گمشدہ تحریر۔۔سلیم مرزا

آپ پوچھیں گے کہ میری عینک کہاں گئی ؟
اور فرض کرتے ہیں کہ آپ نہیں بھی پوچھتے۔۔
تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں آپ کو نہیں بتاؤں گا ۔

اس عینک کی کہانی بہت غریب و عجیب ہے ۔۔

غریب اس لئے کہا کہ وہ انتہائی سستی خریدی گئی تھی ۔صرف سو روپے میں،اور عجیب تب ہوئی جب اسے لگاکر میں ڈاکٹر وحید صاحب کے ہاں پہنچا ۔۔۔ان کی حسین ترین بیگم مومنہ وحید نے مجھ سے پوچھا ،
” رے بین کتنے کی لی ہے “؟
میں نے بتایا
” مبلغ سوروپے سکہ رائج الوقت نصف جن کے پچاس ہوتے ہیں ۔”
انہوں نے عینک لگا کر چیک کی اور کہا
“پٹھان نے تمہیں لوٹ لیا ہے۔ ”

میں نے ان کی بات مان لی کیونکہ میں جب بھی لٹا ہوں، مجھے پتہ نہیں چلا، دوسرے ہی بتاتے ہیں کہ سرکار “تسی فیر لٹے گئے او ”
کل ایک دوست کے ہاں گیا تو پوچھنے لگا “سرکار کدھر ”
بتایا “جو بچا تھا وہ لٹانے کیلئے آیا ہوں “،
کمینہ شرمندہ نہیں ہوا، کہنے لگا
” سیاسی اور تکنیکی لحاظ سے تمہارے پاس اب کچھ نہیں بچا ”
میں کہنے والا تھا “پتر، آپ کے سیاسی اور تکنیکی حساب سے تو امریکہ کے پاس بھی کچھ نہیں بچا تھا ، مگر وہ اب بھی سپر پاور ہے۔ ”
لیکن میں نے اسے کہا نہیں ۔جیب میں چھ سگریٹ بچے ہوں تو میں امیر دوستوں کو منہ نہیں لگاتا، خیر بات ہورہی تھی عینک کی۔۔۔
واپس آکر ایک آرٹیکل میں جب میں نے یہ واقعہ لکھا تو دوگھنٹے بعد مجھے اس عینک کی پہلی آفر ایک ہزار روپے کی آئی۔دوسری آفر پنچ ہزار کی مالٹا سے میاں اسد نے کی ۔۔ان کا مالٹا میں سنگتروں کا کاروبار ہے ۔
اس کے بعد تو مومنہ وحید کی چھوئی ہوئی اس عینک کی بولی بڑھتی ہی گئی ۔

اب اس کی قیمت وہاں جاچکی ہے کہ کل بیگم کہنے لگی ۔کاش مومنہ آپ کو چپیڑ ہی مار دیتیں ۔۔۔آپ کو بیچ کر میں سکوٹی لے لیتی ۔

میں نے اسے بتایا نہیں کہ اگر مومنہ کو اس بات کا پتہ چل گیا تو وہ باقاعدہ گھسن مارنے کو بھی تیار ہوجائے گی ۔تم سکوٹی کیا سوزوکی لے لینا ۔عینک میں نے سنبھال کر رکھ لی ہے ۔بس مومنہ کو بتانا تھا کہ عینک سستی نہیں رہی ۔

ویسے ان کے ہاں ایک بہت مزے کی چیز دیکھی ڈاکٹر صاحب بہت اچھا گاتے ہیں ۔پہلے میں سمجھا کہ بیحد سریلے ہیں، لیکن جب انہیں گاتے سنا تو محسوس ہوا کہ ان کی بیگم مسلسل صدقے واری جانے والی نظروں سے انہیں دیکھتی ہیں ۔اس وجہ  سے ان کی راگ پہ پکڑ مضبوط ہے ۔اب تو مجھے ان کی نظموں پہ بھی شک ہورہا ہے کہ خاتون خانہ کو سامنے بٹھا کر لکھتے ہوں گے ۔۔
میں نے بھی گھر آکر بیگم کے سامنے گانے کا یہ تجربہ کیا ۔
بیگم نے ایک دو منٹ تک میرا بغور جائزہ لیا ۔پھر کہا
“اے کیہڑی ماں نوں یاد کرکے رو رہے ہو ۔۔۔۔”؟

میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون پہ بتایا سرکار میرے ساتھ تو یہ ہوا ہے ۔کہنے لگے
“مرزا ۔ہر راگ کا ایک وقت ہوتا ہے اور ہر سُر کی ایک سمت ۔۔۔۔”

تبھی۔۔ میں کہوں جب میں دائیں طرف والی پڑوسن کو  دیکھ کر گاتا ہوں تو بائیں طرف والوں کا کتا کیوں بھونکتا ہے ۔اب پتہ چلا سُر اور سَرکی سمت ہی غلط تھی  ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر کون ساراگ کس سمے کیلئے ہے یہ ابھی تک سمجھ نہیں آیا ۔”بھور بھئے پنگھٹ پہ” والا گانا تو زینت امان کے نہانے سے پتہ چلتا ہے کہ سویرے سویرے غسل جنابت کیلئے ہے،مگر
” یہ نین ڈرے ڈرے، یہ جام بھرے بھرے ”
رات دوبجے گاؤں تو بیگم شبہ کرتی ہے کہ کپی پی کے آگیا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply