اخلاقی نفسیات (42) ۔ برابری/وہاراامباکر

تمام پرائمیٹ جبلی طور پر درجہ بندی (hierarchy) والے گروہوں میں رہتے ہیں اور اگر اسے سٹڈی کیا جائے تو انسانی معیار کے حساب سے یہ بڑا جابرانہ نظام ہے۔ انسانی گروہ ایسے کام نہیں کرتے۔ بلکہ قدیم خانہ بدوش گروہوں میں برابری کا نظام رہا ہے۔ کوئی چیف نہیں ہوتا تھا اور وسائل برابر تقسیم کئے جاتے تھے۔ دسیوں ہزار سال تک ہمارے آباء ایسے ہی رہتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسانوں میں درجہ بندی کا نظام اس وقت عام ہوا جب زراعت کی آمد ہوئی، جانور سدھائے گئے اور آبادیاں بنیں۔ اس سے گروہوں کے حجم بڑے ہوئے اور نجی ملکیت زیادہ سے زیادہ ہوتی گئی۔ اس نے برابری کو ختم کر دیا۔ بہترین زمین اور لوگوں کی پیداوار کا ایک حصہ چیف، لیڈر یا اشرافیہ کے پاس جانے لگا۔
اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فطری طور پر ہمارا ذہن برابری کی طرف مائل ہے یا پھر درجہ بندی کی طرف؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سوال پر تحقیق کرنے والے کرسٹوفر بوہم تھے۔ انہوں نے قبائلی معاشروں کو بھی سٹڈی کیا اور چمپنیزی گروہوں کو بھی۔ وہ اپنی کتاب “جنگل کا طبقاتی نظام” میں نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انسانی جبلت درجہ بندی کے نظام کی ہے لیکن ہماری تاریخ میں کس وقت ایک اہم اور بڑی “سیاسی تبدیلی” آئی تھی۔ اس نے یہ ممکن کیا کہ انسان طاقت سے غالب آنے کی کوشش کرنے والے کو لگام ڈالیں یا سزا دے سکیں۔ اس نے یہ ممکن کیا کہ برابری کی بنیاد پر گروہ بن سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمپینزی میں طاقتور نر (alpha male) لیڈر نہیں ہوتے۔ یہ گروہ کے “بدمعاش” ہوتے ہیں جو اپنی من مانی کرتے ہیں۔ یہ تنازعات حل کروا سکتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے زیرِ نگیں رہنے والے ملکر ان کو ہٹا دیں اور مار دیں۔ اس لئے الفا میل کو اپنی حدود سے واقفیت معلوم ہونی چاہیے اور اتنی سیاسی مہارت ہونے چاہیے کہ اپنے کچھ ساتھی بنا سکے اور بغاوت روک سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان میں محض جسمانی طاقت لڑائی طے نہیں کرتی۔ ہم ہتھیاروں سے لڑتے ہیں۔ شکار کے لئے نیزوں اور چاقو کا استعمال لاکھوں سال پرانا ہے۔ آرکیولوجی کے ریکارڈ اوزاروں اور ہتھیاروں کی باقیات سے بھرے پڑے ہیں۔ اور ہتھیار کسی bully کو بھی روک دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور انسان ایک اور انوکھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ زبان ہے جس سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ اور ہر انسانی معاشرے میں زبان کا استعمال اخلاقی معاملات کے بارے میں گپ شپ کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس سے اپنے حق میں لوگوں کا اکٹھا کرنا اور کسی ایسے شخص کو شرم دلانا، تنہا کر دینا یا دھمکی دینا ممکن کرتا ہے جس کا رویہ گروہ کے لئے قابلِ قبول نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوہم کا دعوٰی ہے کہ زبان کی آمد کے بعد صحیح طور پر اخلاقی کمیونیٹی بننے کی آمد ہوئی۔ اس میں لوگ آپس میں گفتگو کے ذریعے ایسے رویے کی شناخت کر لیتے ہیں جو ناپسندیدہ ہو۔ اس میں طاقتور مردوں کی طرف سے جارحانہ اور تسلط قائم کرنے والا رویہ بھی ہے۔ اور جب کسی وقت میں کسی کو سدھارنے کے لئے زبان کافی نہ ہو تو پھر ہتھیار تو ہیں ہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ انسانی فطرت یکایک برابری کی سمت چلی گئی۔ جب ممکن ہوتا ہے تو لوگ دوسروں کو مغلوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہتھیاروں اور زبان کے اشتراک نے جسمانی مضبوطی والے الفا نر کا غلبہ توڑ دیا۔
اس سے نکلنے والا نتیجہ تعاون سے بننے والی سیاسی مساوات کا نازک نظام تھا۔ ایسی مخلوق کے لئے، جو جبلی طور پر درجہ بندی کے نظام کی طرف مائل ہے۔
یہ ایک بہت اچھی مثال ہے جو بتاتی ہے کہ “جبلت” ذہن کا صرف پہلا خاکہ ہے۔ اور نکلنے والا آخری ایڈیشن اس سے بہت مختلف ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ ایک بڑا اور عام مغالطہ ہے کہ قدیم طرزِ زندگی کو دیکھا جائے اور کہا جائے کہ “دیکھو، یہ انسان کی اصل فطرت ہے”۔ خانہ بدوش قبائل میں رہنے والے کا رویہ اور کسی بڑے شہر میں رہنے والے کا رویہ ۔۔۔ یہ دونوں ہی انسانی فطرت کا مختلف ماحول میں نتیجہ ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply