حرفِ آخر۔۔عطیہ

اس نے اپنی نم آنکھوں کو دوپٹے کے پلّو سے رگڑ کر صاف کیا اور ماں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھا ۔ اس سے پہلے کہ رابعہ بیگم کچھ کہتیں چودھری امتیاز علی رعب دار آواز میں گویا ہوۓ ۔

“رابعہ بیگم اس سے کہہ دو کہ ہم اپنی خاندانی رِیت نہیں توڑ سکتے ۔ شادی تو اس کو شاہ زین سے ہی کرنی ہوگی ۔ ”
فرح نے باپ سے بات کرنے کے لیے لب وا ء   کیے ہی  تھے کہ امتیاز علی پھر گرج دار آواز میں بولے !
” میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا اور یہ میرا حرفِ آخر ہے ۔ ”

دو سال بعد امتیاز علی اپنے بیٹے کو سمجھانا چاہ رہے تھے کہ یہ ان کی خاندانی ریت کے خلاف ہے لیکن چودھری ابرار اپنی ضد پر مصر تھا کہ وہ شادی اپنی یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکی ہانیہ سے ہی کرے گا ۔ امتیاز علی کچھ بولتےاس سے پہلے ہی ابرار بول اٹھا ۔

” ابا جان! آپ میری مرضی کے خلاف میری شادی نہیں کر سکتے اگر آپ نے ایسا کیا تو میں یہ حویلی چھوڑ کر چلا جاؤں گا ”
چودھری امتیاز گرنے کے سے انداز میں صحن میں بچھے پلنگ پر بیٹھ گئے اور رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا، ” ٹھیک ہے بیٹا جیسے تم خوش ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔”

Advertisements
julia rana solicitors

گود میں بیٹے کو اٹھاۓ فرح نے افسردہ چہرے کے ساتھ باپ کی سمت دیکھا جہاں لہجے کے ساتھ ساتھ ” حرفِ آخر ” بھی بدل گیا تھا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply