سورج تو جیسے نکلتے ہی سوانیزے پہ آگیا تھا۔ سڑک سرابوں سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی محسوس ہوئی ۔بیگ کی سٹرپ سے بایاں کندھا جلنےلگا تو میں نے اسے دوسرے کندھے پہ منتقل کر لیا۔
“لگتا ہے تم بھی تھک گئے ہو میرے ساتھ چلتے چلتے “؟میں نےپوچھا تو وہ ہنس دیا !
“نہیں تو “سدا کا جھوٹا کب سیدھی بات کرتا تھا۔ماں روز منع کرتی اسے ساتھ اسکول مت لے جایا کرو ۔میرا اس کے بنا گذارہ کب تھا ؟
” تھوڑی سی دوری ہے،ابھی گھر پہنچ جائیں گے۔”اس نے جیسے مجھے ڈھارس دی۔
لو ء کے گرم جھونکے نے گال پہ جلتی ہوئی تھپیڑی دی، تو اس نے میرے کان میں سرگوشی کی۔
“دیکھو تو سامنے کون آ رہا ہے ”
“کون ” ؟میں نے دیکھا، اَن دیکھا کیا۔
میں اس لڑکے کو جانتی تھی ۔مجھے اس سے بات نہیں کرنی تھی۔ماں کا مان ٹوٹ جاتا۔لیکن وہ اس کی طرف تیزی سے بڑھا،میں چاہتے ہوئے بھی اسے نہ روک سکی۔
ماں ٹھیک کہتی ہے ،اسے گھر ہی چھوڑ کر آنا چاہیے تھا۔سکول بیگ کے بوجھ سے دایاں کندھا بھی دکھنے لگا ۔
وہ اس لڑکے سے جانے کیا کیاباتیں کرتا رہا
۔مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔پسینے سے میری آنکھیں دھندلا رہی تھیں ۔اوران کی باتیں ختم ہی نہیں ہورہی تھیں ۔
میں جلتی سڑک پہ کھڑی کھڑی تھک گئی،
میں نے بیگ زمین پہ رکھ دیا ۔مجھے لگا جیسے بوجھ اتر گیا ہو ۔میں نے اسے زور سے آواز دی
“اب چلو بھی ”
لیکن اس نے جیسے سنا ہی نہیں ۔اس نے مڑ کر میرے پاؤں میں پڑے بیگ کو پھر مجھے دیکھا ۔۔اور اس کے ساتھ چل دیا ۔میں کچھ دور تک انہیں جاتے دیکھتی رہی ۔
پھر اچانک میں اپنے دل کے پیچھے بھاگی ۔
جلتی سڑک پہ کتابوں کا بیگ شاید اب بھی پڑا ہو؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں