ڈاکٹر صابرہ شاہین ڈیروی صاحبہ کی نظم پر ڈاکٹر ستیہ پال آنند صاحب کا تبصرہ

جانے والے! رکو

سیپیاں، مونگھے، موتی
وہیں رہ گئے
میری چنری کی رنگت
سیہ پڑ گئی
میں نے کشتی کھیوئیے کو آواز
دی
کتنے ترلے کئے،ہاتھ جوڑے بہت
سارے ساتھی درختوں نے
منت بھی کی
نیم تڑپی بہت
کیکروں نے کہا
سارے جامن بھی چیخا کئے
رات دن
گھاس پیروں میں پڑ کے
سسکتی رہی
اور کہتی رہی
کشتی والو سنو
ایک پل تو رکو
وقت کی اس،سسی کو
نہ چھوڑو
یہاں
بیٹ کی وحشتوں میں درندے
بھی ہیں
نوچ لیتے ہیں جو
رستہ تکتی ہوئی
آنکھ  بھی
ایسے وحشی پرندے بھی ہیں
جانے والو!  رکو
یوں نہ جاؤ، ابھی
مر نہ جائے کہیں
چنری والی یہیں

—— ———
(ایک)
(یہ نظم فاعلن فاعلن کی تکرار سے تقطیع کی جا سکتی ہے، یہ ان دو بحور میں سے ایک ہے جن کے ارکان چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں اور جنہیں بحر متدارک اور بحر متقارب کہا جاتا ہے۔ دوسری بحر فعولن فعولن کی تکرار سے تقطیع کی جا سکتی ہے۔ دونوں بحور کے ناموں کا مطلب بھی یہی ہے۔ ایک دوسرے کے قریب قریب ہونا۔ انگریزی میں اس رِدھم کو ٹراٹ رِدھم کہا جاتا ہے کہ یہ گھوڑے کی ٹاپوں کے مترادف ہے۔ اور سفر کے استعارے کو تقویت بخشتا ہے۔
(دو)
یہ نظم جس قبیل سے ہے، اس میں ایسی نظم شاذ و نادر ہی نظر آئے گی۔ عموماً دریا ، کشتی، ملاح ہا نا خدا کا ذکر غزل کے دیرینہ استعاروں میں ملتا ہے۔ اس موضوع پر نہیں ملتا، جس میں ناخدا سے یہ استدعا ہو کہ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ، مجھے بھی ساتھ لے جاؤ۔
(۳)
اگر استعارے کو ایک مرقع تسلیم کر لیا جائے تو اس کے حصص میں یہاں، سیپیاں، مونگھے موتی (ندی کی تہہ سے متعلق) چنری کے رنگ (سطح کا استعارہ جس میں چنری بھگوئی یا دھوئی جاتی ہے اور اس کے رنگ مدھم پڑ جاتے ہیں)۔۔موجود ہیں۔
(۳)
چنری والی کا تشخص ایک بے بس عورت کا ہے، جو بیٹ (لق و دق صحرا) میں ندی کے کنارے اس امید پر محو انتظار ہے کہ مانجھی (کھِویا، ملاح، نا خدا) اسے ندی کے پار اس کے گھر (مائکہ؟ سسرال؟) تک لے جائے گا۔ اس گھبراہٹ میں وہ اس قدر بے حال ہے کہ مناظر قدرت، درخت ، گھاس، پرندے سب اس کو لے جانے کے لیے چیخ و پکار کرتے ہیں، لیکن کشتی ران ۔۔۔؟ جو کوئی بھی ہے۔ (مالک، خاوند، ماں باپ، خدا
کو پس ِ پردہ رکھا گیا ہے۔

(۵) آخری بند بہت پر اثر ہے۔ رات اگر اس کنارے پر پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ انسان نما درندے اور مردار خور پرندے خدا جانے اس کا کیا حال کریں
یوں نہ جاؤ ابھی
مر نہ جائے کہیں
چنری والی یہیں

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے یہ نظم اس لیے بھی پسند آئی، کہ انگریزی کی ہندوستانی شاعرہ سروجنی نایئڈو نے Sirojini Naidu اسی منظر نامے کو لے کر کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply