علامہ اقبال کا جنت سے خط ۔۔۔ ضیاءالحسن

انور مقصود خوش قسمت ہیں کہ اردو ادب، تحریک پاکستان اور دوسری شخصیات سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ہم نے سوچا ہم بھی ایک آدھا خط لکھ دیں شاید جواب آجائے۔ سوچنے لگے کہ کس سے خط و کتابت کی ابتدا کی جائے، جو پہلا نام ذہن میں آیا وہ تھا شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا۔ ان کو ایک خط بھیجا۔ انہوں نے اسکا جواب لکھ بھیجا ہے جو آپ سب کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔

بیٹا ضیاء،

تمہارا خاط ملا، انور مقصود کے بعد تم پہلے انسان ہو جس نے ہم سے رابطہ کیا۔ جس وقت تمہارا خط ملا محمد علی جناح آئے ہوئے تھے، حقے کی چلم تیار کرنی تھی لیکن آگ کا بہت مسئلہ ہے۔ دوسری جانب والے حضرات کو اس معاملے میں آرام ہے لیکن یہاں یہ سہولت موجود نہیں۔ زمین پر موسم کی کیفیت دیکھ کر یہاں آگ لگانے پر سخت پابندی ہے، محمکہ موسمیات کافی سخت ہے۔ پاشا کو تو تم جانتے ہی ہوگے، جب سے آئے ہیں ضیاء (تم نہیں دوسرے والے) کے ساتھ مل کر محکمہ موسمیات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ پہلے پہل تو یہی کہتے تھے کہ کچھ عرصہ تک سب ٹھیک کر کے محکمہ لیاقت علی خان کو سونپ دیں گے لیکن پرانی عادتیں ہیں کہ مر کر بھی نہیں جاتیں۔ آٹھ برس ہونے کو ہیں ابھی تک محکمے کے چیئرمین ہیں۔

چائے کا یہاں ہرگز مسئلہ نہیں دودھ کی فراوانی ہے ذرا دن چڑھتا ہے تو نہر سے گرم دودھ لیکر چائے بنا لیتے ہیں۔اپنے خط میں جناح کے بارے تم نے پوچھا تھا، وہ یہاں بہت خوش ہیں، شام ہوتے ہی سرسید احمد خاں کے ساتھ شطرنج کی بازی لگاتے ہیں، علی گڑھ کالج کے لڑکے بھی آجاتے ہیں، شطرنج کے بعد رات کو خبرنامہ چلتا ہے تو جناح خاموشی سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں، ہم نے بہت پوچھا کہ آپ خبرنامہ کیوں نہیں دیکھتے؟ لیکن جواب میں بس خاموش ہوکر ہلکا سا مسکرا دیتے ہیں، شاید ملک کے حالات دیکھ کر اداس ہو جاتے ہیں، معلوم نہیں اس بارے میں بات بھی بہت کم کرتے ہیں۔

کوئی دو ہفتے قبل یہاں میری سالگرہ منائی گئی تھی۔ چوہدری رحمت علی، سرسید احمد خاں، لیاقت علی خان، محمد علی جناح اور فاطمہ سمیت سب دوستوں نے بھرپور شرکت کی۔ فیض اور جالب نے خصوصی طور پر کہا ہوا تھا کہ ہمیں بھی مدعو کیجئے گا اس لئے وہ بھی شامل تھے۔ذوالفقار علی بھٹو بھی آنا چاہ رہا تھا لیکن جناح اڑ گئے کہ اگر وہ آئے گا وہ میں ہرگز شریک نہیں ہونے والا، فاطمہ نے سمجھایا کہ اب ان باتوں کو چھوڑئیے، ہم کیک کاٹ کر واپس آجائیں گے لیکن جناح نہیں مانے، کہنے لگے جو کیک میں دے کر آیا اس کو کاٹ کر بانٹ دیا، ذولفقار نے حالات دیکھ کر خود ہی آنے سے انکار کر دیا۔سالگرہ میں خوب مزہ آیا، مغرب پڑھ کر سب دوستوں نے مل کیک کاٹا، شام کا وقت تھا گرم دودھ ملنا مشکل ہو جاتا یہ سوچ کر کھانے سے پہلے ہی چائے کا دور چلا۔ کھانا کھا کر سب اپنے اپنے گھروں کو ہو لئے۔ قائد کو یہاں ایک محل نما گھر الاٹ کیا گیا تھا انہوں نے لینے سے انکار کر دیا، کہنے لگے کسی اور کے کام آجائے گا۔ اب لیاقت علی خان کے ساتھ ان کے کوارٹر رہتے ہیں۔

اس ماہ جناح کی سالگرہ بھی آرہی ہے، بے نظیر بھٹو کی فاطمہ سے اچھی دوستی ہو گئی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ جناح اور ذولفقار کے درمیان معاملات کو درست کیا جائے تا کہ ذولفقار بھی جناح کی سالگرہ میں شریک ہو سکے۔  کل میری اسی سلسلے میں ایوب خان سے بھی ملاقات ہوئی تھی لیکن وہ جناح سے بھی زیادہ غصہ ہیں۔ کہتے ہیں اس معاملے میں مجھے مت گھسیٹیں میں بول پڑا تو بہت سی پرانی باتیں نکل آئیں گی۔ فی الحال اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں نکل رہا۔ تمہارے پاس کوئی حل ہو تو ضرور بتانا۔

مجھے سیالکوٹ کے بارے میں تم نے کچھ نہیں لکھا، اگلی بار جب بھی خط لکھو مجھے ضرور بتانا کہ میرا سیالکوٹ کیسا ہے۔ آباد رہو اور وہیں رہو، لکھتے رہو اور انور مقصود ملے تو کہنا اقبال پوچھ رہے تھے کہ تم نے خط لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟

Advertisements
julia rana solicitors

اقبال

Facebook Comments