کمرے کی دیواروں پر ہلکی زرد سفیدی تھی، پیلاہٹ آمیز، ویسی جو کتاب کےصفحات کی ہوتی ہے، ایسی کتاب جو زندگی کی کہانی سناتی ہے۔ جب میں اپنی کتاب چھپوارہا تھا تو پبلیشر نےمجھے کہا کہ سفید کاغذ آنکھوں کو چبھتا ہے، پیلاہٹ آمیز صفحات آنکھ آسانی سے پڑھ سکتی ہے۔ تیری کہانیاں زندگی کے گرد گھومتی ہیں، ایسی کہانیاں آسانی سے پڑھی جانی چاہیئں۔ میں مسکرا دیا، اگر کوئی اس مسکراہٹ کا رنگ دیکھ پاتا تو جان لیتا وہ ہلکی زرد تھی۔ زندگی کے قہقہوں اور آنسوؤں کو رنگوں میں ڈھالا جائے اور پھر زندگی کا اوسط رنگ نکالا جائے تو یہی رنگ نکلے گا۔
کمرے کی دیواروں پر ہلکی زرد سفیدی تھی اور کمرے میں دو دیواروں پر لگے بلب بھی پیلی روشنی پھیلارہے تھے۔ دیواریں ایک دوسرے سے زاویہ قائمہ بنا رہی تھیں اور ان پر چھت قائم تھی۔ چھت اونچی تھی اور کمرے کی دیواریں موٹی تھیں، ماضی کی تعمیر جب دیواریں اٹھارہ انچ کی ہوتی تھیں۔ کمر ے میں چار لکڑی کے دروازے کھلتے تھےاور سٹور، غسلخانے، اور دو کمروں کو راہ دے رہے تھے۔کمرے کے کونے کے ساتھ کی دیوار پر لکڑی کی الماری نصب تھی، الماری کا دروازہ کچھ دیوار سے باہر تھا، جس کی چوکھاٹ پر ایک فریم شدہ پینٹگ رکھی تھی۔ پینٹنگ جس میں ایک قدرتی منظر تھا، ایک وادی ، وادی میں بہتی ندی اور ندی کنارے مختلف رنگوں کے پھول، پھول جو کسی ترتیب میں نہ تھے۔ کمرے کے ایک کونے سے سفیدی دیوار کا ساتھ چھوڑ کر گر رہی تھی۔
رمضان کی چوبیس یا شاید پچیس تاریخ تھی۔ ماں جی کی میت کو غسل دینےکے بعد کمرے میں موجود بستر پر رکھ دیا گیا تھا۔ کچھ دیر بعد ان کی تدفین تھی۔ میں نے درخواست کی کہ کمرے کو خالی کردیا جائے۔ خالی کروانا ضروری تھا، ان کی پوتی انہیں خدا حافظ کہنے آرہی تھی۔
دونوں دادی اور پوتی کینسر سے لڑ رہی تھیں۔ ماں جی ستتر سال کی تھیں، اور پوتی نو سال کی تھی۔ ادوار اکٹھے ہو گئے تھے، ماضی اور مستقبل دونوں حال میں ایک تھے۔
کمرہ خالی کروانا ضروری تھا۔ کیموتھراپی نے بیٹی کی قوت ِ مدافعت ختم کردی تھی، سر کے بال گر چکے تھے، رنگ پھیکا پڑ چکا تھا، آنکھوں کی چمک کہیں گم تھی، چہرہ دوائیوں کے اثر سے پھولا تھا۔
دادی جس کے ساتھ پوتی کا تعلق اور تھا۔ جب پوتی کی پیدائش ہوئی تھی تو یک دم کسی بنا پر اس کا جسم نیلا پڑ گیا تھا۔ دادی جس نے زندگی اور موت کو ایک نرس کے طور پر قریب سے دیکھا تھا، جان گئی تھی کہ یہ لمحہ حرکت کا لمحہ ہے۔ فوراً پوتی کو اٹھایا تھا اور ہسپتال میں بچوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹر کے کمرے کی جانب دوڑ لگا دی تھی۔ لمحہ ِ عمل زندگی کو واپس لےآیا تھا۔
پوتی کمرے میں آئی ، دادی کی میت کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ دادی جس سے وہ ہر ماہ کی پہلی تاریخوں کو پورے ماہ کا سکول کا جیب خرچ لیتی تھی، اور پھر ایک ہفتے بعد دوبارہ آتی تھی کہ دادی آپ نے اس ماہ کا جیب خرچ نہیں دیا۔ دادی جانتے ہوئے بھی ہنستی اور دوبارہ ماہ کا جیب خرچ دے دیتی تھی۔ بعض اوقات جان بوجھ کر دھوکا کھانا بھی خوشی دیتا ہے۔
اس نے نظر بھر کر دادی کے چہرے کو دیکھا۔ وہ دادی کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی۔ ا س نے دادی کے چہرے کو دیکھا، غور سے دیکھا۔ یہ لمحہ سوچ میں اس چہرے کو بھر لینے کا تھا۔ وہ دادی کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی۔
دادی کو کینسر سے لڑتے دو سال ہوگئے تھے کہ جب پوتی کے بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی۔ ایک گھر میں ادوار اکٹھے ہوگئے تھے، ماضی اور مستقبل دونوں حال میں ایک تھے۔ کمرے کے ایک کونے سے سفیدی گرنا شروع ہوگئی تھی۔
دادی کو پوتی کی بیماری کا علم ہوا تو مجھے کہنے لگیں ، میری فکر نہ کر ، اس کو علاج کے لیے باہر لے جا۔ میں نے انہیں کہا ، جی میں اسے باہر لے جانے کے لیے کوشش کررہا ہوں۔ یہ جھوٹ تھا مگر بعض اوقات جھوٹ سچ نہ ہوتے ہوئے بھی سُچا ہوتا ہے۔
دادی رخصت ہوئی، تو جھوٹ کو سچ بنانے پوتی کو علاج کے لیے باہر لے آئے۔ ایک لمبا سال ہا سال پر محیط تکلیف دہ علاج کا سفر رہا ، مگر آخر کرم ہوگیا۔
پچھلے ہفتے پوتی کے سکول سے ایک پاکستانی استاد کا فون آیا۔ کہنے لگےکہ اٹھارہ سال سےیہاں کے کئی سکولوں میں پڑھایا ہے، ہر سال سکولوں میں “ہارمنی ڈے” یعنی یک جہتی کا دن منایا جاتا ہے کہ مختلف قومیتوں کے طالب علم اپنے ثقافتی تنوع کے ساتھ یہاں ویلکم ہیں۔مگر اس سال کی تقریب جیسی تقریب اٹھارہ سال میں پہلے نہیں دیکھی۔ پوتی اس دن کی تمام سرگرمیوں کی انچارج تھی۔ اس نے طلبہ کےہمراہ مختلف قومیتوں کے اساتذہ کو بھی اس تقریب میں شامل کیا۔ مقامی ایبوریجنل طلبا ء کا پودوں کی شاخوں کے ہمراہ رقص، مہندی لگانے کے سٹال، نارویجن لباس اور انکی خوراک، تامل طلبا کا لنگی پہنے کمر پر پٹکا باندھے دونوں ہاتھوں میں چھڑیاں گھوماتے رقص،عربی کوفیہ، انڈین ڈانس، تھائی طلبا ء کے سنہرے لباس، غرض اس سب کا انتظام کرنا اور ایسی تقریب کا کامیابی سے انعقاد قابل ستائش ہے۔
پوتی نے پورے سکول کے سامنے تقریر کی۔ چار سو بچوں اور اساتذہ کے سامنے اس نے کہا کہ پہلے میں اپنی مادری زبان اردو میں تقریر کروں گی اور پھر اس کا ترجمہ انگریزی میں کروں گی۔
میں آج سے چھ سال پہلے پاکستان سے آسٹریلیا آئی۔ میں پنجابی ہوں مگر پشتون علاقے کے چھوٹے سے شہر رسالپور میں پیدا ہوئی جہاں میرے والد استاد تھے۔ اگر آپ نے ثقافتی تنوع کو جاننا ہے تو پاکستان کو جانیئے کہ جہاں ویلکم کے لیے مستعمل الفاظ، خوش آمدید، جی آیاں نوں، پخیر راغلے، بھلی کری آیو سائیں اور کئی اور زبانیں اس تنوع کو بتاتے ہیں۔ اپنی ثقافت پر فخر آپ کو اعتماد بخشتا ہے۔
پاکستانی استاد کہنے لگے، کسی آسٹریلوی سکول میں اردو اور ایسی صاف اردو سننا ایک خوشگوار احساس تھا۔ پورے سکول کے سامنےحجاب اوڑھے، اپنے لباس میں کھڑے ہونا ، اردو اور پھر انگریزی میں اعتماد سے تقریر کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ انہیں علم نہ تھا کہ کئی برس قبل ہم میاں بیوی نے فیصلہ کیا تھا کہ بچوں سے کبھی انگریزی میں بات نہیں کریں گے بلکہ صرف اردو یا پنجابی میں بات ہوگی کہ انگریزی تو انہیں آ ہی جائے گی۔ ہمیں انہیں اپنے اوپر اعتماد دینا ہے۔
پوتی کی آنکھوں میں دادی کا عکس تھا۔
دادی کی زندگی جدوجہد کی کہانی ہے۔ جدوجہد جس نے اعتماد بخشا، اپنے اوپر اعتماد، اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کا اعتماد، برابری کا اعتماد۔ دادی ایک مقرر تھی۔ ان کے ضرار شہید ٹرسٹ کے متعلق دے گیے انٹرویوز جو اب یو ٹیوب پر موجود ہیں ان کی گفتار اور اعتماد کا آئینہ دار ہیں۔ ضرار شہید ہسپتال کی شکل میں ان کی انتظامی مہارت سامنے ہے۔
یہ صلاحیتیں اور اعتماد پوتی کے حصّے آیا۔
چوکھاٹ پر ایک فریم شدہ پینٹگ رکھی تھی۔ پینٹنگ جس میں ایک قدرتی منظر تھا، ایک وادی ، وادی میں بہتی ندی اور ندی کنارے مختلف رنگوں کے پھول، پھول جو کسی ترتیب میں نہ تھے۔
ماضی، مستقبل اور حال سب آپس میں جڑے ہیں۔
photo by Leslie Lambert
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں