ہزار رنگ۔۔ربیعہ سلیم مرزا

کبھی کبھار لاڈپیار میں ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔تو اچھا لگتا ہے ، لیکن ہرروز کام پہ جانے سے پہلے جب بھی میں نے عاصم سے خرچہ مانگا ۔۔۔
اس نے پیسے ہاتھ میں پکڑانے کی بجائے خود رکھے ۔کئی بار کہا کہ آنکھ مار کر دبانےسے شوہر شوہدا لگتا ہے ۔ سمجھایا بھی، کہ اماں پھر رہی ہوتی ہیں ۔بچے تین فٹ سے اوپر ہوگئے ہیں مگر عاصم کا چول پنا وہیں کا وہیں رہا ۔

مجھے تو رجو کی بھی پیسے گریبان میں رکھنے کی عادت زہر لگتی ہے ۔ پھر عقلمند اتنی ہے کہ جس دکاندار کو دینے ہوتے ہیں اس سے منہ پھیر کے بھرے بازار کو دکھا کر گرماگرم نوٹ نکالتی ہے ۔ایک دن میں نے کہا
“رجو ۔۔۔دکاندار بھی نوٹ پکڑ کر سوچتا ہوگا کہ ہزار کے نوٹ کا ٹمپریچر سو کیوں ہے؟

بڑی اچھی تھی کمینی ۔۔۔
آج ڈھیر کپڑوں کا سیاپہ کرنا تھا ۔تو اینویں ای یاد آگئی ۔

میرا شوہر عاصم گھروں میں رنگ کرنے کے ٹھیکے لیتا ہے ۔اکثر ہنس کر کہتا ہے جو رنگساز تھوڑی رنگبازی سیکھ لے، ٹھیکیدار بن جاتا ہے ۔
میں نے عاصم کی قمیضوں کی جیبیں چیک کیں ۔وہی جعلی بل تھے ۔پیسے کبھی کبھار ہی نکلتے ۔دھوبن سے نوٹ دھل جائے تو نہ گھر کا رہتا ہے نہ بازار کا ۔
عاصم خود ہی رنگ کرتا ہے ۔اس کی جیبوں کے کناروں کو رگڑ کر مانجھنا پڑتا ہے ۔مرد کی جیب پہ داغ چاہے کتنے بھی ہوں ،بس خالی نہ ہو ۔
میں نے جیب سے نکلے رنگوں کے بل اٹھا کر اونچی جگہ رکھ دیے ۔
اب مجھے سارے کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں ۔

چار مہینے پہلے رجو تھی ۔اس کاشوہر کراچی کی کسی فیکٹری کا سپر وائزر تھا ، کوئی بچہ تھا نہیں،ہماری دیواریں سانجھی تھیں، میری دوسری زچگی سے میرے گھر آنا شروع ہوئی تو پھر ناشتہ بھی میرے پاس ہی بیٹھ کر کرتی،
میری ساس اس کی ساس کے پاس ۔
رجو سارا دن میرے بچوں میں گھسی رہتی ۔اس کا  شوہر مہینے میں چار دن کی چھٹی آتا ۔کھلے ہڈپیر کی رجو کا مجھے بڑا آرام تھا۔ ہانڈی روٹی کے بدلے اس کے چار پھلکے بوجھ نہیں لگتے تھے ۔
واشنگ مشین سے عاصم کی قمیض نکالی اور برش سے جیبیں رگڑناشروع کردیں ۔
جیسے جیسے اس کا کام بڑھ رہا ہے داغ کم لگ رہے ہیں ۔اب تو وہ بہت کم خود برش پکڑتا ہے ۔چار مہینے پہلے بچوں کو سردیوں کی چھٹیاں تھیں ۔میکے جانے لگی تو کہیں سے بچا ہوا، ہلکا جامنی ڈسٹیمپر لے آیا  کہنے لگا “میں تمہارے بعد اپنا کمرہ رنگ کروں گا، مجھے تو اچھا نہیں لگا ۔پھر سوچا گھر کا رنگساز ہے، اور رنگ بھی مفت کا جب جی چاہے بدل لوں گی ۔شکر ہے اس نے امی کے ہاں جانے سے منع نہیں کردیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امی دن بدن بہت کمزور ہوتی جارہی ہیں ۔۔۔۔چھوٹے خاندان سے لڑکی لاؤ تو یہی نقصان ہے ۔میری بھرجائی کی کمیٹیوں نے مت ماری ہوئی ہے۔ہر شے سے پیسے بچا کر اس نے مہینہ پورا کرنا ہوتا ہے ۔سب سے زیادہ نظر انداز  امی کی دوائی ہوتی ہے ۔
بھابھی کو ایک دوبار ٹوکا تو کہنے لگی ۔ان کے کمرے میں اے سی لگوانے کی کمیٹی ڈالی ہوئی ہے ۔چار سال سے نہ کمیٹی نکلی نہ امی کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آئی ۔
میکے میں دوسرے دن ناشتے میں ماش کی دال دیکھ کر میں نے سوچ لیا ۔
“چل بندئیے ،کوچ کر ”
نہ  نہ کرتے، تیسرے دن امی کے روکنے کے باوجود نکل آئی “کون دیکھے، کون کڑھے ”
بھائی کی آنکھوں پہ تو چھتیس نمبر کے کھوپے چڑھے ہوئے تھے ۔جسے گھر میں پڑی ماں نظر نہیں آتی اسے بہن کی ناقدری کیسے دکھے؟
رکشے سے اتری تو رجو کے گھر جھانکا ۔؟
بتادوں۔۔۔ کہ آگئی ہوں ۔
ویہڑے میں دونوں مائیاں ٹانگیں پساریں جیسے مائیوں بیٹھی تھیں ۔
“رجو کہاں ہے “؟اس سے پہلے میں پوچھتی میری ساس کہنے لگی ۔۔۔۔
“گھنٹے سے ہمارے چولہے پہ چائے بنانی گئی ہے ۔اسے کہہ ۔۔۔اب آمرے”
میں نے اپنے گھر کے دروازے کو دھکا دیا ۔اندر سے بند ۔کھٹکھٹایا تو رجو نے کھولا ۔
مجھے دیکھ کر سٹپٹا گئی ۔اب چائے بنانے میں کیا سٹپٹانا۔۔۔۔
بچے بھاگ کر کمرے میں گئے تو. نیا رنگ دیکھ خوشی سے چلانے لگے ۔میں بھی کمرے میں چلی گئی، ہلکے جامنی رنگ کا دوسرا کوٹ چل رہا تھا۔عاصم نے سچ میں کمال کردیا تھا ۔
“رجو، ایدھر آ، کمرہ دیکھ ”
میں نے چائے لے جاتی رجو کو پیچھے سے آواز دی ۔
اس نے کمرے کو توصیفی نظروں سے دیکھا، تب مجھے احساس ہوا کہ رجو کے گریبان پہ ڈسٹمپر کا نشان گلے سے گہرائی تک جارہا تھا ۔
چڑھا ہوا چاند دیکھنے کیلئے کون سا رویت ہلال کمیٹی بٹھانی پڑتی ہے ۔
میں نے دونوں سے کچھ نہیں کہا ۔
جب اپنا پانڈا ٹھیک نہ ہو ،تو دودھ والے سے شکایت کیسی؟
دودن نہ آئی تو تیسرے دن میں ہی اس کی طرف ہزار روپیہ واپس لینے کے بہانے چلی گئی ۔اسی بہانے اس کی شرمندگی کم ہو جائے گی اور ہماری صلح بھی ۔ویہڑے میں اس کی ساس بیٹھی تھی ۔کہنے لگی اندر ہے ۔میں نے کمرے میں جاکر کہا، “تم نے مجھ سے ہزار روپیہ لیا تھا ۔اگر ہے تو دینا مجھے، ضرورت ہے ”
اس نے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور مڑے تڑے نوٹوں سے ہزار کا گرماگرم نوٹ نکال کر میرے ہاتھ پہ رکھ دیا ۔صلح کیسے ہوتی؟
نوٹ پہ جامنی رنگ کے نشان تھے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply