من تحب۔۔طوبیٰ حسن

وہ ایک نہایت خوبصورت دل کی مالک تھی۔ ہم کافی عرصے بعد ساتھ بیٹھ کر پچھلی باتوں پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اسکا اچانک کیا جانے والا سوال مجھ پر بجلی بن کر گرا۔
“کیا کہا؟۔ ” اس نے پھر اپنے سوال کو دہرایا۔ “کیا تمہیں کبھی کسی سے محبت ہوئی؟”

میں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر دیوار کا سہارا لیتے ہوئے ذرا سیدھی ہوئی۔ وہ اب تک میرے جواب کے انتظار میں بنا آنکھیں جھپکائے مجھے دیکھ رہی تھی۔
“ہاں ہوئی ہے مجھے محبت !” میں نے اپنے لفظوں کو ترتیب دیتے ہوئے کہا تھا۔
“کیا واقعی! تم سچ کہہ رہی ہو ؟”
“ہاں۔”
“اچھا بتاؤ نا کون ہے؟ کیسا ہے؟” اس کے یکے بعد دیگرے سوالات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ چند منٹ تک فضا میں صرف سکوت بولتا رہا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ “بتاؤ ۔؟” اس کے سوال نے خاموشی کو توڑا۔ میں نے نم آنکھوں کے ساتھ ایک بار پھر اپنے لفظوں کو ترتیب دینے کی کوشش کی۔ اب بولنے کی میری باری تھی۔

“ہاں ہوئی ہے مجھے محبت۔ بے حد محبت! شاید اس محبت کو لفظوں میں بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن میرے لیے اہم بات تو یہ ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، میرا ساتھ دیتا ہے، جب میں ٹوٹتی ہوں تو مجھے جوڑتا ہے، اگر میں بکھر جاؤں تو مجھے سمیٹ لیتا ہے، پھر اگر میں گرنے لگوں تو مجھے سنبھال لیتا ہے، مجھے سنتا ہے، مجھے اہمیت دیتا ہے، جب کبھی کسی بھی وقت مجھے اسکی ضرورت پڑتی ہے وہ ہمیشہ موجود رہتا ہے، اسے میرا بولنا بہت پسند ہے۔ وہ مجھے بہت توجہ سے سنتا ہے! پتہ ہے؟ میں اس سے اپنی ہر چیز شیئر کرتی ہوں اور وہ میرے بولنے سے پہلے سب کچھ جان جاتا ہے۔”

وہ انتہائی اشتیاق سے مجھے سن رہی تھی۔ ایسے جیسے وہ جلدی سے جان لینا چاہتی ہو کہ وہ کون ہے۔

میں بنا رکے مسلسل کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں بولے چلے جارہی تھی۔ “وہ میری باتوں کا اشتہار کسی کے سامنے نہیں لگاتا۔ اسے راز رکھنے آتے ہیں، وہ میرا ہمراز ہے۔ ہمیشہ مجھے سنتا ہے اور خاموشی سے تسلی دے دیتا ہے۔ مجھ میں بہت سے عیب ہیں لیکن کبھی اس نے میرے عیب نہیں گنوائے، کبھی میرا حوصلہ پست نہیں کیا-بلکہ ہمیشہ میرا ہاتھ تھام کر ہمیشہ مجھے سہارا دیا، مجھے جینا سکھایا، مجھے کبھی کسی کے سامنے جھکنے نہیں دیا، میرا وقار، میرا بھرم ہمیشہ قائم رکھا! وہ میرا بھروسہ ،میری امید کبھی نہیں توڑا ہمیشہ مجھے بہتر سے بہترین کی راہ دکھلاتا ہے۔ پتہ ہے؟ وہ مجھے کبھی لوگوں کی طرح یہ نہیں کہتا کہ میں فلاں کام نہیں کرسکتی۔ اس کا ہونا میری زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ ہے اور شاید، نہیں۔۔۔ بلکہ یقیناً  اس کا ہونا ہی میری ہر کامیابی کا محرک ہے ۔” “وہ کیسا ہے ؟” اس نے پھر متجسس نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے سوال داغا۔ “خوبصورت! یہ لفظ اسکی تعریف کی لئے نہیں بنا بلکہ دنیا کا کوئی بھی لفظ اسکی مدح سرائی کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا۔ اس کی صفات اور کمالات نہ تو ہمارے شمار میں آسکتے ہیں اور نہ ہی ہم انہیں بیان کرنے کی سکت رکھتے۔ تاہم اس کی صفات اس دنیا کی سب سے بہترین کتاب میں کچھ یوں درج ہیں؛

1. يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًاO طه، 20 : 110 ’’وہ ان (سب چیزوں) کو جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘

2. لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO الشوری، 42 : 11 ’’اس جیسا کوئی نہیں اور وہی سنتا دیکھتا ہے۔‘‘

3. لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُO الانعام، 6 : 103 ’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔‘‘

4۔ اس کی ابتداء ہے نہ انتہاء، وہی اول اور وہی آخر ہے، وہی ظاہر اور وہی باطن ہے۔

5۔ اس کے سوا جو کچھ موجود ہے سب اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور وہی ہر ذی روح کو موت دے کر پھر دوبارہ قیامت میں زندہ کرنے والا ہے۔

6۔ وہ کسی کا محتاج نہیں، ساری دنیا اس کی محتاج ہے۔

سننے والی کو جیسے ہر سوال کا جواب مل گیا تھا۔ اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ “

اور تمھارا ایک اور سوال۔۔ کہ وہ کون ہے؟” “وہ نور ہے نور ایسا نور جسے کبھی زوال نہیں!” “اللہ نور السمّوات و الارض” رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((“لَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ” )

1 ترجمہ: ’’اللہ سے زیادہ کوئی غیرت والا نہیں اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر ظاہر و چھپی ہوئی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے تعریف کرنا کسی کو اتنا پسند نہیں جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اسی وجہ سے خود اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کی ہے۔ ‘‘ شرح…: رب کائنات کی تعریف کا مفہوم اس کی کامل صفات اور اعلیٰ اوصاف کے ساتھ ثناء کرنا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی حمد کے ساتھ ثناء کی ہے اور اپنی کتاب قرآن مجید کی ابتدا اسی سے کی ہے۔ فرمایا: {أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} [الفاتحہ:۲] ’’ تمام قسم کی سب خاص تعریفیں، تمام جہانوں کو پالنے والے اللہ کے لیے ہیں۔ ‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے تعریف و ثناء کرنے میں بندوں کی عاجزی دیکھی تو ہم ایسوں کے لئے آسانی کی اور خود اپنی شان کے مطابق اپنے اوصاف بیان کر ڈالے۔ کیونکہ اب تک تخلیق کیے گئے تمام انسان جمع ہو کر بھی اس کی شان کے مطابق اس کی حمد نہ  کرسکیں۔ کیا آپ نے سید المرسلین والآخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھا کہ درج ذیل الفاظ میں کیسے عاجزی ظاہر کرتے ہیں:  (عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْلَةً مِنَ الْفِرَاشِ، فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ، وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ، وَهُوَ يَقُولُ: “اللَّهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ، كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ”)

1 ’’اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے؛ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات بستر سے گم پایا۔ چنانچہ میں نے آپ کو تلاش کیا۔ میرا ہاتھ ان کے قدم کے تلوے پر گیا اور آپ اس وقت حالت سجدہ میں تھے اور آپ نے دونوں پاؤں گاڑے (کھڑے کئے) ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے ’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا کی پناہ پکڑتا ہوں۔ تیری پکڑ سے تیری عفو و درگذر کی پناہ لیتا ہوں۔ مجھے تیری ثناء کرنے کی طاقت نہیں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے خود اپنی تعریف کی۔ ‘‘ یعنی میں گو تعریفات کرنے میں کوشش و محنت کروں لیکن پھر بھی تیری نعمتوں اور احسانوں کو میں شمار نہیں کر سکتا۔ بےشک اس کا شکر کبھی ادا ہی نہیں کیا جاسکتا ، اسکی تعریف کبھی بیان ہی نہیں ہوسکتی ، اسکی نعمتوں کا شمار کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔”

وہ ایک جذب کے عالم میں بولتی جارہی تھی۔ بات کرتے کرتے جب نظر اس پر پڑی تو اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی بہہ رہی تھی۔ یہ آنسو تشکر کے معلوم ہوتے تھے “ہاں یہ ہے میری محبت! میں آج جو بھی ہوں صرف اور صرف اسی کا کرم اور اسی کی نوازش ہے۔ اگر میں اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ بھی اس کی یاد میں سجدے کرتے ہوئے گزار دوں تب بھی اس محبت کا حق نہیں ادا کرسکوں گی۔ دنیا کی محبت کو تو زوال ہے نا، وہ تو کبھی نا کبھی کسی نہ کسی وقت ختم ہو جائے گی لیکن اس رب کی محبت کو کبھی زوال نہیں۔” ،ہم انسانوں کی انسانوں سے محبت تو بہت خود غرض ہوتی ہے۔ اگر کوئی چلا جائے تو ہم اس لئے نہیں روتے کہ وہ چلا گیا بلکہ اس لیے روتے ہیں کہ ہم تنہا رہ گئے۔  “بے شک تمام تعریفیں اس رب کائنات کے لئے جس نے تمام جہانوں کے تمام نظام بنائے اور جس کے قبضہ قدرت میں تمام جہانوں کے تمام نظام ہیں  ۔” وہ یہ سب کہہ کے اٹھ گئی لیکن پیچھے رہ جانے والی کو سوچنے کے لئے بہت کچھ دے گئی۔ آپ بھی سوچیے  گا ضرور کہ آپکی محبت کا مرکز کون ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ تعالی سے بے حد دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا خاص قرب نصیب فرمائے اور فردوس الاعلیٰ  میں بار بار اپنا دیدار نصیب فرمائے۔ آمین اور یاد رکھیے گا جب آپ کو یہ محبت میسر آجائے گی نا تو آپ کو کسی کی محبت، اور کسی کے  سہارے کی ضرورت نہیں رہتی جیسے مجھے نہیں رہی۔الحمدللہ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply