مصور(1)۔۔افتخار بلوچ

ناصر ایک عام آدمی تھا۔ سڑکوں  کنارے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھے گاڑیاں گننے والے لوگ۔ ہر گزرتی گاڑی دیکھ کر اپنی خواہش کا معیار بدل لینے والے لوگوں کی طرح۔ مگر قدرت نے ناصر کے اندر سائنس اور ادب کا ایسا آہنگ رکھ دیا تھا کہ اُس کی بنی ہوئی تصویر کسی تھیورم کی سچائی لگتی اور اُس کا کیا ہوا   سائنسی کام کوئی تصویر محسوس ہوتا۔ مگر اُس کے فن کو پسند کرنے والے بہت کم لوگ تھے۔ بائیس کروڑ آبادی کے ملک میں صرف آٹھ دوست جو اُس کی صلاحیت کا اندازہ رکھتے تھے مگر اُس کی تصویر کے معنی و مفہوم تک وہ بھی نہ پہنچ پاتے۔ وہ کون ہے؟ اُس کا راستہ کون سا ہے اس ادھیڑ بن میں ناصر نے زندگی کے دس سال صَرف کر ڈالے تھے مگر کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا۔ ہر کام کو شروع بڑی خوشدلی سے کیا کرتا مگر بے ترتیبی اُس کے ارادوں کو اور اُس کے فن کو گھیر لیا کرتی تھی۔ ناصر کی عامیت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مجسم بے ترتیبی لگنے لگتا تھا۔ اُسے کبھی بھی یقین نہیں آیا تھا کہ اُس نے جتنے کام کیے ہیں کیسے کیے ہیں۔ ایک پل کے لیے وہ سوچتا اللہ تعالی کی رحمت ہے ورنہ وہ تو کسی قابل نہیں مگر اگلے ہی لمحے وہ سوچنے لگتا کہ اُس کے اندر بھی کوئی صنفِ لطیفہ موجود ہے آخر انسان کا اختیار بھی تو کوئی چیز ہے ۔

اُس کے کمرے میں جابجا بجھے ہو سگریٹ،بکھری ہوئی کتابیں اور دھلے اور  بغیر  دھلے کپڑے بے ترتیبی میں پڑے رہتے۔ کمرے کے ایک کونے میں لکڑی کا سٹینڈ تھا جس پر تختہ کیلوں سے نصب کیا گیا تھا۔تختے پر ایک بڑا کاغذ لگا کر وہ کئی بار خیال کو رنگ دینے کا سوچتا اور بغیر کچھ کیے سو جاتا۔ ایک میز پر پڑے ہوئے رنگوں کے ڈبے جن کے ڈھکن فرش پر پڑے رہتے۔ میز کی سطح پر رنگوں کے دھبے نہ سمجھ میں آنے والی تصویر بناتے ہوئے نظر آتے۔ ایک دفعہ اُس نے ان دھبوں کو بغور دیکھا تھا تو اُس کے چہرے پر مسکان ابھر آئی تھی۔ اگلے ہی لمحے اس نے سوچا تھا کہ رنگ کسی بھی ترتیب میں ہوں کوئی تصویر ضرور بناتے ہیں یہ بے ترتیبی رنگوں کے لیے درست نہیں مگر اُسے افسوس بھی ہوا تھا کہ اُس نے تصویریں بناتے بناتے کتنے رنگ ضائع کر دیے۔ ناصر کے کمرے کی دیوار پر تین تصویریں چسپاں تھیں۔ ایک تصویر میں ایک بزرگ مرد کو بزرگ عورت کی ایڑی میں چبھا ہوا کانٹا نکالتے دکھایا گیا تھا اور دوسری تصویر میں ایک عورت کو اپنے کان سے بالی اتارتے دکھایا گیا تھا اور تیسری تصویر میں کچھ عورتوں کے دھڑ ساحل پر کھڑے تھے اور سر ریت پر پڑے تھے۔ سمندر کا رنگ سرخ تھا اور ڈوبتے ہوئے سورج کا رنگ نیلا۔ لہریں ریت پر پڑی کھوپڑیوں کو گہرائیوں میں لے جانے  کی کوشش کرتی  نظر آتی تھیں۔ تیسری تصویر بنانے کے بعد ناصر نے اپنی صلاحیت کو بہت داد دی تھی۔

تصویر مکمل کرنے کے چند روز بعد اُس کی ملاقات صارم سے ہوئی تھی۔ دونوں ایک انجینئرنگ سے متعلقہ کمپنی میں نوکری کے لیے انٹرویو دینے آئے تھے۔ صارم ناصر کا یونیورسٹی کے دنوں کا دوست تھا جسے مصوری سے شغف تھا۔ انٹرویو لینے والے نے ناصر سے کسی معزز شخص کا حوالہ دینے کو کہا تھا جس پر ناصر خاموش رہا تھا۔ یونیورسٹی ختم ہوئے چھ ماہ بیت چکے تھے مگر وسیلہ روزگار کا سکھ اس کے قریب سے نہیں گزرا تھا وہ اب تک بیسیوں انٹرویو دے چکا تھا۔ اُس نے صارم کو جب تصویر کے متعلق بتایا تو صارم نے تصویر دیکھنے کی خواہش کی جس پر ناصر نے اسے اگلے دن کی شام مدعو کر لیا۔

اگلے دن شام کے وقت صارم ناصر کے کمرے میں موجود تھا سگریٹوں کی بو اُس کی طبعیت کو بوجھل کر رہی تھی۔ صارم نے ناصر کے اتنی مقدار میں سگریٹ پینے پر ناگواری کا اظہار کیا۔ صارم کی نظر جونہی تختے پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ کسی کی تصویر کا مبہم سا خاکہ بنا ہوا ہے۔ صارم کے پوچھنے پر اُسے ناصر نے بتایا کہ وہ اپنی تصویر بنا رہا ہے مگر جس تصویر کے لیے اس نے صارم کو بلایا ہے وہ یہ ہے۔ ناصر نے ہاتھ کے اشارے سے دیوار پر چسپاں تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ صارم اٹھ کر تصویر کے پاس چلا گیا اور اُسے بغور دیکھنے لگا۔ چند لمحوں کے وقفے کے بعد صارم نے ناصر سے بس اتنا ہی کہا
” ناصر بھائی آپ کی بنائی ہوئی تصویر کا مطلب اور وجہ تو میری سمجھ سے باہر ہے البتہ تصویر خوبصورت انداز سے بنائی گئی ہے”۔

اُسی لمحے ناصر پر نارسائی کی ہوا گرم ہو گئی۔ تنہائی نے اُس کے رگ و پے سے جذبات نچوڑ لیے تھے اور خالی جگہ کو بے حسی نے پُر کر لیا تھا جو اب رگیں چیرنے پر تُلی ہوئی تھی۔ اپنی بے ترتیبی کو تنظیم میں بدلنے کی خواہش ہمیشہ اس کی اپنی ہی ذات  میں  دفن ہو جاتی تھی۔ ناصر سوچتا تھا کہ آخر کیوں اُسے کوئی سمجھنے سے قاصر تھا بس تصویروں کی داد دینے کو آٹھ لوگ تھے نواں صارم تھا ،وہ بھی بس داد ہی دے سکا تھا تصویر سمجھ نہیں سکا تھا۔۔ صارم اُس کے برابر آ کر بیٹھ گیا اور تصویر کا مطلب پوچھنے لگا مگر ناصر کا دماغ ایک سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف تھا کہ ” خدا مجھے دکھا کر چھپانا چاہتا ہے یا چھپا کر دکھانا چاہتا ہے یا میں خود اپنے آپ کو اتنا فاش کر رہا ہوں کہ کسی کو احساس نہیں ہو رہا”۔

صارم کے دوسری بار پوچھنے پر ناصر نے کہا
“یہ تصویر اُن عورتوں کی عکاسی کرتی ہے جنہیں دریاؤں کا پانی بند ہو جانے پر بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا”۔
“ہیں! وہ کیسے ناصر بھائی” صارم نے حیران ہوتے ہوئے استفسار کیا۔
“دریا بند ہو جاتے تھے تو لوگ عورتوں کی قربانی دیتے تھے اِسی لیے ان عورتوں کے سر ساحل پر پڑے ہیں” ناصر نے بیزار سے لہجے میں جواب دیا۔
“مگر سورج کیوں نیلا ہے؟” صارم نے پھر سوال کیا۔
“وہ اس لیے کہ آج تو یہ ہمارے سروں پر گردش روک دیتا ہے مگر اُن پر چمکا ہی نہیں کم از کم وہ اتنا تو ڈرتے کہ کہیں ایسا گناہ کرتے ہوئے یہ سورج ہی ہماری بستیوں پر نہ آ گرے۔ ہم کوشش کرتے ہیں ہماری خواہش نہ ٹوٹے اور اس کی تپش ہمیں گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیتی اور وہ پورے وجود کو مٹا دیتے یہ کچھ نہ کرتا” ناصر نے سورج پر برستے ہوئے کہا۔

صارم خاموش ہو گیا تھا مگر اُسے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے اس شخص کا دماغ کسی طرف کو ڈھلک گیا ہو۔ ناصر کے دل پر زندگی نے سخت کیفیات کی بارات بٹھا دی تھی۔ زندگی کی بے ترتیبی کو سدھارنے لگتا تو اُسے یوں لگتا کہ جیسے وہ زنجیروں میں جکڑ لیا گیا ہو یہاں تک کہ سوچ بھی نہ سکتا ہو۔ تنہائی اُس کی نظروں اور لہجے پر قابض ہو چکی تھی کبھی کبھی اُس کا دل کرتا کہ تصویر میں جو عورت اپنے کان سے بالی اتار رہی ہے ناصر خود یہ بالی اتارے اور چبا جائے۔ اُس کی صلاحیتوں کا ادراک کبھی نہیں ہوا تھا یوں نارسائی اُس کے دل و دماغ پر رقص کرتی رہتی اور وہ بلا وجہ اداس رہتا۔ وہ اِس بات پر شکر کیا کرتا تھا کہ اُسے یہ بلائے جان محبت کبھی نہیں ہوئی تھی مگر اگلے ہی پل یہ شکر سخت محرومی میں بدلنے لگتا۔

صارم کو گئے ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا ناصر کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ باہر رات کتنا اندھیرا دان کر چکی ہے آخر اُس نے سوچا کہ کرنے کو جب کچھ نہیں ہے تو کیوں نہ تصویر مکمل کر لی جائے۔

اُس نے ایک دفعہ شیشے میں خود کو دیکھا اور تختے کے سامنے کھڑا ہو کر تصویر بنانے لگا اُس نے اپنے چہرے کا بیرونی خط بنا دیا۔ اُس کے تصورات میں اپنی پیشانی کا نقشہ ابھرنے لگا۔ ناصر کا خیال پیشانی کی دائیں جانب ایک زخم کے نشان پر چلا گیا۔ ہو بہو کرنے کی کوشش میں اُس نے نامکمل چہرے کے ماتھے پر وہ داغ بنا دیا۔ اُس داغ کو نمایاں کرنے کی کوشش اُس نے جاری رکھی یہ کام اُسے طبیعت پر بھاری محسوس ہونے لگا مگر اُس نے آخر داغ کو اتنا نمایاں کردیا کہ دیکھنے والے کو اتنا اندازہ ہو جاتا کہ یہ داغ ہے مصور کے فن میں کوتاہی نہیں۔ اب اُس کے لیے تصویر بنانا مشکل ہو رہا تھا اُس کی سوچیں صارم کی ناسمجھی پر مرکوز تھیں مگر اُس کی انگلیاں تصویر کے بال بنانے میں مصروف تھیں۔ ناصر نے ہاتھ روک کر سوچا تصویر کس طرح خوبصورت بنائی جا سکتی ہے بال دائیں جانب سے بناؤں یا بائیں جانب سے۔ وہ ایک بار پھر شیشے کے سامنے چلا گیا۔ اُس نے دائیں جانب سے بال بنائے لمحہ بھر کو اپنے حسن کا احساس ہوا پھر اُس نے بائیں جانب سے بال بنائے ایک مرتبہ پھر خوبصورتی بول اٹھی اُس کے لیے فیصلہ مشکل ہو گیا۔ ابھی ناصر اسی تذبذب میں تھا کہ نجانے طبیعت کا کون سا عنصر بول اٹھا
” بال بکھرے ہوئے اچھے لگتے ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply