نو برسوں تک بدھ وِہاروں اور پیروکاروں کی تربیت میں مصروف رہنے کے بعدایک دن جب وہ چھ پیروکارچیلوں کی صحبت میں چلتا چلتا کپل وستو پہنچا تو ان کو ایک موڑ پر انتظار کرنے کے لئے کہہ کر ،اپنا کمنڈل اٹھائے ہوئے خود اکیلابھکشا لینے نکلا۔ اس کے پاؤں راستے کو پہچانتے تھے اور راستہ اس کے پاؤں کو پہچانتا تھا۔ شاہی محل کے پائیں باغ کے ایک کنارے پر ایک چھوٹا محل یشودھرا اور اس کے بچے کے لیے نیا تعمیر کیا گیا تھا۔ مملکت کے باقی گھروں کے رواج کے مانند ہی گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ دروازے کے سامنے جاکررک گیا۔بھکشا کے لیے صدا بلند کی۔ ’’بدھّم شرنم گچھّامی!‘‘ یشودھرا نہانے کے بعد اپنے بال سکھا رہی تھی۔ تھالی میں کچھ اناج، گھی کی ایک چھوٹی کٹوری، نمک کی ایک ڈلی،پکانے کے لیے لکڑی کے دو ٹکڑے رکھ کر لائی۔ نووارد چپکا کھڑا تھا۔ اس کی نظریں افق پر تھیں۔ یشودھرا نے اسے دیکھا تو جذبات سے بے قابو ہو گئی۔ پھر سنبھل کر نظر نیچے کر لی۔ اس کی جھولی میں بھکشا ڈال کر اکڑوں نیچے بیٹھ گئی۔ بھکشو گوتم کے پاؤں گرد سے اَٹے ہوئے تھے۔ یشودھرا نے انہیں اپنے گیلے بالوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتے ہوئے پانی سے صاف کیا۔ کندھے پر رکھے ہوئے تولیے سے پونچھا۔ پھر سر جھکا کر ، ایک لمحے کے لیے آنکھوں سے مس کر نے کے بعد ، اوپر دیکھا۔ایک لمحہ توقف کیا، پھر کچھ ہمت کر کے پوچھا، ’’رُکو گے، سوامی؟‘‘ لیکن نووارد کی نظریں افق پر جمی تھیں۔ ایک دو لمحے اور توقف کے بعد ، یشودھرا کے اٹھ کر کھڑا ہونے سے پہلے ہی وہ پیچھے چلتا ہوا دو قدم مُڑا اور پھر اپنی نپی تلی چال سے چلتا ہوا راستے کے موڑ تک پہنچ کر مڑ گیا۔
(پالی سے ترجمہ: ’’ ساکھشاتیک‘‘ : دوسرا حصہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ساکھشیاتک‘‘ سے اقتباس کا حوالہ بُدھّ بن چکنے کے بعد گوتم کا کپل وستو، یعنی اپنی جنم بھومی کو لوٹنے کی داستان ہے اور چونکہ میرے اس تیسرے جنم کا اختتام اور چوتھے جنم کی شروعات ایک بار پھر پہلے جنم کی کتھا کے سلسلے سے مربوط ہے، میں باسٹھ برس پیچھے جا کر اس ڈور کا وہ سرا پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں ، جو مجھ سے تقسیم وطن کے وقت چھوٹ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1960 ، ستّر، اسّی، اور نوّے کی دہائی۔ تیس، پینتیس برس۔ میں جامعہ کی سطح پر ترقی کرتے ہوئے اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پروفیسر ہوا، شعبے کا صدر بنا، باہر کے ملکوں میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر کئی چکر لگا آیا ، لیکن پاکستان جانے اور اپنے آبائی مکان کے در و دیوار سے لپٹ کر انہیں پیار کرنے کا موقع میسر نہ آ سکا۔ دو تین بار میں نے پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش بھی کی، ایک بار تو ویزا ملتے ملتے بھی رہ گیا، لیکن ہر باردو ملکوں کے مابین کوئی سیاسی رخنہ اندازی ہو جاتی اور ویزے کا ملنا رُک جاتا۔1965 کی اور اس کے بعد 1971 کی جنگوں نے رہی سہی کسر نکال دی اور انڈیا میں، جو کہ میرا وطن نہیں تھا، ایک مہمان کی طرح رہتے ہوئے میرا کوٹ سارنگ کے اپنے گھر کو دیکھنے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
در بدری، لا زمینی، بے وطنی ۔۔ کئی بار خود سے پوچھتا، میں نے تو اپنی مٹی کا تیاگ کیا تھا لیکن میری مٹی نے مجھے کیوں تج دیا ہے؟ کیا اکھڑے ہوئے پیڑ کی جڑیں اب کہیں پنپ بھی سکیں گی کہ نہیں۔ کئی بار یہ سوال بھی دل سے پوچھتا، اگر میں پاکستان میں ہی رہ جاتا، تو؟ جواب صاف ملتا، تم اپنے والد کی طرح ہی مار دیے جاتے۔
پھر وہ دن بھی آیا جب میں نے اپنے اختیار کردہ ملک کو بھی چھوڑ دیا اور باہر کے کسی ملک میں ہجرت کر جانے کے ارادے سے نکل پڑا۔ انگلستان، کینیڈا، اور آخر میں امریکہ۔ میرے پاؤں کہیں بھی نہ ٹک سکے۔ دو برسوں تک سعودی عرب میں پروفیسر کے طور پر اقامت بھی اسی رسّی میں ایک گرہ تھی۔ وہاں سے بھی میں نے پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکامی ہوئی۔ وہاں پاکستانی سفارت خانے کے ایک کارندے نے جو اردو کی شعر و شاعری کی محفلوں میں اکثر آیا کرتا تھا، کہا، ’’ آنند صاحب، اردو اد ب میں آپ کا اتنا بڑا نام ہے ۔اگر آپ کے پاس امریکہ کا پاسپورٹ ہوتا تو کوئی وجہ ہی نہیں تھی کہ آپ کو ویزا نہ ملتا، لیکن انڈیا کے پاسپورٹ پر ویزا ملنا ذرا مشکل کام ہے۔‘‘ تو یہ طے کیا کہ اگر پاکستان میں اپنے گاؤں جانے کے لیے مجھے ، یعنی پاکستان میں پشت در پشت رہتے ہوئے خاندان کے ایک نام لیواکے پاس ، انڈیا کا نہیں، بلکہ امریکہ کا پاسپورٹ ہونا ضروری ہے، تو چلو، بھائی، قصہ ختم، لے ہی لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس سے پہلے کہ میں امریکا اور کینیڈا میں نقل مکانی کے بعد کا ’’آلاپ‘‘ شروع کروں، مجھے انگلستان میں اپنے ڈیڑھ دو برسوں کے قیام کے وقفے کو ایک نظر دیکھنا ہے کہ اس نے میرے دماغ کے کن خلیوں کو پرانے عنکبوتی جالوں سے صاف کیا اور کیسے یہ ممکن ہوا کہ میں اردو ادب کوایک نئے حوالے سے دیکھ کر ماضی کی غلطیوں کی نشاندہی کروں، حال کو سنوارنے کا جتن کروں اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کروں۔یہ موقع مجھے امریکہ میں ہجرت سے پندرہ برس پہلے ہی مل گیا تھا۔ برٹش اوپن یونیورسٹی ملٹن کینز میں ریذیڈنٹ اسکالر کے لیے جو دعوت نامہ مجھے موصول ہوا ، اس پر مجھے حیرت بھی نہیں ہوئی تھی، کہ اس کی بنیا د تو شاید اسی دن رکھی گئی تھی، جس دن مواصلاتی طرز تعلیم پرمیری کتاب University Without Walls چھپی تھی اور ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں نے میری کتاب کو اس مخصوص نظام تعلیم کے لیے انجیل تسلیم کر کے اپنے اپنے کیمپسوں پر یہ شعبہ جات کھولنے کی تجاویز کو نافذ کیا تھا۔ ہندوستان میں ایک کے بعد ایک یونیورسٹی نے مجھے دعوت بھیج کر اپنے اپنے کیمپس پر بلا کر اس جدید طرز تعلیم کی Curriculum Planning and Course Designingکے لیے میرے اختصاص سے فائدہ اٹھایا تھا۔ اس لیے جب انگلستان کی اس یونیورسٹی نے (جسے انگلینڈ کی پارلیمنٹ کی طرح ہی Mother of Distance Education کہا جانے لگا تھا) مجھے دعوت دی تو میں اپنا بوریا بستر باندھ کر فوراً جا پہنچا۔
یہ تو تھی میرے وہاں پہنچنے کی وجہ تسمیہ ، لیکن ایک بار جب میں پہنچ گیا ، مجھے دو کمروں پر مشتمل ایک گھر مل گیا اور میں نے کالے رنگ کی (یہ رنگ مجھے بہت مرغوب ہے) ایک پرانی مارس مائینر گاڑی خرید لی، تو مجھے جیسے پَر لگ گئے۔ ہر دوسرے تیسرے دن میں لنڈن میں انڈین ہائی کمیشن میں پہنچا ہوا ہوتا جہاں اسٹاف میں آئی ایف ایس (انڈین فارن سروس) کے دو ایسے دوست تھے جو کسی زمانے میں ایم اے انگلش میں میرے ہم جماعت رہے تھے۔ ان کی وجہ سے ہی مجھے انڈیا ہاؤس میں پرانی کتابوں، مخطوطات اور کمپنی بہادر کے وقت سے لے کر آزادی تک کے سرکاری ریکارڈوں تک رسائی حاصل کرنے میں آسانی ہوئی اور میں بہت کچھ کام ایسا کر سکا، جو شاید میں انڈیا میں رہ کر نہیں کر سکتا تھا۔نتیجے میں ہندوستان واپس پہنچنے کے بعد دو کتابیں ایسی چھپیں، جو شاید اگر میں انڈیا ہاؤس لائبریری سے متعلقہ مواد کے نوٹس نہ لیتا، جو وہاں ہی موجود تھا (یعنی اور کہیں نہیں تھا) تو نہ چھپ سکتیں۔ یہ تھیں:
1.The Asian Identity : Studies in Asia’s Unity and Diversity. Sameer Prakashan. 1978
2. Great Testaments of India’s Freedom Struggle….. Sameer Prakashan 1979
ا س کے علاوہ فورٹ ولیم کالج، کلکتہ کے بارے میں کاغذات، مخطوطات اور لنڈن سے چھپنے والی نیوز لیٹر East India Times (last published 1770.)کے دریدہ شماروں سے ایک ایسی ڈکشنری کے ہونے کا پتہ چلا، جس کا علم اردو کے ان تاریخ نگاروں کو بھی نہیں تھا جنہوں نے فورٹ ولیم کالج کے حوالے سے اردو اور ہندی کے تنازعوں پر کام کیا تھا ۔ جب یہ ڈکشنری مجھے ایک rare books کے دکاندار سے پچیس پاؤنڈ میں مل گئی، تو جیسے مجھ پر ایک نئی دنیا کا ظہور ہوا۔
(ایک ذاتی حوالے کی طرح یہ تحریر کرنے میں مجھے کوئی تامل نہیں کہ جب میں نے اس ڈکشنری کا وہ نسخہ جمیل جالبی صاحب کو ٹورونٹو میں دکھایا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر اس کے پیش لفظ سے وہ سطریں پڑھ کر سنائیں جن سے یہ یقین ہوتا تھا کہ گلکرسٹ کی دو جلدوں پر مشتمل ’’انگریزی ہندوستانی لغت‘‘ کا بیشتر مواد اگر سرقہ نہیں تھا، تو در پردہ ایک ایسی ڈکشنری سے ماخوذ تھا ، جس کا حوالہ دینے میں وہ ناکام رہا۔ تو ڈاکٹر جمیل جالبی انگشت بدنداں رہ گئے اور انہوں نے افسوس کے لہجے میں مجھے یہ کہا، کہ ڈکشنری کا یہ نسخہ جو آپ کے پاس ہے، ہم لوگوں کے ہاتھ لگ جاتا تو آج اردو کی لسّانی تاریخ کچھ اور ہوتی)۔
یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، لیکن میں اس بارے میں کچھ تفصیل سے لکھنے کا جوکھم اٹھاتا ہوں۔ یہ ڈکشنری جنرل ولیم کِرک پیٹرک General William Kirkpatrickکی زیر تدوین کاوش تھی، جس کا ٹائٹل Dictionary – Hindoostani And English تھا۔ یہ کام نا مکمل رہا اور اس کو جب میجر جوزف ٹیلرMajor Joseph Taylor نے ہاتھ میں لیا تو کچھ برسوں تک گلکرسٹ بھی اس کے ساتھ شریک کار رہا۔(یہ امر اردو محققین کی نظروں سے اوجھل رہا۔ شاید اس لیے کہ کسی نے بھی انڈیاہاؤس لائبریری میں بیٹھ کر ورق گردانی کی زحمت گوارا نہیں کی) ،میجر جوزف ٹیلر کی ڈکشنری Quarto Edition لنڈن سے شائع تو 1808ء میں ہوئی لیکن ایک شریک کار کے طور پر اس کا بہت سا مواد گلکرسٹ اپنی ’’انگریزی ہندوستانی لغت‘‘ کے 1790ء میں شائع ہونے سے کئی برس قبل تک اپنے پاس جمع کرتا رہا۔
’’ہندوستانی ٹُو انگریزی ڈکشنری‘‘سے ایک لغت نویس اپنی ’’انگریزی ٹُو ہندوستانی ڈکشنری‘‘کے لیے مواد کیسے اخذ کر سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔اور اس کا کچا چٹھا میرے ایک مضمون میں موجود ہے، جو مقتدرہ پاکستان کے جریدہ میں شامل اشاعت ہو چکا ہے۔ پیشے سے طبیب ہونے کے باوجود گلکرسٹ نے لغت نویسی میں تو وہ کمال حاصل کیا، جس کی مثال ملنا مشکل ہے، لیکن ایسا کرتے ہوئے اس نے جنرل کرک پیٹرک اور میجر جوزف ٹیلر دونوں کے جمع شدہ مواد سے ہو بہو سرقہ کر لینے کی حد تک استفادہ کیا، لیکن اردو کے محققین نے اس طرف توجہ نہیں دی۔
اب اس راز کو افشا ہوئے بھی کئی برس ہو چکے ہیں لیکن خدا جانے ہم لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں، کسی پاکستانی یا ہندوستانی محقق نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ صرف ناصر عباس نیّر صاحب نے اپنے ایک مضمون میں مقتدرہ کے رسالے میں شائع ہوئے میرے مضمون کا حوالہ دیا ہے۔ دو سو برس پہلے کی چھپی ہوئی اس ڈکشنری کی ایک جلد میرے پاس اپنی خستہ و دریدہ حالت میں موجود ہے ۔ اگر موقع ملا اوراس عمر میں قضا نے مجھے مہلت دی تو میں حواشی کے ساتھ اس کا نیا ایڈیشن اپنے خرچ پر ہی شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

لندن کے ان برسوں میں میرا تعلیمی ، تدریسی اور کسی حد تک ادبی لین دین اپنے ساتھی اسکالرز سے ہی رہا جو انگریزی کے حوالے سے تھا۔ اردو کے احباب سے کبھی کبھار ہی ملاقات ہوئی اور وہ بھی برسبیل ’’مشاعرہ بازی‘‘ جس سے میں حتےٰ الوسع کتراتا ہوں۔لیکن عاشور کاظمی صاحب سے (وہ بھی اب مرحوم ہو چکے ہیں) کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ میں تب تک ترقی پسند تحریک سے تو الگ ہو ہی چکا تھا، لیکن وہ ابھی تک اس کے منشور پر سختی سے قائم تھے اور بحث و مباحثے میں مجھ سے اکثر ناراض ہو جایا کرتے تھے۔
Facebook Comments