدیم نسلوں سے چلا جاتا ہے، جب اس کے آباؤ اجداد میں سے ایک مکہ کے حکمران تھے، ناول میں جو کردار ہے وہ اس عہد کا موجودہ والد مصطفیٰ السردار ہے جہاں خاندان میں باپ بغیر کسی مبالغے کے خدا کی جگہ لیتا ہے۔
مصطفیٰ السردار، جو سب کی زندگیوں کے فیصلے کرتا ہے، شادی اور طلاق کے فیصلے دیتا ہے، یعنی ایک لحاظ سے یہ زندگی اور موت دیتا ہے۔ اُس کے کلام کا اختیار ہر ایک پر پھیلا ہوا ہے۔ پھر وہ چاہے بیویاں ہوں یا خادمہ، بچے ہوں یا پوتے، بالغ اور بچے، مرد اور عورتیں، گھر میں اور گھر سے باہر۔ ہر کوئی اس کی بادشاہی میں رہتا ہے، اس کی تعریف کرتا ہے اور اس کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے، وہ اس کی وراثت کے پیسے اور طاقت کے لالچ میں رہتے ہیں اگر وہ مرد ہوں، تب وہ ان زخموں کو چاٹنے کے لیے جیتے ہیں جو اس کی طاقت نے ان پر لگائے ہیں اگر وہ عورتیں ہیں تو ساری زندگی صرف غلامی میں جیتی ہیں۔ رجاء عالم کا یہ ناول “باھبل” حجاز کی خواتین کی نسلوں کے لیے ایک یادگار ناول ہے، جس میں مصنف مکیہ المولد نے اپنے سے پہلے کی نسلوں سے کہے گئے اور گواہی دینے والے ورثے کے ایک بہت بڑے ذخیرے کو یاد کیا ہے، جن سے وہ سعودی معاشرے میں بالعموم اور حجاز اور مکہ میں بھی خاص طور پر بڑی تبدیلیوں کے ادوار سے گزری۔
یہ ناول بیسویں صدی کی چالیس کی دہائی سے مکہ کی سماجی زندگی پر نظر رکھتا ہے، جب یہ خطہ اب بھی نیم قرون وسطیٰ کے دور سے جدید دور کی طرف منتقلی کے دہانے پر تھا۔ آج کا دور، لیکن یہ ایک ایسا دور تھا جس میں مردوں نے اب بھی خواتین کو غلام بنایا ہوا تھا، ناول کے سب سے اہم کرداروں میں سے ایک وہ خود جسے اس نے اپنے غلامی میں جنم لیا، یہ وہ دور تھا جس میں ابھی تک اس معاشرت میں گدھے ہی آمدورفت کا اہم ذریعہ تھے، لگژری کاریں نہیں تھیں، یہ وہ دور تھا جس میں عورتیں بازار یا تعلیم نہیں جانتی تھیں، وہ دور تھا جس میں مرد کسی مخصوص لڑکی سے شادی کرنے کو نہیں کہتے تھے، بلکہ مصطفیٰ السردار کو اپنی بیٹیوں میں سے کسی کے ساتھ شادی کرنے کو کہا جاتا تھا اور یہ مصطفی السردار کا فیصلہ ہوتا تھا کہ کس سے شادی کرنے کا انتخاب کیا جائے گا، ایک ایسا دور جس میں اپنی بیٹیوں پر ایک طاقتور باپ کا اقتدار ان کی شادی کے بعد بھی جاری رہتا ہے، وہ ان کے شوہروں کو حکم دے سکتا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو جب چاہے اور کسی بھی وجہ سے طلاق دے دے، خاندان کی عورتیں زندگی سے خالی زندگی گزارتی ہیں، گھر کی چاردیواری کے اندر ایک تاریک زندگی، وہ زندگی جس میں گھر کی چھت پر صرف ایک گھنٹہ روشنی ہوتی ہے۔ جذباتی یا جنسی تکمیل کی خواہش سے عاری زندگی گزارتی ہیں، یا بیرونی دنیا کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت سے محروم رہتی ہیں۔ جو اپنے باپ کے گھر اور اس کے من مانی حکمرانی کے ساتھ جیتی ہیں، مرتی ہیں اور بالاخر مر ہی جاتی ہے۔
مصنفہ رجاء عالم نے ناول کے مرکزی کردار ایک لڑکی جس کی شادی اس کے والد کے فیصلے سے ہوتی ہے ، وہ شخص ہم جنس پرستی کی شہرت سے معروف ہوتا ہے، اور یہ شادی صرف چند ہفتے ہی چلی تھی، تو وہ اسے چھوئے بغیر طلاق دے دیتا ہے- پھر جب وہ آدمی مر جاتا ہے، تو یہ لڑکی کہتی ہے، “میں اسے معاف نہیں کروں گی، نہ دنیا اور نہ آخرت میں، نہ اسے، نہ اپنے والد اور نہ ہی اپنے بھائیوں کو۔” یہ پرانی معاشرے کو اس کے تمام اثرات کے ساتھ مذمت کرنے والا بیان ہے، جس میں شوہر، باپ اور بھائی، اس زمانے میں، اور ناول میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس عہد و زمان کی ہر عورت مظلوم تھی، اور ہر مرد کسی نہ کسی حیثیت سے ظالم اور ستمگر تھا۔ خاندانی عہدوں میں خواتین کا کوئی کنٹرول نہیں تھا، لیکن مصنفہ انہیں تعلیم کے بغیر بھی ذہنی طور پر اعلیٰ پیش کرتی ہے کہ خواتین سمجھدار اور زیادہ صبر کرنے والی، زیادہ فرمانبردار اور لچکدار ہوتی ہیں، ان کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کے باوجود ان میں تخیل، مہربانی اور ہمدردی رہتی ہے، جبکہ مرد با اختیار، جبر اور خود غرضی کے سوا کچھ نہیں۔ مصنفہ خواتین کرداروں کا ایک گروپ بناتی ہیں، جو سب ایک ہی خاندان سے ہیں، اور انہیں اس طرح پیش کرتی ہے کہ گویا وہ انہیں ذاتی طور پر زندگی میں جانتی ہے۔ اسی ناول میں مصنفہ کا ایک عجیب جملہ لکھتی ہیں کہ : “کیا آپ کے خیال میں مٹھاس ایک فرعونی راز ہے؟ ہمارے لوہے کے گھروں پر مجھ جیسی لڑکیوں کی ممی بنا کر رکھ دی گئی ہے” (ص 225)۔
ویسے ناول میں اگر مصنفہ نے عمومی طور پر مردوں کی دنیا کی ایک تاریک تصویر پینٹ کی ہے، تو وہ ہمیں مستقبل کے مرد کے لیے ناول میں ہی ایک اچھا نمونہ پیش کیے بغیر اختتام نہیں کررہی، ایسا مرد جو عورت سے بات کرتا ہے، یا وہ مرد جو عورتوں کی قدر کرتا ہے اور ان سے مساوی محبت کرتا ہے۔ اس ناول میں یہ مثال عباس/نوری کے کردار میں ملتا ہے، جو مصطفیٰ السردار کے پوتے، اور ان کی مظلوم بیٹیوں میں سے ایک کا بیٹا ہے۔ عباس/نوری نے ناول میں ایک بہت بڑا مقام حاصل کیا ہے جس کو پڑھے بغیر اس پر بحث کرنا ناممکن ہے،ںاول میں اس کردار کے دو نام ہیں، چونکہ وہ شیزوفرینیا کی ایک قسم کا شکار ہے، اس لیے ہر نام اس کے دو اطراف میں سے کسی ایک اظہار کی علامت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عباس/نوری نے اپنے نفسیاتی عارضے میں مردانہ شخصیت کی خصوصیات کو نسوانی شخصیت کے ساتھ جوڑ دیا ہے، نازک احساس، فن اور خوبصورتی کے لیے جھکاؤ، تصور کرنے کی صلاحیت اور ایک عملی روح کے ساتھ، مردوں کی طرح بازار کی زبان سے واقفیت اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت، تجارت میں کامیابی اور دولت پیدا کرنے کے قابل ہونا، اپنے بچپن سے لے کر جوان ہونے تک، عباس/نوری اپنی خالاوں اور ان کے نسوانی ورثے کے قریب رہا، ان کے ساتھ زندہ اور مردہ دنیا کے درمیان ان گرے سیریاز میں اپنا وجود بانٹتا دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، دوسری طرف، اسے اپنے والد، چچا اور کزنز سے سوائے تضحیک اور الزام تراشی کے کچھ نہیں ملتا، اور اس کی علمی فضیلت اور کامیابی بھی اسے وہاں عزت نہیں دلواتی، لیکن ناول میں واحد آدمی ہے جسے مصنفہ کی ہمدردی حاصل ہے، اور یہ اس کردار کے بارے میں مصنفہ کی تصویر کشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک جنس کے طور پر مرد کو اس کی ترقی میں نہیں ناپا جا سکتا، بلکہ اس کی جسمانی ساخت میں نسائی عناصر کی مقدار سے بھی جانچا جارہا ہوتا ہے۔
رجاء عالم کا ناول کوئی جاسوسی ناول نہیں ہے بلکہ سعودی عرب میں یہ ایک پہلی قسم کا ایک شعری اور علامتی ناول ہے، جس میں معاشرے کے فلسفے، دوغلے پن اور کرداروں کو ایک گھٹیا نقاب کے پیچھے سے بیان کیا جارہا ہے، یہ ناول موت کے جنون میں مبتلا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی عورتیں موت سے زیادہ دور نہیں، گھروں اور ان کے اندھیروں کی اسیر بن کر زندگی گزارتی ہیں، جس طرح مردے قبروں اور ان کے اندھیروں کے اسیر ہوتے ہیں۔ یہ مکی زندگی ہے حرم کے اندر ایک گھر میں، جہاں جنازے آنا بند نہیں ہوتے اور قریب ہی کفن کی دکان سے، جو میت کو دفنانے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ مصنفہ حیرت انگیز طور پر ایسی زبان، اور تخیل تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، جو موت اور مردہ کو ناول میں زندگی اور زندہ کی موجودگی سے کم نہیں رکھتی، دونوں کیفیتوں میں مصنفہ نے اپنے کردار کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دکھایا ہے، یہ صرف لسانی باریک بینی اور حساس تخیل کی بدولت حاصل ہوتا ہے، ناول اپنی حقیقت پسندانہ روایت میں، بلکہ جادوئی حقیقت پسندی کی روایت میں جگہ بناتا ہے، شاید مصنفہ کرداروں کو موت سے “آشنا” کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کو شہوت میں ڈھالنے کے لیے، اسے زندگی کا حصہ بنانے کے لیے، جو مررہے ہیں مگر زندگی مانگ رہے ہیں، رجاء عالم نے ناول میں ایک اسی زبان اور تشبیہاتی ماحول دیا ہے جو ایسا تاثر دیتا ہے کہ قاری خود کسی زندہ کردار کے ذہن میں جھانک رہے ہیں یا مرنے والا کردار واپس آ کر پہلے کی طرح اپنی زندگی کا کردار دوبارہ شروع کر رہا ہے۔
رجاء عالم کا یہ ناول میں ایک وقت میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آخری حصوں میں نئے کردار شامل ہورہے ہیں، جو اس وقت غیر ضروری محسوس ہوتے ہیں، مگر ان کا تعارف محدود بظاہر وہ غیر ضروری نئے کردار محسوس ہوتے ہیں، جیسے جاسوسی ناول کی طرح جرائم کے مقام پر کرداروں کو اکٹھا کیا جاتا ہے، اور جرم کے عناصر اور لوگوں کی حرکات و سکنات کا تجزیہ کرنا شروع کرتے ہیں، اور مجرم کے کردار کو ظاہر کر کے ختم کرتے ہیں۔ مگر یہ جاسوسی نہیں بلکہ یہ پہلی قسم کا ایک شعری، علامتی ناول ہے۔جس میں اس کے فلسفے، دوغلے پن اور کرداروں کو بدلتے چہروں کو دکھایا گیا تھا۔ جو مصنفہ ناول میں اپنے بیان، مجسم اور علامتوں کے ذریعے کہنا چاہتی تھیں۔
نوٹ : اس ناول کے مجموعی طور پر 336 صفحات ہیں، جسے سعودی عرب میں اشاعتی ادارے “دار التنویر” نے سنہء 2023 میں شائع کیا ہے۔ اپنی نوع کا یہ عجیب ناول ہے، جس میں ایسے مرد کی کہانی بھی شامل ہے جو عورتوں میں رہتا ہے، یہ مکہ کی خواتین کے حقوق اور اظہار کی بات کرتا ہے، ان کی عہد بہ عہد زندگی کے تاثرات کا بیانیہ ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بہت خوشی ہوئی ہے کہ سعودی عرب میں ایک مکی قبائلی زندگی سے تعلق رکھنے والی عورت نے ایسا بہترین علامتی بیانئے کا ناول لکھا ہے۔ رجاء عالم کا یہ ناول “باهبل” عرب بکر پرائز کی طویل فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں