محبت ایسا دریا ہے (افسانہ)۔۔محمد وقاص رشید

رضا ریل گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہل رہا تھا۔ ابھی گاڑی کے آنے میں کچھ دیر تھی، اچانک اسکی نگاہ ایک بینچ پر پڑی۔تو اس پر ایک سکتہ سا طاری ہو گیا۔بینچ پر ایک خاتون اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔یہ شبانہ تھی ،اسے دیکھ کر جو پہلا خیال رضا کے دل کو گویا بھینچ ہی گیا وہ یہ تھا کہ “اسے کیا ہو گیا ہے ؟” وہ تو ایسی تھی کہ لمحے بھر کے لیے دل کو دھڑکنا بھلا دے۔اسے دیکھ کر تو سانس لینا کسی کو یاد کروانا پڑتا تھا،جس کی دید میں ایک ایسا سحر تھا کہ انسان مبہوت ہو جاتا تھا،لمحے بھر کو رضا کو لگا کہ یہ کوئی اور تو نہیں، پھر اس نے اپنے آپ کو کوس دیا، یاداشتوں کی راہداری پر جن کے قدموں کے نشان زندگی بھر نہیں جاتے۔روح کے شبستان میں خوابوں کے محل کے مکین،بھلا کیسے بھلائی جا سکتی تھی۔۔ وہ۔۔۔شبانہ ہی تھی۔
مگر وہ تو ایسی تھی کہ نہ جانے کتنی آنکھوں میں اسے دیکھ کر امیدوں کے ویسے چراغ جلتے ہونگے۔ جیسی اسکی آنکھیں تھیں۔ چراغ کی لو جیسی آنکھیں، نہ جانے کتنے دلوں میں اسے دیکھ کر خوابوں کے ایسے پھول کھلتے ہونگے جیسے پھول اسکے چہرے پر اُگتے تھے۔ گال موتیے اور چنبیلی جیسے، ہونٹ  گلاب کی پتیاں کاٹ کر تراشے ہوئے۔ بہت سی روحوں کی خشک دھرتی پر اسکے بالوں سے گرتے قطروں کی مانند شبنم کے موتی گرتے ہونگے اسے سوچ کر  وہ خیالوں ہی خیالوں میں پوجے جانے کے لائق تھی۔پجاری دلوں کی دیوی،تو پھر اسے ہوا کیا؟۔ یہ سوال رضا کو اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔

رضا ٹہلتے ٹہلتے کوئی ڈیڑھ دہائی پیچھے چلا گیا۔ گلی میں کونے والا گھر راجہ انکل کا تھا۔وہاں راجہ صاحب اپنی بیگم اور دو بچوں کے ساتھ رہتے،ایک بیٹا اور ایک بیٹی،شبانہ انکے بچوں میں سب سے چھوٹی تھی مگر رضا کے لیے شبانہ بہت بڑی تھی، پوری کائنات جتنی بڑی ۔رضا اور شبانہ کے گھرانوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا تھا۔رضا اور شبانہ کے والد ایک ہی جگہ ملازمت کرتے تھے۔

اس کو وہ وقت یاد آ گیا جب بچپن یا لڑکپن سے ایک رنگ کی دکھتی شبانہ اچانک دھنک بن کر نظر آنے لگی تھی۔جب وہ فضا میں ایک خوشبو سی بن کر سانس کو گہرا کرنے کا باعث بننے لگی۔۔ جب وہ سورج ، چاند ، ستارے ، چراغ ،شمع اور جگنو کے بعد روشنی کا ساتواں قدرتی استعارہ بننے لگی۔جب وہ بیٹھی ہوتی یوں لگتا مجسمہ ہے۔جب چلتی تو لگتا مجسمہ تو ساکن ہے زمین رقص کرنے لگی۔پہلے تو وہ صرف بولتی تھی۔اسکے بعد جیسے گانے لگی، گنگنانے لگی، زندگی کو سجانے لگی، جب وہ خوابوں میں آنے لگی۔

یہ نوے کی دہائی کے اواخر کی بات ہو رہی ہے، تب محبت ڈیجیٹل نہیں ہوئی تھی۔ چاہت کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا نہیں تھا،کاغذ قلم اور روشنائی کا سہارا تھا،عشق ابھی وٹس ایپ ،فیس بک اور انسٹاگرام پر نہیں آیا تھا یہ اس پچھلے تہذیبی عہد کی اختتامی دہائی تھی  اور جیسے رضا کے گھر کا ماحول تھا۔ شاید محبت کے اظہار کا موقع ملتا بھی تو یہ اسکے بس کی بات نہ ہوتی۔ تب یک طرفہ طور پر تصور میں کسی کی یاد کی شمع جلا کر قطرہ قطرہ پگھلنے کا نام بھی عشق تھا۔ فضاؤں میں کسی کی قبا کی خوشبو کو پیغامِ محبت سمجھنا سرشاری کا عروج تھا۔ سرِ شام اپنی منڈیر پر کوئی لجاتا جھینپتا سایہ ہی خیالوں میں عقیدت کے چاندکے چمکنے کے لیے کافی تھا۔محبوب کی ایک مسکراہٹ۔ بس ایک مسکراہٹ ہیر رانجھا ، لیلی مجنوں اور سسی پنوں کی داستانوں کو مات دے دیتی تھی۔

شبانہ کا گھرانہ بھی ایسا ہی تھا،محدود وسائل میں نظریات کے سہارے جیتے ہوئے لوگ، اسکے والدین اس پر جان چھڑکتے تھے، بہت پیار کرتے تھے،راجہ صاحب ایک نظریاتی آدمی تھے،اس عالم میں گھر میں صرف سرکاری آمدنی کا آنا عین متوقع تھا  لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پچھلی تہذیب اپنی آخری سانسیں لیتے ہوئے ہی سہی پر جی رہی تھی۔ سو اس وقت کے ہم بچوں اور نوجوانوں کی کوئی اتنی زیادہ آرزوئیں ہوتی ہی نہیں تھیں اور اگر ہوتی بھی تھیں تو ایثار کی سیج پر اپنے ماں باپ کا احساس لیے قربان ہو جاتی تھیں اور یہ باعثِ مسرت ہوتا تھا باعثِ حسرت نہیں۔

ایک دن وہ رضا کی بہن جو اسکی کلاس فیلو تھی اس سے ملنے آئی تو رضا ساتھ والے کمرے میں بیٹھا تھا۔اس نے رضا کی بہن مہرین سے کہا،میں تو شادی وہاں کروں گی جہاں  میرا علیحدہ گھر ہو۔ گاڑی ہو۔ کوئی نوکر چاکر کوئی خدمت گزار،یہ کہہ کر اس نے اپنا مخصوص قہقہہ فضا کی زینت کیا، آج پہلی بار اسکا قہقہہ رضا کو جلترنگ کی صدا کی بجائے اسرافیل کے سور کی طرح لگا،ساتھ والے کمرے میں بیٹھے رضا کی آنکھوں سے ایک دو بوندیں نکلیں اور اسکی چادر میں کہیں گم ہو گئیں جیسے اسکے خواب کہیں گم ہو گئے جیسے اس کے اظہارِ محبت کے لیے جوڑے گئے سب لفظ کہیں کھو گئے۔

مگر اسے ہوا کیا۔؟ یہ سوال رضا کے ذہن کو اسکی تب کی پلکوں کی نوکوں کی طرح کچوکے لگا رہا تھا، اسکے تب کے احوالِ جمال میں اور اب کی حالتِ زار میں زمین آسمان کا فرق تھا۔کہاں وہ اپنے ماں باپ کے ہاتھوں کا چھالہ ہوتی ایک لڑکی اور کہاں یہ سراپا آبلہ بنی ایک عورت، کہاں وہ چراغوں جیسی تابندہ سی آنکھیں کہاں یہ چراغوں تلے اندھیرے جیسی شرمندہ سی آنکھیں ۔۔ کہاں وہ زندگانی کے پہلو کو گدگداتی زلفیں کہاں یہ خزاں کی اداس شام کی یاد دلاتی زلفیں۔وہ چہرے کی صبحِ منورسی رعنائی کہاں اور آج رخ پر یہ اماوس کی رات سی پسپائی کہاں۔
سوچا کیا وہ بیمار تھی، لگتا نہیں تھا  اسکا پیکر اداس تھا۔ بیمار نہیں۔۔مگر اسے ہوا کیا۔ یہ سوال دل میں کوئی پھانس بن کر پیوست ہو گیا۔
رضا کو اسکی اداسی سے وہ شام یاد آ گئی۔جب وہ جا رہی تھی، ریلوے کالونی سے، وہ روانہ ہو رہی تھی زندگی سے،راجہ صاحب ٹرانسفر ہو کر جا رہے تھے راولپنڈی۔رضا چاہتا تھا کہ اسے بتا دے کہ۔۔ کہ ۔۔۔تصور میں محبت کی جلتی ہوئی شمع سے قطرہ قطرہ گرتے موتیوں نے دل میں اسکے نام کا ایک تاج محل بنا رکھا ہے۔اس کی ہر دید سے دل کی ڈالی پہ کھلنے والا پھول اب عشق کی ایک مالا کی صورت اسکے گلے میں ہے۔۔وہ جذبے جو اظہار کی زبان ملنے کو ترس گئے آج سینے میں چاہت کا دیپک راگ الاپتے ہیں۔۔۔ گونجتے ہیں۔۔۔۔ وفائیں جو تشنہ کام رہ گئیں آج عقیدت کی پھوار بن کے من کی دھرتی پر برس رہی ہیں۔ جہاں بھی جانا ہے مجھے دل میں محبت کی صورت بسا کر ساتھ لے جا اے ہجر کی حسین دیوی۔۔
مگر وہ کیا سوچے گی ، میرے ماں باپ کیا سوچیں گے۔انکل راجہ بشارت کیا سوچیں گے۔اسکے بھائی اور میرے دوستوں کو کیسا لگے گا۔ کتنا اعتماد کرتے ہیں وہ لوگ مجھ پر  انکے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ رضا ان سوالات کے نرغے میں جکڑا ہوا ہمیشہ کا خدشات کا مارا ہوا اپنے اندر ہی گھٹ کے مر جانے والا انسان وہیں کھڑا رہا۔آج تک وہیں کھڑا تھا، وہ چلی گئی۔ آج کوئی لگ بھگ ڈیڑھ دہائی کے بعد یوں تب سے 180 ڈگری متضاد صورتحال میں دکھائی دینے کو۔

رضا ایک لمحے کے لئے ٹھٹھکا  اور پھر اپنی چہل قدمی جاری رکھتے ہوئے۔ آگے بڑھنے لگا۔وہاں سے واپس مڑا تواسکی آہنی نگاہ کو جیسے کسی مقناطیس نے کھینچ لیا۔ شبانہ کی آنکھیں مقناطیس ہی تو تھیں۔ اسکی نگاہیں رضا کی نظروں سے چار ہوئیں تو کوئی بجلی کا کوندا آ کر رضا کے دل پر گرا،ایک لمحے کو اسکی چراغ آنکھوں میں وہی لو پھر سے پھڑپھڑائی اور پھر اسی لمحے بجھ گئی۔ ایک دکھ کا دھواں اٹھتے ہوئے رضا نے محسوس کیا۔اسکے بعد ایک قاتل اجنبیت کا جو تاثر شبانہ نے دیا۔ یہی حسنِ مشرقیت ہے۔۔ مگر عشق شرق و غرب سے ماورا جذبہ ہے۔گاڑ دیا رضا کو وہیں پلیٹ فارم پر۔۔اسکی اجنبی ہونے کا تاثر دیتی نگاہیں رضا سے عظیم ، فراز کی شاہکار غزل کا ایک شعر بن کر شکوہ زن تھیں۔
اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں طلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے

رضا تب اس سے اظہار نہ کر پایا تو اب تو خیر۔۔ بقول جنابِ فیض “مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگا “۔خزاں کی سرد شام میں پلیٹ فارم پر گرتے پیپل کے پتے ملکہ ترنم میڈم نور جہاں کی یہ غزل گنگنانے لگے۔ قدم تو جیسے من من کے ہو گئے۔ کھنچتے  اس بینچ کی طرف تھے مگر اسے بہرحال ایک شادی شدہ خاتون کے تقدس کا پاس رکھنا تھا۔شادی شدہ خاتون کا سوچتے اسکے دل پر جیسے نمک لگنے لگا تھا۔ یہ لکھنے کی ضرورت تو ہے نہیں کہ وہ زخمی تو پہلے ہی تھا۔

رضا کو آنکھوں میں اتری نمی جلدی جلدی پونچھنی پڑی کیونکہ پلیٹ فارم کے دوسری طرف سے اسکا ایک پرانا جونیئر کولیگ آ رہا تھا جسے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔ اسکا نام وہاب تھا۔وہاب نے پوچھا۔ سر پنڈی آئے اور بتایا بھی نہیں۔ زیادتی ہے سر جی! رضا نے کہا بس یارا اچانک تھوڑا کام پڑ گیا تھا۔ آپ سناؤ کدھر کی تیاری ہے۔ وہاب نے کہا بس سر ذرا بیگم اور بچوں کو لے کر جہلم جا رہا ہوں۔۔۔ آپ ؟۔میں یار واپس جا رہا ہوں سرگودھا۔۔آپ بتاتے تو سہی ناں سر۔۔آپ کی کوئی خدمت کرتا۔اب آئیں آپ کو چائے شائے پلاتا ہوں۔رضا نے تشکر آمیز لہجے میں کہا نہیں نہیں شکریہ پیارے۔۔پھر سہی انشاللہ۔ آپ ٹائم دیں اپنی فیملی کو،چلیں ٹھیک ہے سرخدا حافظ۔
رضا نے اسے خدا حافظ کہا  اور ایک اور کانٹا اسکے دماغ میں چبھ گیا۔۔ وہاب رضا کے ساتھ پچھلی فیکٹری میں کام کرتا تھا جسے رضا چھوڑ کر دوسری کمپنی کو جائن کر چکا تھا۔ وہاب اکثر گھر سے آتا تو رضا کے آگے آکر دل کے پھپھولے پھوڑتا تھا۔۔ وہاب کی سنائی ہوئی ساری بپتا رضا کو یاد آنے لگی۔ وہاب اکثر اپنے گھریلو حالات کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔اسکے گھر والوں کا سلوک اسکی بیوی کے ساتھ بہت ناروا تھا۔خصوصا ًاسکی والدہ وہاب کے اپنے ساتھ بے انتہا لگاؤ کا بھرپور ناجائز فائدہ اٹھاتی تھیں۔ اسکے ساس اور سسر کے یکے بعد دیگرے وفات پانے کی وجہ سے بھی اسکی بیوی بہت پریشان حال رہتی تھی، اور وہاب نے بتایا تھا کہ اسے تو اب ڈیپریشن تک ہونے لگا تھا۔ وہ اسکی صحت کو لے کر بہت پریشان تھا، مگر اپنی بیوی کو علیحدہ گھر میں رکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔کئی دفعہ بے چارہ رو ہی دیتا۔

پڑھنے والوں کی طرح رضا کو بھی کہانی واضح تر ہو گئی بس قارئین کی طرح اسے بھی حفظ ماتقدم کے طور پر تیقن کا آخری کیل ٹھونکنا تھا داستان میں۔ وثوق کی آخری مہر ثبت کرنی تھی۔وہ بھاگ کر پلیٹ فارم کے دوسری طرف گیا،اور پیپل کے اس درخت کی اوٹ میں لگے چائے کے ڈھابے پر پڑے سٹول پر بیٹھ گیا۔اس نے سگریٹ سلگا لی، اور اسکے دھواں میں سے اخبار کی اوٹ سے دیکھنے لگا۔۔ اسے خبر اخبار سے نہیں زندگی کے ورق سے پڑھنی تھی۔۔ شبانہ کی گود سے اسکی بیٹا نکلا اور بھاگ کر وہاب کی طرف پاپا۔۔ اتنی دیر لگا دی کہہ کر دوڑا۔۔رضا یہ جاننے سے قاصر تھا کہ دھواں سگریٹ سے اٹھ رہا ہے کہ دل سے۔شہنشاہِ غزل جناب مہدی حسن کی غزل ذہن میں گونجنے لگی۔۔۔۔ اور دھویں کے مرغولے فضا میں اس پر رقص کرنے لگے۔۔۔ دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
رضا کے ذہن میں ایک عجیب سا نقشہ ابھرا اور اس نے اس پر عمل کرنے کا پلان بنا لیا۔ رضا نے وہاب کو فون کیا اور گھریلو حالات کا پوچھا۔جس پر اس نے مایوسی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔۔۔کہ پہلے تو آپ ہوتے تھے تو کچھ مشورہ بھی دے دیتے تھے اور نصیحت بھی کر دیتے تھے۔۔۔۔ اب تو بس بند گلی میں پہنچ چکا ہوں۔ رضا نے موقع بہترین جانتے ہوئے کہا، میرے پاس تمہاری پریشانیوں کا حل ہے، وہاب نے بچوں کی طرح استفسار کرتے ہوئے کہا وہ کیسے، جلدی بتائیں پلیز، وہ ایسے کہ تم سوموار کی چھٹی لے کر اتوار کی رات میرے پاس آ جاؤ۔۔ باقی باتیں مل کے کریں گے۔ وہاب نے کہا بتائیں تو صحیح رضا صاحب سر جی۔۔ رضا نے کہا تو آ تو صحیح، فلاں فلاں ٹیکنیکل چیزوں کی تیاری کر کے آنا اور ہاں۔ انصاف کرنے کا عزم لے کر آنا، وہاب نے پوچھا کیا مطلب۔ ؟ رضا نے کہا بس تو نے پانچ دن خود کو یہ بتانا ہے کہ تو نے اب انصاف کرنا ہے،تو نے بھی حق ادا کرنا ہے اور میں نے بھی! خداحافظ

اتوار کی شام وہاب رضا کے ہاسٹل پہنچ گیا۔ وہ تازہ دم ہوا،کھانا کھانے کے بعد، وہ چائے کے کپ ہاتھ میں تھامے لان میں لگی کرسیوں پر آ کر بیٹھ گئے، رضا نے وہاب سے کہا۔۔ کیا سوچا۔ ؟وہاب نے کہا کس بارے۔ ؟او یار تجھ سے جو کہا تھا۔۔
دیکھ وہاب زندگی حقوق کو فرائض کے بڑے حسین امتزاج کا نام ہے۔ حقوق اور فرائض ایک ترازو کے دو پلڑے ہیں، ان دونوں کو آپس میں انصاف کا ایک لنکیج جوڑ کر رکھتا ہے،عقل اور جذبات کے باہم یکساں باٹ ان دونوں میں توازن پیدا کرتے ہیں۔نکاح خدا ہی کا بتایا ہوا سماج کے سب سے بڑے ادارے “خاندان ” کو قائم کرنے کا معاہدہ ہے،اور دنیا کا کوئی ادارہ عدل و انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا،مرد پر ماں اور بیوی کے حقوق کے درمیان توازن قائم کرنا ہی سب سے بڑی آزمائش ہے، باقی تو کاروبارِ حیات ہے۔ ساس اور بہو کے درمیان رقابت کا رشتہ عورت کی ملکیتی نفسیات Possiveness کی وجہ سے ہے۔بد قسمتی سے یہاں انسانی رویوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام نہیں ورنہ ویسے تو معلمِ انسانیت صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا ایک قول حیاتِ انسانی سے متعلق ہر امر کا احاطہ کرتا ہے لیکن ساس اور بہو کے معاملے میں بطورِ خاص ایک نظریاتی اساس کی حیثیت رکھتا ہے کہ “جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہ دوسرے کے لیے پسند کرو” اور جوائینٹ فیملی سسٹم ایک واحد اس صورت میں گوارہ کیا جانا چاہیے اگر اہلِ اختیار خود کو اس حدیث کے رو بہ رو مواخزے کے لیے پیش کر سکیں۔۔۔اور طرفین اس نظامِ حیات کو خوش دلی سے قبول کریں، شادی کے وقت بہو بننے سے کل خود ساس بننے تک تمام کرداروں میں انسانوں کی تربیت ہونی چاہیے۔ آپ کسی ایک کے بنیادی حقوق کو دوسرے پر قربان نہیں کر سکتے۔۔۔کسی ایک کو دوسرے کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔ میں تو ممتاز سکالر غامدی صاحب کی اس بات کو بہت پسند کرتا ہوں کہ نکاح کے وقت یہ چیزیں طے کر لینی چاہئیں۔
وہاب جو بڑے انہماک سے سب کچھ سن رہا تھا کہنے لگا۔۔۔۔ رضا بھائی کروں کیا۔؟
دیکھ پیارے یہ کائنات اشرف المخلوقات انسان کے گرد گھومتی ہے۔۔۔۔ انسان کی تخلیق اس کائنات میں خدا کی سب سے بڑی اسکیم ہے۔خدا ایک انسان کی تخلیق کے لیے اپنی اسکیم میں ایک عورت اور مرد کو شامل کرکے کائنات کے سب سے بڑے عہدے دار بناتا ہے یعنی ماں اور باپ۔۔لیکن ہماری ترجیحات کا تعین غلط ہونے کی وجہ سے ہم اپنے اصل منصب کی حقیقی ذمہ داری کو سمجھتے ہی نہیں۔

بچپن میں اپنی ماں کو مظلوم کردار کے طور پر دیکھنا۔ زندگی بھر بچوں کی نفسیات پر برا اثر ڈالتا ہے۔اپنی ماں کے آنسو معصوم بچے کے دل پر گر کر وہاں ایک چھالا بنا دیتے ہیں ، یہ چھالا مٹ بھی جائے رو نشان باقی رہتا ہے۔۔۔ فراز نے کہا تھا ناں۔
“زخم بھر جائیں مگر زہر تو رہ جاتا ہے ”
زندگی بھر یہ زہر جاتا نہیں ہے۔یہ بات سائنسی تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے، کہ کسی بھی طرح کے متشدد ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے ایک نارمل اور صحت مند ماحول میں پنپنے والے بچوں سے ہر طرح پیچھے رہتے ہیں اور افسوسناک بات یہ کہ انکے معصوم اور ننھے ذہن انہی ابنارمل رویوں کو نارمل سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔۔ اور نتیجتا بڑے ہو کر وہی متشدد رویے اپنا لیتے ہیں۔ تو نے اگلی نسل کو بچانا ہے۔ یہ تیرا فرض ہے وہاب۔۔
لیکن ماں باپ کی خدمت بھی تو فرض ہے۔۔۔۔وہاب نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔۔۔
تو بھائی کس نے کہا کہ نہیں ہے۔۔۔ کوئی شک ہی نہیں۔۔لیکن جس خدا نے ماں کے پیروں تلے جنت رکھی ہے اسی نے بیوی بچے یعنی آپکی رعیت کے بارے میں آپ سے سخت سوال کرنا ہے۔ میں کہہ چکا کہ یہ عدل و انصاف کا توازن قائم کرنا ہی اصل میں مرد کا امتحان ہے۔۔۔۔ اور یاد رکھیں کہ اپنے بچوں کی جنت تباہ حال کر کے اپنی جنت کمانا۔۔۔۔۔ یہ ہماری ذاتی یا جغرافیائی تفہیمِ دین تو ہو سکتی ہے خدا کا منشا نہیں۔۔
وہاب جس کا چہرہ ایک عزمِ نو سے چمکنے لگا تھا۔۔۔ کہنے لگا۔۔۔۔۔ اوہ خدایا میں نے واقعی اپنے بچوں کے ساتھ ظلم کیا۔۔۔۔۔۔کتنا روتے ہیں وہ اپنی ماں کو روتا دیکھ کر۔۔۔ جلتا کڑہتا پا کر کڑہتے رہتے ہیں بے چارے۔
رضا نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے آخری فیصلہ کن چوٹ مارنے کا فیصلہ کیا اور کہا۔۔۔۔ It is never too late۔۔۔ ازالے کا راستہ خدا کبھی بند نہیں کرتا۔۔۔۔ ہم آدم کی اولاد ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ربنا ظلمنا۔ہمارے لیے بھی ازالے کی راہ ہموار کرتا ہے۔۔۔۔خدا تو ہے ہی غفور الرحیم ۔۔
وہاب اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔رضا بھائی۔۔مستقبل کا نقشہ ذہن میں واضح نہیں ہو رہا۔۔
وہاب نے اٹھ کر اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ بڑی سادہ سی بات ہے۔کل تیرا انٹرویو ہو گا۔ تجھے انشاللہ اچھا پیکیج آفر کرے گی کمپنی۔رہائش بھی اس میں شامل ہو گی۔ اپنی فیملی کو یہاں شفٹ کر۔۔۔۔ تنخواہ جو اب لے رہا ہے اس سے تقریبا دو گنا تو ہو گی ہی۔ کیونکہ ہماری کمپنی قابل لوگوں کو اپنے اگلے پلانٹ کے لیے اچھے پیسے دے رہی ہے۔۔۔۔ تو بس اپنی والدہ محترمہ کو بھی پیسے دے۔۔ اپنا کچن بھی چلا۔۔ جس طرح ویک اینڈ پہ گھر جاتا ہے اسی طرح جانا۔۔۔۔ کچھ عرصے بعد گاڑی لے لینا۔تو اور سکھی ہو جاؤ گے۔ اور بس والدین کی مالی خدمت بھی کرو جسمانی بھی۔۔۔۔۔ کچھ کچھ عرصے بعد انہیں یہاں لا کے رکھ کھلا پلا خدمت کر۔۔۔ کپڑے لتے۔ تحفے تحائف۔۔۔۔اللہ بھلی کرے گا۔
اور ہاں اگر یہ سب کچھ سن کر بھی تجھے لگے کہ میں غلط کہہ رہا ہوں تو تیری مرضی۔۔۔ پیارے
وہاب نے کہا نہیں۔۔۔ نہیں رضا بھائی میری تو آنکھوں سے نیند ہی اڑ گئی۔۔۔۔ میں نے اسطرح pragmatically کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ سچ پوچھیں تو ہمت ہی نہیں تھی۔رضا نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کوئی “اور” چہرہ آنکھوں میں لا کر کہا۔۔۔۔وہاب زندگی میں ایک لمحہ ہمت نہ کرنے کی سزا انسان کبھی کبھی ساری زندگی پاتا ہے۔۔۔ زندگی ایک لمحے کی ہمت ہی کا نام ہے۔ ہمتِ مرداں مدد خدا۔۔۔شب بخیر
رضا نے پہلو بدل کر آنکھیں موند لیں اور اسکے ہمیشہ کے ساتھی پلکوں میں تیرنے لگے۔۔۔وہی دو آنسو!
صبح رضا نے وہاب کے انٹرویو کے پینل میں موجود اپنے باس سے بات کی کہ سر وہاب میرے ساتھ کام کرتا رہا ہے۔۔ محنتی اور نیک نیت ہے۔۔ میری نگاہ میں یہ دو بنیادی ستون ہیں کامیابی کے ۔۔ باقی آپ خود دیکھ لیں۔۔۔۔۔ رضا کے باس نے کہا ٹھیک ہے رضا۔۔۔۔ If you have recommended him I am sure he’s worth it۔۔۔۔۔۔۔ چلو let’s see۔۔
لنچ کی میز پر وہاب تو خوشی سے نہال تھا۔۔۔۔ رضا صاحب آپ میرے مسیحا ہیں۔۔۔۔خدا آپ کو اور عزت و منزلت عطا فرمائے۔۔۔۔ آپ نہیں جانتے کہ دل کیا روح بھی آپ کے لیے دعا کر رہی ہے۔۔۔۔ میں نے سب سے پہلے باہر نکل کر اپنی شبانہ کو بتایا۔سوری سر میں خوشی میں پاگل ہی ہو گیا۔میں نے اسکا نام کبھی نہیں لیا آپ کے سامنے۔ شبانہ یہ قہقہہ میں نے بڑی مدت بعد سنا سر۔۔ آپ یقین کریں وہ بھی آپ کو دعائیں دے رہی تھی۔۔۔ شبانہ کا قہقہہ تو گونجنے لگا پوری میس میں۔۔۔ رضا نے بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کیا۔ لیکن نہ کر پایا۔۔ یار یہ میس والے بھی نہ پیاز کاٹتے ہیں اور exhaust fan نہیں چلاتے۔ رضا نے آنکھوں میں آتے آنسوؤں کو پیازوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے ٹشو اٹھایا۔۔۔۔ اور میں آیا کہہ کر واش رومز کی طرف چلا گیا۔۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہاب نے بتایا کہ وہ یکم سے جوائن کرے گا۔۔۔ نوٹس پیریڈ مکمل کر کے۔۔۔اسکے بعد رضا اسے چھوڑنے اڈے پر گیا۔۔۔وہاب نے اس سے کہا رضا بھائی ایک ذاتی سوال کروں۔ ہونہہ رضا نے ایسے کہا جیسے جانتا ہو کہ وہ کیا پوچھے گا۔ رضا بھائی آپ نے شادی کیوں نہیں کی اب تک ؟۔۔رضا نےمصنوعی اور کھوکھلا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔یار یہ بڑی لمبی داستان ہے۔۔۔۔۔ بڑی دکھ بھری کہانی ہے۔ اب رلائے گا کیا۔ یہ کہہ کر دونوں زور سے ہنس دیے۔چلیں یہاں آکر میں آپ کو ڈنر پر بلاؤں گا تو پھر آپ سے سنوں گا درد بھری داستان۔۔۔۔ اور تھوڑی دیر میں لاری اڈا آ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

رات کو رضا اپنے بستر پر دراز ہوا تو ایک عجیب سی سرشاری اسکے رگ و پے میں تھی۔ آج مدت بعد بستر پر لیٹتے ہوئے وہ اداسی اور پژمردگی اسکے دل میں نہیں تھی۔۔۔ شبانہ۔۔اسکی مسکراہٹ اور چہچہاہٹ۔۔۔۔۔ ہاؤسنگ کالونی۔۔۔۔ ڈنر ۔۔شبانہ کے خاوند اور اسکے رقیب کا اسکا جونئیر ہونا۔۔ ایک فاتحانہ مسکراہٹ اسکے چہرے پہ آ گئی۔۔اور وہ اسی سحر میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
تیس تاریخ کو ہاؤسنگ کالونی میں ایک کوارٹر کے سامنے ایک گاڑی رکتی ہے، اس میں سے ایک خاتون اپنے دو بچوں کو لے کر اپنے خاوند کے ساتھ نکلتی ہے۔۔۔ خوشی سے اسکا انگ انگ نہال ہوتا ہے۔ وہ بچوں کی طرح اچھلتی کودتی کوارٹر کے دروازے کی طرف بڑھتی ہے۔ وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک گاڑی کھڑی ہوتی ہے۔۔۔۔ شیشے میں سے کوئی یہ منظر دیکھ رہا ہوتا ہے۔۔۔۔خاتون گھر کے اندر چلی جاتی ہے۔۔دور کھڑی گاڑی آہستہ آہستہ بیرونی گیٹ کی طرف رینگنے لگتی ہے۔یہ رضا تھا۔۔جس نے اسی دن استعفی دے دیا تھا جس دن وہاب کی سلیکشن ہوئی تھی۔۔گاڑی میں امجد اسلام امجد کی ایک غزل لگی ہوتی ہے۔
محبت۔۔۔
ایسا دریا ہے
کہ
بارش روٹھ بھی جائے
تو
پانی کم نہیں ہوتا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply