• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ادارے ملک کو خانہ جنگی سے بچائیں -۔۔محمد اسد شاہ

ادارے ملک کو خانہ جنگی سے بچائیں -۔۔محمد اسد شاہ

سیاست میں اختلاف ہی تو سیاست ہے – اس میں کسی کو کوئی شک نہیں – اگر تمام لوگ تمام معاملات پر ایک ہی رائے پر متفق ہو جائیں تو بھی کہیں نہ کہیں اختلاف کی کوئی صورت نکل ہی آئے گی – اختلاف رائے کے بغیر معاشرہ رہ نہیں سکتا – ایک ہی سیاسی جماعت کے اندر کئی گروپس ہوتے ہیں – یہ گروپس اس حقیقت کا اظہار ہوتے ہیں کہ مختلف معاملات پر جماعت کے مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہے – جتنی بڑی جماعت ہو گی ، اتنا ہی اس میں اختلاف رائے کا رجحان بھی ہو گا – مسلم لیگ نواز کے اندر حکومت اور سیاست کے حوالے سے واضح طور پر دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں – سیاست میں اداروں یا سرکاری افسران کی مداخلت پر بھی اس جماعت میں دو آراء ہیں – پارٹی قائد محمد نواز شریف ، محترمہ مریم نواز ، پرویز رشید ، نہال ہاشمی ، ڈاکٹر افنان اللّہ خان ، شاہد خاقان عباسی ، پروفیسر احسن اقبال ، خواجہ سعد رفیق اور طلال بدر چودھری سمیت غالب اکثریت کی رائے یہ ہے کہ جس طرح عوام کے لیے اداروں کا احترام لازم ہے ، اسی طرح اداروں پر بھی لازم ہے کہ سیاست سے اتنا دور رہیں کہ ان کی عدم دل چسپی طشت از بام ہو – لیکن اسی مسلم لیگ نواز میں ایک دوسری رائے بھی ہے – شہباز شریف، خواجہ محمد آصف، حمزہ شہباز، مشاہد حسین سید اور روحیل اصغر سمیت بہت سے ایسے بھی ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ مقتدر قوتوں کے ساتھ “بنا کے رکھی جائے” ، کیوں کہ ان کے ساتھ “شراکت اقتدار” کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا – تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران سے نجات پانے اور نئی حکومت میں شامل ہونے پر بھی واضح اختلاف تھا – مسلم لیگ نواز کے پاس اول دن سے یہ راستہ موجود تھا – عمران پارٹی کے پاس “ایک پیج” کی بھرپور پشت پناہی کے باوجود کبھی فیصلہ کن اکثریت نہیں تھی – جن چھوٹی جماعتوں کو پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد پر “راضی” کر کے عمران کو وزیراعظم بنوایا گیا – وہی جماعتیں اگر محمد نواز شریف کے ساتھ اتحاد کر لیتیں تو گزشتہ چار سالوں میں کسی بھی دن حکومت تبدیل ہو سکتی تھی – لیکن میاں صاحب اس راستے پر آنا ہی نہیں چاہتے تھے – اس کی وجہ سب جانتے ہیں – بہت پہلے ایسی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا تھا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد عمران کو وزیراعظم بنوایا جائے – 2018 کے متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والی اسمبلیوں میں حکومت بنانے کے لیے ان قوتوں سے سمجھوتہ کرنا لازمی تھا ، جن کو میاں صاحب سیاست میں مداخلت سے روکنے کے داعی ہیں – چناں میاں صاحب عمران کو ہٹا کر حکومت بنانے کے خواہش مند کبھی تھے ہی نہیں – اور یہ بات عمران کو بھی معلوم تھی اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کھلم کھلا سیاسی انتقام کے راستوں پر چلتی رہی – مسلم لیگ نواز کے اندر یہ تمام باتیں زیر بحث آتی تھیں اور اختلاف رائے بھی کھل کر ہوتا رہا – آخر کار میاں صاحب نے اختلاف کرنے والوں کی ہی بات مان لی اور تحریک عدم اعتماد کی اجازت دے دی – دیگر جماعتوں میں بھی اندرونی اختلافات ہیں – پیپلز پارٹی میں اعتزاز احسن واضح طور پر ان لوگوں کی زبان بولتا ہے جن کی زبان چودھری نثار ، شیخ رشید اور پرویز الٰہی بھی بولتے ہیں – جمعیت علمائے اسلام میں عرصہ دراز تک مولانا فضل الرحمٰن کے ذاتی مخالفین موجود رہے لیکن جب ان مخالفین نے تمام سیاسی و اخلاقی حدود کو پامال کر کے جماعت کو ہی توڑنے کا فیصلہ کر لیا تو مجلسِ شوریٰ کو ان سے نجات حاصل کرنا ہی پڑی – پی ٹی آئی میں تو کئی گروپس ہیں جن کے اپنے اپنے کاروباری مفادات ہیں – پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نواز ، جماعت اسلامی اور ق لیگ سے “لائے گئے” لوگوں نے پی ٹی آئی میں اپنے اپنے الگ الگ گروپس بنا رکھے ہیں – پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے تو اعلانیہ کہہ دیا ہے کہ ملتان کی صوبائی نشست پر انھیں شکست دلوانے کی سازش خود پی ٹی آئی نے کی تھی – سگریٹ ساز کمپنیوں ، ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز ، گھی بنانے والی کمپنیوں ، عمران کی شخصیت پر سرمایہ کاری کرنے والوں ، ہسپتال کے لیے فنڈز جمع کرنے والوں اور دوسرے ممالک کے لوگوں سے فنڈز اکٹھے کرنے والوں کے بھی الگ الگ گروپس ہیں – ان سب کو متحد رکھنے کے لیے ہی عثمان بزدار جیسے شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا – اگرچہ یہ نام ایک “پردہ نشین” نے تجویز کیا تھا – غور کریں تو پورا معاشرہ اختلاف رائے پر ہی قائم ہے ، اختلاف رائے اگر جائز اور منطقی ہو تو یہ معاشرے کا حسن ہے – جمہوریت یہی ہے کہ اختلاف رائے کا احترام کیا جائے – لیکن عصر حاضر میں بعض ایسے لوگ سامنے آئے ہیں جنھوں نے اقتدار تک پہنچنے کی بدترین ہوس میں مبتلا ہو کر اختلاف رائے کو دشمنی اور نفرت میں بدل دیا ہے ، ایسی نفرت اور دشمنی جو معاشروں کو برباد کرنے اور ملکوں کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی طرف گام زن ہے – امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ، اسرائیل میں بنیامین نیتن یاہو ، اور بھارت نریندر سنگھ مودی نے یہی کام کیا – بدقسمتی سے پاکستان میں بھی ایک شخص نے یہی کام کیا – اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ سیاسی لیڈرز کو عوامی مقامات پر دوسری پارٹیوں کے حامی گالیاں دیں – 90 کی دہائی میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی باہمی سیاسی لڑائی عروج پر رہی- مقدمات کی بھی بھرمار تھی- لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ کارکنوں نے دوسری جماعت کے لیڈر پر گالیاں برسائی ہوں – اسی طرح جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم ، ق لیگ سمیت کسی بھی جماعت کے سپورٹرز دوسری پارٹیوں کے لیڈرز کے سامنے چوکوں چوراہوں میں بدتمیزی نہیں کرتے – جھگڑے صرف لیڈرز تک محدود رہتے ہیں – عوام اپنے جذبات کا اظہار باہمی بحث مباحثے اور ووٹ کی پرچی سے کرتے آئے ہیں – سیاسی لیڈرز پر کھلم کھلا گالم گلوچ اور بدتمیزی کا کام صرف ایک ہی شخص کے سپورٹرز کرتے ہیں – ان کی نفرت انگیزی اور گالیوں کی گواہی لندن کے ہسپتال ، مسجد نبوی (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم) اور امریکہ کے ہوٹلز سے ہوتی ہوئی پاکستان کی سڑکوں اور ہوٹلز تک پہنچ چکی ہے – 2017 میں تو پروفیسر احسن اقبال پر نارووال میں سر عام فائرنگ تک ہوئی –

Advertisements
julia rana solicitors

پروفیسر صاحب انتہائی شریف ، معزز اور باکردار شخصیت ہیں – ان کی دیانت داری اور شرافت کی گواہی ان کے مخالفین بھی دیتے ہیں – ان پر کرپشن کا بھی کوئی الزام نہیں – پی ٹی آئی حکومت نے نارووال سپورٹس کمپلیکس کے حوالے سے ان کے خلاف ایک ریفرنس بنا کر انھیں سیاسی دشمنی کی بھینٹ چڑھانے کی پوری کوشش کی لیکن اللّٰہ نے انھیں سرخرو فرمایا – اس سب کے باوجود گزشتہ روز ایک ریسٹورنٹ میں ایک شخص کے کارکنوں نے ان کے ساتھ جو بدتمیزی کی ہے ، اس پر کوئی باشعور انسان خوش نہیں ہے – پورا ملک مذمت کر رہا ہے لیکن مذمت کافی نہیں ہے- اداروں کو عملاً نیوٹرل ہونا پڑے گا – نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال پھیلانے والوں کو ضمانتوں کے نام پر آزادیاں دینے سے کوئی فائدہ نہیں – ملک کو خانہ جنگی سے بچانا ہے تو نفرت پھیلانے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا پڑے گا – اختلاف رائے کو دشمنی بنانے کا سلسلہ روکنا ہو گا ، ورنہ ردعمل کا خطرہ بھی موجود ہے – معاشرے کو تربیت دینا لازمی ہو چکا ہے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply