• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • میرے بارہویں شعری مجموعے “بیاض ِ عمر کھولی ہے” (۲۰۱۱)ء کا دیباچہ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میرے بارہویں شعری مجموعے “بیاض ِ عمر کھولی ہے” (۲۰۱۱)ء کا دیباچہ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

عرض ِ حال
ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی طویل نظم The Dry Salvages میں کہا ہے:

There is no end, but additions: the trailing
Consequences of further days and hours
While emotion takes to itself the emotionless
Years of living among the breakage
Of what was believed in as the most reliable…
and therefore the fittest for renunciation.
انت کیا ہے؟ کوئی ہے بھی؟کہہ تو دیتے ہیں: خاتمہ بالخیر، لیکن کیا نفس باز پسیں ہی قطعی، طے شدہ اختتامیہ ہے؟ مجھے علم نہیں ہے لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جس دن میں شعر کہنا ترک کر دوں گا ، وہی دن میرا روز انقطاع ہو گا ۔ اس کے بعد کا جینا ایک بیکار سا جینا ہے، روز و شب، مہ و سال، لیکن کیسے روز و شب اور کیسے مہ و سال؟ اس کی وضاعت غور طلب ہے۔میں نے اپنے مرغوب شاعر ایلیٹؔ سے یہ اقتباس صرف اس لیے لیا ہے کہ سات سو کے قریب نظمیں لکھنے اور گیارہ شعری مجموعوں کی اشاعت کے بعد اب مجھے بھی آخری جنبشِ قلم قریب تر آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مجھے محسوس ہونے لگا ہے کہ تین چار دہائیاں پیشتر جب میں نے ن۔م۔راشدؔ کی طرح ہی فکشن سے توجہ ہٹا کر نظم نگاری شروع کی تھی تو جو وعدہ میں نے خود سے کیا تھا اس سے میں عہدہ برا ہو چکا ہوں۔منشی پریم چند کی طرح ہی فصل کو میں نے کھلیان کر دیا ہے۔ جو بات میں اپنے اافسانوں اور ناولوں میں نہیں کہہ سکتا تھا ، وہ بات میں نے اپنی نظموں میں کہہ دی ہے۔اب میں ایلیٹؔ کے قول کے مطابقamong the breakages میں رہنے کا متمنی ہوں۔ تھک گیا ہوں۔ جامعات کی سطح پر چار دہائیوں تک شیکسپیئر کا ’’ہیملٹ‘‘ پڑھاتے ہوئے بارہا میں نے اس ڈرامے پر ایلیٹ کے ایک مضمون کا ایک فقرہ دہرایا ہے۔’’فن میں جذبات کے اظہار کا واحد طریقہ ارتباطی معروض کونشان زد کرنا ہے۔جذبات کا براہ راست اظہار فن نہیں ہے۔‘‘ میں نے ایلیٹ سے صرف یہی نہیں، اور بہت کچھ سیکھا ہے.

گزشہ نصف صدی سے اردو میں ایلیٹ کے ذکرسے یا اس کے خیالات سے اپنی تنقیدی تحریروں کو معتبر بنانے کی ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ اس میں ایذرا پاؤنڈ کچھ دب سا گیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ میں نے پیکر تراشی کی تکنیک کو سمجھنے میں ایلیٹ سے بھی کہیں زیادہ ایذرا پاؤنڈ سے اثرات قبول کیے ہیں۔ ’’ٹھوس اور متحرک امیج‘‘ (ایف۔ایس۔فلِنٹ) جس طور سے میں نے اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں وہ پاؤنڈسے زیادہ قریب ہیں۔ایمی لیول اور ڈی ایچ لارنس بھی اسی فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ۔پاؤنڈ نے پیکر تراشی کے چار اصول وضع کیے اور ان پر سیر حاصل بحث کی۔ یہ ہیں۔موضوع سے منسلک معروضیت کا براہ راست استعمال، اسلوب کی سطح پر (معنی خیز)الفاظ کا چناؤ اور ان کے استعمال میں کنجوسی کی حد تک بخل ، پیکر تراشی کے عمل میں صرف بصری لوزمات کو بروئے کار نہ لا کر دیگر حواسِ خمسہ کو ’اپیل‘ کرنے والے جمالیاتی (نغمگی، موسیقیت، وغیرہ)عناصر کی شمولیت اور ایک وقتی جذبے سے کچھ اوپر اٹھ کر کانسیپٹ کی گنجلک سطح سے حتےٰ الوسع پرہیز۔۔میں آج ایک طویل عرصے تک نظمیں لکھنے کے بعد باز آفرینی کی نگاہ جب اپنی تخلیقات پر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ سبھی خوبیاں (یا عیوب) نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں ایذرا پاؤنڈ کا اتنا ہی ممنون ہوں جتنا کہ ایلیٹ کا!

Advertisements
julia rana solicitors london

کوئی تیس برس پہلے’’دست برگ‘‘ میں مشمولہ یک صد نظمیں ایک پراجیکٹ کے تحت لکھی گئیں تھیں۔ اس وقت کچھ نقاد حضرات نے ایک سوال اٹھایا تھا کہ کسی طے شدہ پراجیکٹ کے تحت تخلیق کی گئی نظمیں شاید ہی کس معیار کی حامل ہوسکتی ہیں۔ یہ حضرات بھول گئی تھے کی انیسویں صدی کے شروع میں مایہ ناز انگریزی شعرا کالریجؔ اور ورڈز ورتھؔ نے مل کر ایک نپے تلے پلان کے تحت نظموں کے جس مجموعے کی تخلیق کی تھی اسے رومانٹک شاعری کے دور کا مینی فیسٹو تسلیم کیا جاتا ہے اور نصف صدی سے انگریزی شاعری میں اس کا دور دورہ رہا۔ ان یکصد نظموں کے بارے میں یہ بھی لکھا گیا کہ ان میں جو معنیاتی قوس قزح ہے، مشرقی اور مغربی شعری روایت کے درمیان جو جمالیاتی پل بنانے کی کوشش ہے، انگریزی سوچ، ہندوستانی مزاج اور اردو اظہار کا جو جزر و مد ہے، جو انوکھا اور نیا ذائقہ ہے وہ اپنی الگ نوعیت رکھتا ہے…… مجھے یہ کہنے میں کوئی خود ستائی نظر نہیں آتی کہ اردو میں اپنی نوعیت کی اپنی الگ شکل میں ’دست برگ‘ میں مشمولہ ایک سو نظمیں اب بڑھ کر سات سو تک پہنچ چکی ہیں۔ ان میں سے چالیس نظموں پر عملی تنقید کے مضامین تحریر کیے گئے ہیں۔ہند و پاک کے تیس دانشوروں نے ان پر تنقیدی اور تجزیاتی مضامین لکھے ہیں جوایک مجموعے کی شکل میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ان کے انگریزی تراجم کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ مجھے ہندوستانی پنجاب کی حکومت کی طرف سے ان پر ایک لاکھ روپے کا ’’شرومنی ساہتیہ کار ایوارڈ‘‘ اور کیلیفورنیا (امریکا) کا پانچ ہزار ڈالر کا بین الاقوامی احمد ادایا ایوارڈ دیا جا چکا ہے…. مجھے اپنے قارئین سے یہ پوچھنا ہے۔کہ اتنی بڑی قربانی، یعنی ایک چوتھائی صدی تک افسانہ نویسی کے بعد اس صنف ادب کو تلانجلی دے کر کیا میں نے کیا پایا ہے۔ ان تیس پینتیس برسوں کیا میں اردو میں اپنی نوعیت کی اس کوششکو بدرجہ احسن و خوبی انجام تک پہنچا سکا ہوں یا نہیں؟
آخر میں ایلیٹؔ سے ہی ماخوذ ایک اقتباس دینا چاہتا ہوں۔
Through the dark cold and empty desolation,
The waves cry, the winds cry, the vast waters
Of the petrel and the porpoise…On my end is my beginning.
(East Coker)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply