• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • عینی آپا، کچھ یادیں، کچھ باتیں/آخری ملاقات(حصّہ اوّل)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

عینی آپا، کچھ یادیں، کچھ باتیں/آخری ملاقات(حصّہ اوّل)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

قرۃ العین حیدر کے بارے میں میری یاداشتوں پر مبنی یہ تیسرا مضمون  ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرۃ العین حیدر ( عینی آپا) سے آخری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ میں پاکستان کے ایک ماہ کے دورے سے لاہور، پنڈی، میر پور، پشاور، سرگودھا، کراچی ہوتاہو ا لوٹا تھا۔ دہلی میں سات دنوں کے لیے ایک ایسے مہمان خانے میں مقیم تھا، جس میں ایک دوست کی کار بھی میری تحویل میں تھی۔ عینی آپا کو فون کیا تو بہت خوش ہوئیں۔ دوسری صبح کا وقت مقرر ہوا۔ میں پہنچا تو ریحانہؔ ملی۔ ریحانہ اور عینی کا رشتہ مالکن اور نوکرانی کا نہیں بلکہ ماں اور بیٹی کا ہے۔ وہ ان کو نہلاتی ہے، سر پر مہندی کی رنگت کی تیزی یا ہلکے پن کا خیال رکھتی ہے، کپڑے استری کرتی ہے، کھانے پینے کا خیال رکھتی ہے۔ فالج دائیں طرف گرا تھا، اس لیے ابھی فعال تھیں۔ بول کر لکھواتی تھیں، ایک نوجوان صبح اور ایک شام کو ان کے فلیٹ میں ڈکٹیشن لینے کے لیے آتا تھا۔ جب ٹائپ کر کے لاتا، تو اس کی پروف ریڈنگ خود کرتی تھیں۔

میں ان کے پاس دو گھنٹے ٹھہرا۔ بیچ بیچ میں بولتے بولتے وہ تھک گئیں، تو مجھے کہنے لگیں،’’اب تم کچھ کہو۔‘‘ جن امور پر بات ہوئی، ان میں ایک سر فہرست رہا، اور ہم بار بار اس کی طرف لوٹ کر آتے رہے۔ یہ امر تھا ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں پاکستان میں ’’آگ کا دریا‘‘ کے تناظر میں ایک فضول قسم کی گرما گرمی ، جس میں ان کے مخالفین نے یہ الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتیں، اور ’’آگ کا دریا‘‘ در اصل پاکستان نہیں، بلکہ ’’ہندو ستان، یعنی بھارت‘‘ کی تاریخ کو کھنگالتا ہے۔

وہ پاکستان میں بسنے کے ارادے سے گئی تھیں، لیکن اس قسم کی گفتگو نے، جو بآواز بلند تقاریب میں اور اخباروں یا ادبی رسالوں کے اداریوں میں کی گئی، ان کے دل کو اچاٹ کر دیا، اور وہ انڈیا لوٹ آئیں۔ کہنے لگیں، ’’کسی کا کیا قصور تھا؟ اس وقت ’ادب برائے اسلام ‘ کے ریلے میں کچھ پرانے ترقی پسند ادیب بھی بہہ گئے تھے۔‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن یہ بات تو انتظار حسین نے کہی تھی کہ آپ نے ’’آگ کا دریا‘‘ میں تقسیم ہند کو ہندو مسلم مشترکہ ورثے کی شکست قرار دیا، اور انتظار حسین تو ادب برائے اسلام کا حامی نہیں ہے۔‘‘ بولیں، ’’ہوں، یہ بات تو درست ہے، لیکن جو کچھ اس نے کہا تھا ،اس کو صحیح تناظر میں سمجھا ہی نہیں گیا، اور اس بات کو مان لیا گیا کہ میں اینٹی پارٹیشن ہوں۔‘‘ پھر کہنے لگیں، ’’اچھا ہی ہوا، میں لوٹ آئی۔ وہاں بہت دوست احباب تھے، لیکن سبھی بے بس۔ یوں بھی اس معاشرے میں اکیلی عورت کے لیے، جولکھتی بھی ہو، اور بھی ہو،مجلسی عادات رکھتی ہو، رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ۔یہاں میں ایک بھرپور زندگی جی سکی ہوں۔‘‘

میں نے ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ کا ذکر کیا اور کچھ کہنے ہی والا تھا، کہ وہ بول اٹھیں، ’’اب لوگوں کو بھی میری درازیء عمر کے ختم ہونے کا انتظارنہیں کرنا پڑے گا، اللہ تو کیا کرے گا ۔۔

میں نے رخصت چاہی کہ گیسٹ ہاؤس کی کار کی واپسی کا وقت مقرر تھا۔ بولیں، ’’گڈ بائی۔۔‘‘ ’بائی‘ کو انہوں نے یوں لمبا کر کے ختم کیا کہ ان کی سانس ہی اٹک گئی اور وہ کھانسنے لگیں۔ میں رک گیا، لیکن ریحانہ نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ میں خاموشی سے رخصت ہو جاؤں۔ پانی سے بھرے کپ میں ایک چمچ دوا ملا کر پلاتی ہوئی ریحانہ کی اور عینی آپا کی وہ تصویر اب تک میرے دل پر نقش ہے اور مجھے ساحرؔ لدھیانوی کی چار سطریں یاد آ رہی ہیں۔

ہر چیز تمہیں لوٹا دی ہے
ہم لے کے نہیں کچھ ساتھ چلے
پھر دوش نہ دینا ، جگ والو
ہمیں دیکھ لو، خالی ہاتھ چلے
(میری ذاتی ڈائری کا اندرج )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ َ ـــــ ــــــــــــــــــــــَََََ

بمبئی۔ عینی آپا سے پہلی ملاقات ان کے رسالے کے دفتر میں ہوئی۔ میں اپنے ہم زلف کے گھر سے (جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا) تین بسیں بدل بدل کر بمشکل تمام پہنچا۔ مجھے عینی آپا سے ’’ٹربیون‘‘ چنڈی گڑھ کے لیے ، ان کے ناول ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملنے پر، انٹرویو لینا تھا، اور اس کے لیے انہوں نے مجھے ورکنگ لنچ پرہی اپنے دفتر میں دعوت دی تھی۔

مجھے پہلی نظر میں وہ بے حد حسین لگیں۔ (تب تک انہیں آپا کہنے کا رواج ابھی ’’روش عام‘‘ نہیں ہوا تھا!) کشادہ پیشانی لیکن آنکھوں تک پہنچتے پہنچتے ذرا سی خمیدہ، تلوار کی سی کاٹ رکھتی ہوئی تیز زبان، جسم کی خاموش زبان میں آنکھوں، بھوؤں اور پیشانی کے اتار چڑھاؤ، لبوں کی سکڑن یا پھیلاؤ، ہاتھوں کی مضطرب حرکت ۔۔میری گستاخ نظروں نے ان کے متناسب جسم کو ایک مرد کی آنکھوں سے دیکھا۔

آپ ملک راج آنندؔ کے کچھ لگتے ہیں؟‘‘ یکلخت یہ سوال پوچھ کر انہوں نے مری گستاخ نظروں کو جیسے وہیں روک دیا اور تب مجھے احساس”ہوا کہ مجھ جیسے ’’دل پھینک‘‘ لوگوں کوایک ہی سوال سے بوکھلا دینے کا فن انہیں آتا ہے۔

جی نہیں، لیکن میں انہیں مُلک چچا کہہ کر بلاتا ہوں۔ ویسے بھی ہماری یونیورسٹی میں ٹیگور پروفیسر کے طور پران کے آنے کے بعد مجھ جیسے نوجوان عادتاً انہیں چچا مُلک ہی بلاتے ہیں۔

پھر ا ن کے استفسار پر کہ مجھے ان سے کیا پوچھنا ہے، میں نے درجنوں سوال کیے، لیکن بقول ان کے، ہر سوال گھوم پھر کر ایک ہی زمرے میں آ جاتا تھا، کہ ورجنیا ولف اورجییمز جوائس کے طرز تحریر میں لکھے ہوئے ان کے ناول کیا اردو ادب پر ایک مغربی پیوند کاری نہیں ہے؟ اور ان کا جواب ہر بار ایسے ہی کانٹوں سے بھرا ہوا تھا جیسے کہ وہ مجھے یہ سمجھانے کا جتن کر رہی ہیں، کہ اے انگریزی کے پروفیسر ، خدا کے لیے یہ بات سمجھ، کہ اسلوب ایک طرف، اور موضوع، مضمون اور متن دوسری طرف، کیا ایک ناولسٹ کو ان دو چیزوں کو الگ الگ نہ رکھ کر صرف یہ یقینی نہیں بنا سکتا کہ اس کا طرز تحریرایسا ہو کہ اسے ایک کے لیے دوسرے کی قربانی نہ دینی پڑے۔ لیکن اردو کا قاری تو کیا، ایک دو کو چھوڑ ر اردو کا نقاد بھی اس سے آ گاہ نہیں ہے۔

آگ کا دریا‘‘ کو عینی آپا کا “میگنم اوپس” یعنی عظیم ترین ناول کیوں سمجھا جاتا ہے، اس کا علم مجھے اس انٹرویو کے وقت ہی ہوا۔ عینی نے کئی سوالوں کا جواب جھلا کر مجھے دیا لیکن با ت میری سمجھ میں آ گئی۔ ’’آگ کا دریا‘‘ زمانوں، بلکہ قرنوں پر محیط ہے۔ یہ تاریخ اور وقت کو بر صغیر کے جغرافیہ سے منسلک کرتا ہوا ایک ایسا تاریخی گوشوارہ ہے، جو چوتھی صدی عیسویں سے شروع ہوتا ہے، اور آزای کے بعد، یعنی ہندوستان اور پاکستان کے دو الگ الگ ملکوں کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے وقت تک آگے بڑھتا ہے۔ زمان اور مکان کے اس پھیلائو کو سمیٹنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ناولسٹ صدیوں پر محیط اس سفر کے راستوں پر آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکے، آس پاس کی پگڈنڈیوں پر گامزن ہو، پیچھے مڑ کر دیکھے اور پھر اپنی کہانی کو سمیٹتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ مجھے آج تک عینی کا ایک جملہ نہیں بھولتا۔ ’’ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کچھ لوگ آج بھی ہندوستان کی تاریخ کو میر قاسم کے سندھ پر حملے سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے پہلے کی تاریخ اور عرب کے دور جاہلیت کی تاریخ میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘ ان کا جملہ انگریزی میں تھا، لیکن جب میں نے کہا کہ تاریخ ایک تسلسل ہے، تو انہوں نے پھر کہا

ـYes, it is a continuum and the sooner we know this truth, the better it would be for all of us, and damn it, my novel
encompasses four thousand years

آج جب میں باز آفرینی کے طور پر اس انٹرویو کو یاد کرتا ہوں، تو مجھے عینی آپا کی بات یاد آتی ہے۔ میرے انگریزی کے پروفیسر ہونے کی وجہ سے یا میری ذہنی تربیت کو صیقل کرنے کے لیے انہوں نے ایک انگریزی نقاد کا جملہ دہرایا تھا۔ اس نقاد نے ورجنیا ولفؔ اور جیمز جوائسؔ کی شعوری رو کے بارے میں اور وقت کی رفتار کے نا منقسم ریلے کے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کے بارے میں کہا تھا۔

You can stand still in Time and move back and forth in Space,or stand still in Space and move back and forth in Time.

بعینہ یہی فارمولہ عینی آپا کے ناولوں پر مطلق ہوتا ہے۔ ’’ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ‘‘ نے اس کتاب کے انگریزی ترجمے پر تبصرے میں ایک ناقابل
فراموش جملہ لکھا تھا، جسے میں یہاں درج کر رہا ہوں۔
River of Fire is to Urdu fiction what A Hundred Years of Solitude is to Hispanic literature.
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی سطح پر عینی آپا کی وہی حیثیت ہے جوملان کندیراؔ کی ہے۔ ’چھٹ بھیئے‘ عینی کی گرد کو بھی نہیں  ّپہنچتے۔ ( ذاتی ڈائری کا اندراج : نومبر ۱۹۶۷ عیسوی۔ بمبئی، انڈیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ــــبہت بڑا جمگھٹا تھا۔کم از  کم ایک سو سے کچھ اوپر لوگ تھے۔ واشنگٹن، ڈی سی (امریکا) کے میری لینڈ کے نواحی بلدیاتی علاقے میں ڈاکٹر عطیہ خان کا گھر ایسا گھر نہیں تھا، جسے صرف گھر کہا جائے ۔ یہ ایک بنگلہ نما محل تھا۔ بڑے کمرے میں، عین سامنے دیوار پر کوئی تین فٹ کے سائز میں ایک تصویر تھی، جس میں فیض احمد فیضؔ اور احمد فرازؔ ’یک جان دو قالب‘ والے محاورے کی زندہ مثال بنے بیٹھے ہوئے تھے ،ڈاکٹر عطیہ کے نفیس ذوق اور شاعر نوازی کی ایک مثال ، لیکن مجھ جیسے بت شکن محمود غزنوی کے لیے کوئی بھی سومنات ہو، میرا تیشہ ہمیشہ میرے ہاتھ میں رہتا تھا۔ اس لیے جونہی ذرا سی مہلت ملی، سامنے کے صوفے پر بیٹھی ہوئی عینی آپا سے میں نے کہا، ’’وہ تصویر دیکھی ہے آپ نے؟‘‘ مسکرائیں زیر لب، ایک خمیدہ تبسم ۔ بولیں، ’’تم کہیں بخشو گے بھی ان دونوں کو؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں آپا، مجھے تو ساقیؔ فاروقی کی ایک بات یاد آ گئی۔ اس نے دونوں کو لندن کے اپنے ہی گھرمیں اکٹھے بیٹھے دیکھ کر کہا تھا، ’اب تم دونوں جڑواں تو لگتے نہیں، لیکن یہ فرازؔ تم سے اتنا کم عمر ہوتا ہوا بھی تمہارا نقّال، جسے تم پنجابی ’نقلچی‘ کہتے ہو، اس حد تک ہے کہ اگر تم اپنی کسی نظم یا غزل میں ایک بار ’جاناں‘ لکھو گے، تو یہ تمہارے تتبع میں، لیکن تم سے بازی مار لے جانے کے لیے، دو بار ’جاناں جاناں‘ لکھے گا۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

تم تو وہاں موجود نہیں تھے، کہاں سے سنی تم نے یہ بات؟‘‘ عینی میں موقع واردات پر موجود نامہ نگار کی روح حلول کر آئی۔
آپا، خفا مت ہوں مجھ سے۔ ساقیؔ نے ہی مجھے بتائی تھی!‘‘ اور اس سے پیشتر کہ وہ کچھ اور کہہ سکیں، میں نے ایک لقمہ اور دیا تھا۔ ’’ساقی ؔنے فیضؔ کو یہ بھی کہا تھا، کہ اس کے سگریٹ کی راکھ جھاڑنے کا اندازبھی تمہاری نقل ہے۔ اس طرح یہ فیضؔ تو بننے سے رہا، فرازؔ بننے کا نصب العین بھی کھو بیٹھے گا۔
’’بخش دو ان دونوں کو اب!‘‘ آپا نے حکم دیا، ’’کوئی اوربات کرو ۔۔۔لیکن غزل کی مخالفت کی بات نہیں۔۔‘‘
پاس بیٹھے ہوئے کئی احباب (صغرا مہدی بھی اتفاقاً موجود تھیں) مسکرائے تھے، کیونکہ اب جھینپنے کی میری باری تھی۔
(ذاتی ڈائری کا اندراج ۔ میری لینڈ، امریکا ۔ ڈاکٹر عطیہ کا دولت کدہ، ۱۹۹۸ء)
جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply