تین جماعتوں کی تاریخی کہانی (5)-حیدر جاوید سیّد

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک ابتداً ہی پُرتشد تحریک ثابت ہوئی۔ پی این اے کے کارکنوں نے ملک بھر میں سرکاری اداروں پر حملے کئے توڑ پھوڑ کی اور جلاؤ گھیراؤ کے بدترین مظاہرے ہوئے۔ حکومت اور پی این اے کے درمیان پروپیگنڈے میں بظاہر پی این اے کا پلڑا بھاری رہا۔

یہاں تک کہ پیپلزپارٹی شعبہ خواتین پنجاب کی ایک عہدیدار جن کے شوہر اثر چوہان “سیاست” کے نام سے اپنا اخبار نکالتے تھے نے اپنے اخبار کو بھٹو مخالف قوتوں کا ترجمان بنا دیا اس عرصے میں جماعت اسلامی کے حامی اخبارات و جرائد اور صحافیوں نے خوب رنگ جمائے۔ سینہ گزٹ خبروں نے بھی اودھم مچایا۔

قومی اتحاد کا دعویٰ تھا کہ سینکڑوں افراد کو قتل کردیا گیا ہے مگر برسوں بعد روزنامہ “میدان” پشاور کے لئے دیئے گئے انٹرویو کے دوران پی این اے کے سابق سیکرٹری جنرل اور جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد سے جب سوال کیا گیا کہ پی این اے کی تحریک کے دوران بھٹو حکومت پر سینکڑوں افراد کے قتل کی جو دعویدار تھی اس کے ثبوت میڈیا کو کیوں نہیں فراہم کئے گئے؟

نیز انہیں یاد دلایا گیا کہ 1978ء میں انہوں نے ہفتہ روزہ “جدوجہدٔ” کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ “سینکڑوں افراد کے قتل والی بات ہنگامہ آرائی کے دنوں میں دونوں جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا حصہ تھی۔ اصل میں تقریباً 80 افراد پی این اے کی تحریک میں مارے گئے مگر پی این اے کے پاس اس کا ریکارڈ نہیں ہے”۔

اس کے جواب میں پروفیسر غفور احمد کا کہنا تھا کہ “میں اب اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا”۔

بہر طور بھٹو حکومت اور پی این اے کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں طرفین ایک معاہدہ پر متفق ہوگئے تھے بلاشبہ یہ معاہدہ کرانے میں سعودی عرب اور ایران کے سفیروں کا بڑا عمل دخل تھا۔

معاہدہ پر ابھی دستخط ہونا تھے کہ بھٹو برادر اسلامی ملکوں کے دورے پر چلے گئے۔ پروفیسر غفور احمد اور مولانا کوثر نیازی نے اپنی تحریر کردہ کتابوں میں اس حوالے سے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔

قبل اس کے یہ معاہدہ ہوتا پی این اے کے ایک رہنما ایئر مارشل (ر) محمد اصغر خان نے مسلح افواج کے سربراہوں کو ایک خط لکھ دیا۔ اپنے خط میں اصغر خان نے “مسلح افواج کے سربراہوں کو ملک کے موجودہ حالات میں اپنا آئینی و قانونی کردار ادا کرنے کے لئے کہا”۔

اصغر خان کا یہ خط بنیادی طور پر مسلح افواج کو بغاوت کی دعوت کے زمرے میں آتا تھا لیکن بھٹو حکومت نے اس پر کارروائی سے اس لئے گریز کیا کہ پی این اے سے معاملات طے پارہے ہیں۔

معاملات کیا طے پاتے 5 جولائی 1977ء کو ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو وفاقی و صوبائی کابیناؤں کے وزرا پیپلزپارٹی اور پی این اے کی جماعتوں کے سربراہ اور درجنوں رہنما گرفتار کرلئے گئے۔

فوجی حکومت کے سربراہ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے اپنے اولین خطاب میں 90 دن میں انتخابات کرا کے بیرکوں میں واپس چلے جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فوج آئندہ عام انتخابات میں ریفری کا کردار ادا کرے گی۔

انتخابات ہوتے ہی ہم اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے واپس چلے جائیں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ فوجی آمر 90 دن کی بجائے گیارہ سال ایک ماہ اور بارہ دن اقتدار پر قابض رہا۔

حکومت اور پی این اے کے رہنماؤں کی گرفتاری کو حفاظتی تحویل کا نام دیا گیا۔

6 اور 7 جولائی کو ملک بھر میں دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی ایک طرف پی این اے کی تحریک میں گرفتار لوگوں کو جیلوں سے رہا کیا جارہا تھا تو دوسری طرف پیپلزپارٹی کے سرگرم کارکنوں کو مارشل لاء کے ضابطہ 38 کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں بھیجا جارہا تھا۔

6 اور 7 جولائی کو ہی جماعت اسلامی کی دو ذیلی تنظیموں اسلامی جمعیت طلبہ اور نیشنل لیبر فیڈریشن کے کارکنوں نے ملک بھر میں ڈنڈا بردار جلوس نکالے اور ان ڈنڈا بردار کارکنوں نے پیپلزپارٹی کے حامیوں اور کارکنوں کو خوفزدہ کرنے میں کوئی کسر نہ ا ٹھارکھی۔

مارشل لاء کے ضابطہ 38کے تحت گرفتار ہونے والے پیپلزپارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو 30 سے 90 دن کے لئے نظربند کرنے کے احکامات جاری ہوگئے۔ فوجی حکومت نے پیپلزپارٹی کی بھل صفائی کے ساتھ ابتداء میں دو کاموں پر توجہ دی اولاً مہنگائی کے خاتمے اور ثانیاً ناجائز تجاوزات کے خاتمے کے لئے آپریشن۔

یہ دونوں کام سمری ملٹری کورٹس کے سربراہوں اور عملے کے لئے خاصی “خیروبرکت” کمانے کا ذریعہ بن گئے۔

جنرل ضیاء کا مارشل لاء ملک میں تیسرا مارشل لاء تھا۔ پی این اے نے کسی تاخیر کے بغیر بھٹو حکومت کا تختہ الٹے جانے کی حمایت کی اس حمایت میں پیش پیش مسلم لیگ اور جماعت اسلامی تھیں آگے چل کر ماسوائے این ڈی پی، مزدور کسان پارٹی، خاکسار تحریک اور جے یو پی کے باقی ماندہ جماعتیں فوجی حکومت کا حصہ بن گئیں۔

سول ملٹری مخلوط حکومت میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پارٹی کو بھی 2 وفاقی وزارتیں ملیں۔ جے یو آئی مفتی گروپ کو بھی 2 وزارتیں، جے یو پی سے الگ ہوکر حاجی حنیف طیب فوجی حکومت میں وزیر بن گئے۔

حاجی حنیف طیب جے یو پی کے اہم رہنما تھے ان کا شمار جے یو پی کی ذیلی طلبا تنظیم انجمن طلبائے اسلام کے بانیوں میں ہوتا تھا وہ انجمن طلبائے اسلام کے ناظم اعلیٰ بھی رہ چکے تھے۔

جنرل ضیاء الحق کا فوجی راج پاکستان میں سب سے زیادہ جماعت اسلامی کو راس آیا۔ میڈیا اور محکمہ تعلیم میں پہلے سے موجود جماعت اسلامی نے اس دور میں ریڈیو ٹی وی کے علاوہ دیگر اطلاعاتی محکموں کے ساتھ محکمہ تعلیم خصوصاً یونیورسٹیوں اور کالجز میں اپنے حامیوں کو بے پناہ ملازمتیں دلوائیں۔

1977ء کے انتخابات میں ملتان سے رکن قومی اسمبلی بننے والے شیخ خضر حیات جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا جج فوجی حکومت نے ہی بنایا یہ چند مثالیں ہیں۔

پی این اے جس نے تحریک اسلام آباد کے اقتدار کے حصول کے لئے شروع کی تھی اپنی تحریک میں لوگوں کو شامل کرنے اور ان کے جذبات بھڑکانے کے لئے نظام مصطفیﷺ کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا لیکن بھٹو حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد نظام مصطفیﷺ کے نفاذ کو بھول بھال کر وزارتوں کے لئے اسلام آباد کی طرف دوڑیں لگادیں۔

یہاں یہ ذکر کردوں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو چھٹے درجہ سے اوپر لاکر آرمی چیف بنایا تھا بھٹو جنرل ضیاء کی خوشامدی طبیعت سے بہت متاثر تھے جنرل ضیاء بھٹو کی چاپلوسی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے وہ ایک طرف تو درخواست کرکے اٹک کی اس فوجی عدالت کا سربراہ بنے جس نے بھٹو کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے کرداروں کے خلاف مقدمے کی سماعت تھی۔

دوسری انتہا نواب صادق حسین قریشی کے ملتان والے گھر “وائٹ ہائوس” میں بھٹو کے جوتوں کا تسمہ باندھنا تھا۔ (میں قبل ازیں اس تسمہ پوشی پر تفصیل سے ایک کالم لکھ چکا ہوں اسی کالم کے حوالے سے برادر عزیز شاکر حسین شاکرنے بھی ایک کالم میں میری تحریر کے مندرجات کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی لکھی ہیں)۔

جنرل ضیاء جب بھی بھٹو کے سامنے آتے تو دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر مودب ہوکر ملتے اور ہمیشہ کہتے، جناب وزیراعظم آپ ملت اسلامیہ کا فخر اور سرمایہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر ایک دن وہ بھی آیا جب یہی تسمہ پوش جنرل ضیاء ذوالفقار علی بھٹو کے لئے تارا مسیح بن گیا۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply