کربلا اور تہذیب کا علامتی اظہاریہ۔۔محمد حسنین اشرف

تہذیب ایک مسلسل عمل ہے۔یہ عمل صدیوں اورسالوں پر محیط ہوتا ہے جس میں ہر دور  اپنا حصہ جوڑتا چلا جاتا ہے۔ تہذیب کا سب سے اہم عنصر وہ علامتیں ہیں جو وہ کسی بھی ڈسکورس کاحصہ بنا دیتی ہے۔ ڈسکورس شاید زیادہ فلسفیانہ لفظ ہو۔ کسی بھی تہذیب میں ثقافت کے وجود کے لیے علامت ایک اہم عنصر ہے۔ یہ علامات اپنا پورا نظم رکھتی ہیں جو مختلف لوک داستانوں اور تاریخی واقعات کے خاص تناظر سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ تناظر معروف تعبیر کے زیر اثر پرورش  پاتا اور وہیں پھلتا پھولتا ہے۔ ایک مذہبی علامت جب ثقافت کا حصہ بن جاتی ہے تو ثقافت اس کے اوپر سے خاص لبادہ اتار کر اسے کائناتی کردیتی ہے۔ اسی طرح، ایک رومانوی علامت بھی، رومانویت سے اوپر اٹھ کر جب ثقافت کا حصہ بنتی ہے تو یہ علامت بھی ایک کائناتی روپ دھار لیتی ہے۔ ان کے کائناتی ہونے کے پیچھے بھی ایک خاص تناظر اور  اس دور کی خاص جمالیات کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی علامت کے کائناتی ہونے کی نشانی ہی ہے کہ وہ زبان میں گندھ کراس کا حصہ بن جاتی ہے۔ یوں یہ زبان کے اندر ایک جہان معنی جو تہذیب، ثقافت اور زبان کے اتصال سےو جود پاتا ہے کو نمو بخشتی ہے۔ اب ایک خاص دور کی جمالیات اور اس  کا عرفی تناظر مختلف ادوار تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ یوں سالوں یا صدیوں پرانی لوک داستانیں ہماری زبان کے استعارات میں زندہ رہتی ہیں۔ یہی وہ symbolism ہے جو کسی بھی تہذیب اور ثقافت کا حصہ بن کر نسل بعد نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ یوں ہمیں یہ عمل فطری سا معلوم ہوتا ہے۔ یہ عمل کتنا فطری اور کس قدر غیر فطری سر دست اس موضوع پر گفتگو مقصود نہیں ہے۔

فی الحال اشارہ ا س تاریخی تناظر کی طرف کرنا مقصود ہے جو بدلتے وقت کے ساتھ کوئی مورخ یا مفکر سامنے لانے کی کوشش کی کرتا ہے۔  مثال کے طور پر ہیر رانجھا یا سسی پنوں کے قصے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ ہیر  تو کچھ خاص خوبصورت نہیں تھی۔ تاریخی طور پر اقوال مصدقہ سے آپ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ ہیر کا رنگ کالا تھا۔ آپ جدید نفسیاتی تجزیے سے یہ بھی ثابت کرسکتے ہیں کہ رانجھےکا عشق اس کے دماغ کاخلل تھا یا یہ کہ وہ تو ہوس کے زیر ِاثر ہیر کے پیچھے باولا تھا۔ یہ مشق جب بھی کی جائے  گی۔ اسے ایک امر لایعنی ہی کہا جاسکتا ہے اور کہا جائے گا۔

کیونکہ یہ کسی بھی علامت کے مخصوص جمالیاتی تناظر سے صرف نظر کرنے کا نتیجہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ تاریخی اعتبار سے ہیرایک عام سی لڑکی ہو بلکہ اس کا چہرہ مہرہ معمولی سے بھی کم ہو۔ عین ممکن ہے کہ رانجھے سے بدرجہ ہا بہتر عشق کی کئی ایک داستانیں ہزارے کی سرزمین میں دفن ہوں۔ یہ سب ممکنات میں سے ہے۔ اور واقعات کو مختلف تناظر میں دیکھنے کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی واقعہ کو آپ اس طرح اور ایسے ہزار زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن آپ کی یا مورخ کی یہ آنکھ تہذیب پر اثر انداز نہ تو ہوسکتی ہے۔ اور نہ اسے اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔

آپ لاکھ رانجھے کے عشق کو دماغ کا خلل بتاتے رہیں۔ عین ممکن ہے آپ کا نفسیاتی تجزیہ اور تاریخی استدلال بالکل درست بھی ہو۔ اس کے باوجود تہذیبی اعتبار سے آپ غلط ہیں۔اسی طرح  ہیر کو ایک معمولی لڑکی ثابت کردینے کے بعد یہ عام لوگوں سے مطالبہ کہ وہ اس symbolism سے دستبردار ہوجائیں ایک بچکانہ حرکت ہے۔

اب آپ کربلا کو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ کربلا  ایک تہذیبی علامت بن چکی ہے۔ یہ مذہب اور تاریخ سے اوپر اپنا ایک مکمل نظم رکھتی ہے۔ اس واقعہ کو تاریخی اعتبار سے دیکھنے کے ہزار طریقے اور حقائق کو پیش کرنے کے ہزار زاویے ہوسکتے ہیں۔ لیکن اپنے زاویہ نظر پر اصرار کرکے تہذیب و ثقافت سے دستبرداری کا مطالبہ نامناسب بات ہے۔

اسی لیے ایک مسلمان، ہندو سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ وہ حسین کی مظلومیت کے استعارےکو اپنی زبان میں شامل نہ کرے یا احوال کے بیان میں ان علامتوں سے احتراز کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہیر رانجھے اور سسی پنوں پر حق صرف عاشقوں کا نہیں ہے۔ یہ علامتیں تہذیبی ہیں جس پر ملحد و مسلم  اور عاشق و غیر عاشق ہر ایک کا برابر حق ہے۔ آپ لوگوں کو مذہب سے خارج کرسکتے ہیں تہذیب سے خارج نہیں کرسکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدارا اس تہذیبی عمل کو آگے بڑھنے دیجیے اس میں رخنہ ڈال کر مت بیٹھ رہیے ورنہ ہمارے پاس اپنی نسلوں کے ہاتھ دینے کو کچھ نہیں ہوگا۔یہاں تک کہ  اچھی زبان، بامعنی علامتیں اور فصیح استعارے بھی نہیں ہوں گے۔

میر انیس کی منظر کشی ملاحظہ ہو:
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکائو بار بار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحط ِ آب تھا!

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply